قربانی کیوں کی جاتی ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 39 - 41 سوره حج / آیه 36 - 38

تفسیر
قربانی کیوں کی جاتی ہے؟


زیرِ بحث آیتوں میں ایک دفعہ پھر مناسک حج، شعائر الله اور قربانی کے مسائل پر گفتگو ہورہی ہے پہلی آیت میں ارشاد ہورہا ہے، موٹے تازے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لئے شعائر الله میں قرار دیا ہے (وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاھَا لَکُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ) ۔
ایک طرف اونٹ تم سے متعلق ہیں اور دوسری طرف وہ الله کی نشانیوں میں سے قرار دیئے گئے ہیں کیونکہ حج کی قربانی اس باشکوہ عبادت کا ایک نمایاں حصّہ ہے جس کے فلسفے کے بارے میں ہم تفصیلاً بات کرچکے ہیں ۔
”بُدن“ بروزن ”قدس“ ہے اور ”بدنہ“ بروزن ”عجلہ“ کی جمع ہے، اس کا معنی موٹا تازہ اور زیادہ گوشت والا اونٹ ہے، چونکہ اس طرح کے جانور قربانی کرنے اور فقراء ومساکین اور ضرورت مندوں کو کھلانے کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں، لہٰذا خصوصی طور پر ایسے جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ احکام قربانی کے مطابق قربانی کے جانور کا موٹا تازہ ہونا ضروری شرائط میں سے نہیں، بس اتنا دیکھا جاتا ہے کہ کمزور اور لاغر نہ ہو۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: اس قسم کے جانوروں میں تمھارے لئے خیر وبرکت ہے (لَکُمْ فِیھَا خَیْرٌ) ۔
یعنی ایک طرف تم ان کے گوشت سے بھی استفادہ کرتے ہو اوروں کو بھی دیتے ہو اور دوسری طرف ایثار، قربانی اور عبادت بجالاکر روحانی نتائج سے بہرمند ہوتے ہو اور اس کا بارگاہ میں رسائی پاتے ہو۔
اس کے بعد قربانی کرنے کی کیفیت کے بارے میں ایک مختصر سا جُملہ ارشاد فرمایا گیا ہے: جب تم قطار میں کھڑے جانوروں کی قربانی کرنے لگو تو الله کا نام لو (فَاذْکُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَیْھَا صَوَافَّ) ۔
بیشک اونٹ کو نحر کرتے وقت یا دوسرے چوپایوں کو ذبح کرتے وقت جس طرح سے بھی الله کا نام لے لیا جائے صحیح ہے اور آیت بھی ظاہری طور پر یونہی کہہ رہی ہے ، لیکن بعض روایات میں ابنِ عباس سے اس موقع کے لئے ایک خاص ذکرِ نقل کیا گیا جو دراصل ایک اکمل ذات کی تعریف ہے، وہ ذکر یہ ہے: (الله اکبر، لاالٰہ الّا الله والله اکبر، اللّٰھمَّ مِنکَ وَلَکَ) ۔(۱)
امام صادق علیہ سے بہت رسا اور عمدہ جُملے نقل ہوئے ہیں، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
جب تم قربانی کرنے لگو اسے قبلہ رولٹاوٴ یا کھڑا کرو اور ذبج یا نحر کرتے وقت یہ پڑھو:
”وجّھتُ وَجھِی لِلّذی فطر السمَوات والارض حنیفاً مسلماً وما اٴنا من المشرکین اِنَّ صلٰوتی ونِسُکِی وَمَحیَای ومَمَاتِی للّٰہِ ربّ العالمین لاشریک لہ، وبذلک امرت واٴنا من المسلمین، اللّٰھُمّ مِنکَ ولَک بسم الله وبِالله والله اکبر، اللّٰھُمّ تقبّل منّی“(۲)

لفظ ”صواف“ ”صافہ“ کی جمع ہے اور اس کا معنی قطار میں کھڑے ہونے کے ہیں، روایات میں ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قربانی کرتے وقت اونٹ کے اگلے دونوں پاوٴں ٹخنے سے لے کر گھٹنے تک باندھ دیئے جائیں، مگر وہ کھڑا رہے تاکہ نحر کرتے ہوئے وہ نہ ہلے اور نہ بھاگے، طبعی طور پر جب خون کی کافی مقدار خارج ہوجاتی ہے تو اگلے پاوٴں ضعف کی وجہ سے کمزور پڑجاتے ہیں اور اونٹ زمین پر لیٹ جاتا ہے ۔ لہٰذا آیت میں اسی کیفیت کا بیان آیا ہے کہ جس وقت اس کا پہلو ساکن ہوجائے (اس کی جان نکل جائے) تو اس کا گوشت خود بھی کھاوٴ، قناعت پیشہ اور غریبوں اور مقروض، محتاجوں کو بھی کھلاوٴ (فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُھَا فَکُلُوا مِنْھَا وَاٴَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ) ۔
”قانع“اور ”معتر“ میں فرق ہے ”قانع“ اس شخص کو کہتے ہیں جسے جو کچھ بھی دیا جائے اسی پر قناعت کرتے ہوئے راضی ہوجائے اور کسی قسم کا اعتراض نہ کرے اور نہ اظہارِ ناراضگی کرے جبکہ ”معتر“ ایک تو سوال کرتا ہے دوسرے بسا اوقات جو کچھ ملے اسے ناکافی جانتے ہوئے تقاضائے مزید کرتا ہے اور جُزبُز ہوتا ہے ۔ ”قانع“ ”قناعت“ کے مادہ سے اور ”معتر“ ”عر“ (بروزن ”شر“ اور بروزن ”شر“) مادہ سے اور اصل میںایک بیماری ہے جسے ”جرب“کہتے ہیں کے معنی میں ہے (یہ خارش کی طرح کی ایک جلدی بیماری ہے) اس کے علاوہ اس سائل کو جو سوال کرنے کے بعد اس پر اصرار کرتا ہے اور کبھی تو کچھ نہ ملنے پر اظہار ناراضگی وخفگی بھی کرتا ہے ”معتر“ کہا جاتا ہے ”قانع“ کو ”معتر“ پر ترجیح اس لئے دی گئی ہے کہ محروم طبقے میں سے سفید پوش، عفیف النفس اور خوددار افراد توجہ کے زیادہ مستحق ہیں ۔
ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے ”کلوا منھا“ اس میں سے کھاوٴ کہہ کر آیت نے ظاہراً ہر حاجی پر واجب کردیا ہے کہ اپنی قربانی کو گوشت خود بھی کھائے، شاید یہ حُکم اُن کے اور غریبوں اور محتاجوں میں مساوات کے لئے ہے ۔
آیت کا اختتام ان الفاظ پر کیا جارہا ہے اس طرح سے ہم نے ان جانوروں کو تمھارے تابع کردیا ہے تاکہ تم شکرگزار بندے بن جاوٴ (کَذٰلِکَ سَخَّرْنَاھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ) ۔
سچ مچ یہ عجیب ہی تو ہے کہ عظیم الجثّہ اور قوی ہیکل جانور اپنی تمام تر قوتِ جسمانی کے باوجود ایک کمزور جسم والے انسان کے آگے گویا بے بس کھڑا ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کے پاوٴں جکڑے اور نحر کرے (نحر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ گردن اور اگلی دوٹانگوں کے ملاپ پر جو گڑھا سا ہوتا ہے اس میں چھُری گھونپ دی جاتی ہے اور جانور تھوڑی ہی دیر میں جان دے دیتا ہے ۔
کبھی یہ ہوتا ہے کہ ان جانوروں کے مطیع ہونے کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے الله ان پر سے مطیع وفرمانبردار رہنے کا حکم اٹھا لیتا ہے، بس اچانک وہی جانور جو ایک بچّے کے پیچھے بھی نہایت فرمانبردار بن کر عام طور پر چلا کرتا ہے، غضبناک اور خطرناک آفت کا روپ دھار لیتا ہے اور کئی طاقتور افراد مل کر بھی اس پر قابو نہیں پاسکتے ۔
بعد والی آیت در اصل ان سوالات کا واضح جواب ہے کہ آخر الله کو قربانی کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ قربانی کا فسلفہ کیا ہے، کیا قربانی اس کے لئے کسی طرح سے فائدہ رساں ہے؟ جواباً فرمایا جارہا ہے: قربان شدہ جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز خدا تک نہیں پہنچتا (لَنْ یَنَالَ اللهَ لُحُومُھَا وَلَادِمَاؤُھَا) ۔ اصولی طور پر خدا کو گوشت کی ضرورت نہیں ہے، وہ تو جسم نہیں ہے اور نہ ہی ضرورت مند ہے وہ اکمل لا متناہی ذات ہے بلکہ وہ چیز جو الله تک پہنچتی ہے وہ تمھارے اعمال نیک اور تمھارا تقویٰ ہے (وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ) ۔
بالفاظ دیگر قربانی سے مقصد یہ ہے کہ تم مدارج تقویٰ طے کرکے ایک انسان کامل بن جاوٴ اور دن بدن الله کے قریب ہوتے جاوٴ، کیونکہ عبادات انسان کے لئے تربیتی کلاسیں ہیں، قربانی انسان کو جانثاری، خودگذشت اور راہِ خدا میں شہادت کا درس دیتی ہے، مزید برآن محتاجوں اور ضرورتمندوں کی مدد کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔
یہ جملہ کہ قربان شدہ جانوروں کا خون تک نہیں پہنچتا، کس مفہوم میں ہے، حالانکہ خون سے ظاہراً کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس جملے سے زیادہ زمانہٴ جاہلیت کی بیہودہ اور فرسودہ رسموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اُس وقت ایک رسم یہ تھی کہ قربانی کا خون بتوں کے سروں پر ملتے تھے اور کبھی تو کعبہ کے درودیوار پر بھی چھڑک دیتے تھے، بعض بے خبر مسلمان بھی چاہتے تھے کہ ان رسومات پر عمل کیا جائے لہٰذا اس آیت سے اِن کو منع کیا گیا ہے ۔(3)
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں ابھی تک یہ بیہودہ رسومات باقی ہیں، چنانچہ جب کبھی مکان کی تعمیر کے سلسلے میں قربانی کرتے ہیں تو جانوروں کا خون بنیادوں، دیواروں یا چھتوں پر چھڑک دیتے ہیں یہاں تک کہ بعض مساجد کی تعمیر کے دوران بھی یہ قبیح عمل دہرایا جاتا ہے، جو مسجد کی نجاست کا سبب بنتا ہے، روشن فکر مسلمانوں کو اس کے خلاف مہم چلانی چاہیے ۔
اس کے بعد ایک مرتبہ پھر جانوروں کے مطیع کئے جانے کی نعمت کا ذکر کیا رہا ہے ”اس طرح سے الله تعالیٰ نے تمھارے چوپایوں کومطیع بنادیا ہے تاکہ تم اپنی ہدایت کئے جانے پر الله کی بڑائی بیان کرو“ (کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللهَ عَلیٰ مَا ھَدَاکُمْ) ۔
مقصد یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی عظمت ورفعت سے شناسائی پیدا کرو جس نے تمھارے لئے فطری اور قانونی دونوں طریقوں سے ہدایت کی ہے، ایک طرف طریقہٴ حج اور سلیقہ اطاعت وبندگی تمھیں سکھایا اور دوسری طرف قوی ہیکل اور طاقتور جانوروں کو تمھارا مطیع وفرمانبردار بنایا تاکہ الله کی اطاعت کرنے، قربانی کرنے، ضرورتمندوں کی ضرورت کو پورا کرنے اور معیشت کا معیار بھی بلند کرنے میں ان سے استفادہ کرو، چنانچہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ”نیکو کاروں کو خوشخبری سنادو“ (وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِینَ) ۔
وہ لوگ جو ان نعمتوں کو الله کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کوبطریق احسن انجام دیتے ہیں اور علی الخصوص اپنا مال ومتاع راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، یہ نیک لوگ نہ صرف دوسروں سے نیکی کرتے ہیں بلکہ اس طرح سے اپنی بھی بہترین خدمت انجام دیتے ہیں ۔

مشرکین کی بعض بیہودہ حرکات کہ جن کا اس سے پہلی آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے کے استقامت کا یہ احتمال ہوسکتا تھا کہ مشرکین ہٹ دھرمی اور تعصّب کی وجہ سے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے مسلمانوں سے بھڑجائیں، چنانچہ پروردگار مومنین کو دلایا دیتا ہے اور اپنی مدد کے وعدے سے ان کو حوصلہ بندھاتے ہوئے فرماتا ہے: ”الله صاحبانِ ایمان کا دفاع کرتا ہے“ (إِنَّ اللهَ یُدَافِعُ عَنْ الَّذِینَ آمَنُوا) ۔
اگرچہ جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین یہودی، نصاریٰ اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے قبیلے اور خاندان باہم متحد ہوکر اپنے زعم باطل میں مومنین کو دباکر نیست ونابود کردینا چاہتے تھے، مگر الله نے قیامت کے لئے بقائے اسلام اور سلامتی مومنین کا وعدہ فرمایا، مشرکین کے خلاف مومنین کے دفاع کا وعدہ دورِ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ہی مخصوص نہیں تھا، بلکہ تمام ادوار واعصار پر یکساں جاری وساری ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ ہم ”الَّذِینَ آمَنُوا“ کا مصداق بنیں، پھر خدائی دفاع لازمی امر ہے اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی، بیشک الله مومنین کی حمایت اور دفاع کرتا ہے ۔
آیت کے آخری حصّے میں مشرکین اور اس کے ہم ذہنیت لوگوں کا الله ہاں مقام اس طرح بتایا گیا ہے: الله کسی بددیانت ناشکرے کو پسندنہیں کرتا (إِنَّ اللهَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ) ۔
وہی کہ جو الله کا شریک بناتے ہیں یہاں تک کہ ”لبّیک“ کہتے ہوئے واضح طور پر بتوں کا نام پکارتے ہیں اور یوں اپنی بددیانتی پر مہر تصدیق صبر کرلیتے ہیں، اس طرح قربانی کرتے ہوئے الله کا نام چھوڑکر بتوں کا نام لیتے ہوئے کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ازاین حالات کیسے ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ان بددیانت اور کفران نعمت کرنے والے کو پسندکرے ۔

 
 


۱۔ اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر مجمع البیان اور ”روح المعانی“ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ۔
۲۔ وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۱۳۸، ابواب الذبح، باب۳۷
3۔ کنز العرفان، ج۱، ص۳۱۴

 

سوره حج / آیه 39 - 41 سوره حج / آیه 36 - 38
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma