نباتات اور انسان کی پیدائش میں قیامت کے دلائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 8 - 10 سوره حج / آیه 5 - 7

تفسیر
نباتات اور انسان کی پیدائش میں قیامت کے دلائل


گذشتہ آیات میں مبداء ومعاد کے بارے میں مخالفین کے شکوک وشبہات سے متعلق گفتگو کی جارہی تھی، زیرِ بحث آیتوں میں جسمانی معاد کو ثابت کرنے کے لئے دو بڑی مضبوط عقلی دلیلیں دی گئی ہیں، ایک دلیل جنین (اور شکم مادر کے دور) سے متعلق ہے، دوسری زمین کی حالت میں تبدیلی یعنی مٹی سے ہریالی اور پھر نباتات میں نمو وبالیدگی سے متعلق ہے) در اصل قرآن مجید کا منشاء یہ ہے کہ قیامت کے وہ مناظر جن کا مشاہدہ عام طور پر انسان اس دنیا میں کرتا رہتا ہے، مگر اکثر وبیشتر ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کھول کر پیش کرے تاکہ انسان خوب سمجھ لے کہ موت کے بعد نہ صرف یہ کہ زندگی ناممکن نہیں ہے بلکہ وہ زندگی اس قدر فطری ہے کہ اس کی کئی مثالیں ہر روز اس کے سامنے آتی رہتی ہیں ۔
سب سے پہلے تمام انسانوں سے یوں خطاب کیا گیا ہے: اے لوگو! اگر تمھیں روز قیامت زندہ ہونے کے بارے میں شکوک وشبہات ہیں تو اس دنیوی زندگی پر ہی نظر ڈال لو کہ ہم نے تمھیں مٹی سے نطفہ بنایا، نطفے سے جمے ہوئے خون میں بدلا ، جمے ہوئے خون سے چبائے ہوئے گوشت میں ڈھالا جن میں سے بعض کسی شکل وصورت کے حامل ہوتے ہیں اور بعض نہیں
(یَااٴَیُّھَا النَّاسُ إِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ)(۱) یہ سب اس لئے ہے کہ تم پر کھل کر واضح ہوجائے کہ ہم ہرکام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں: (لِنُبَیِّنَ لَکُمْ)، اور پھر ان جنین میں سے جن کو ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی خلقت کی مدّت مکمل کریں، ان کے رحم میں ایک خاص مدّت تک رکھتے ہیں، جبکہ دوسروں کو درمیانی مدّت ہی میں ساقط کردیتے ہیں (وَنُقِرُّ فِی الْاٴَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی) ۔ پھر ایک انقلابی دور کا آغاز ہوتا ہے اور ہم تمھیں بچے کی صورت میں پیدا کردیتے ہیں (ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا) ۔ اس طرح تمھاری زندگی کا محدود اور انحصاری دور شکم مادر میں پورا ہوتا ہے، اس کے بعد تم ایک ایسے ماحول میں قدم رکھتے ہو، جو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ وسائل، مواقع اور روشنی رکھتا ہے ، یہاں تمھاری ترقی وتکامل تگ و دو ختم نہیں ہوجاتی بلکہ سرعت کے ساتھ اس کو جاری رکھتے ہو، ”مقصد یہ ہے کہ تم جسمانی اور عقلی اعتبار سے کمال تک جا پہنچو“ (ثُمَّ لِتَبْلُغُوا اٴَشُدَّکُمْ) ۔ اس منزل پر تمھاری نادانی، دانائی، کمزوری طاقت اور محتاجی خو اختیاری میں بدل جاتی ہے، لیکن یہ کمال منزل آخر نہیں، بلکہ مزید مراحل بھی ہوتے ہیں، البتہ بعض افراد انتقال کرجاتے ہیں اور بعض مذکورہ کمال کے بعد تنزل کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، حتّیٰ کہ دنیوی زندگی کے بدترین دور یعنی انتہائی بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں ۔ (وَمِنْکُمْ مَنْ یُتَوَفَّی وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ)، اس مرحلے میں آدمی کی معلومات اور تجربات میں سے کچھ بھی اس کے دماغ میں نہیں رہتا، نسیان اور بھول چوک کے پردے اس کی عقل پر پڑجاتے ہیں اور واقعی اس کی ایک بچے کی سی کیفیت ہوجاتی ہے (لِکَیْلَایَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا) ۔
یہ کمزوری، ضعف اور پژمردگی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی ایک نئے انتقالی مرحلے کے نزدیک پہنچ چکا ہے، بالکل اسی طرج جیسے پھل پک جاتا ہے تو درخت سے اس کارشتہ ٹوٹنے کا وقت یقینی ہوتا ہے ۔
یہ عجیب وغریب تغیر وتبدل پروردگارِ عالمین کے لئے بے پناہ اختیارات کا منھ بولتا ثبوت ہے اور اس حقیقت کو اُجاگر کرتا ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنے کے سمیت الله تعالیٰ کے لئے ہر کام آسان کام ہے ۔
دوسری دلیل روئیدگی اور نباتات کی پیداوار سے متعلق بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ انسان سے یوں مخاطب ہے ”موسم خزاں میں زمین کو تو بنجر اور چٹیل دیکھتا ہے، مگر جونہی ہم ہم اس پر حیات بخش بارش برساتے ہیں، بہار آجاتی ہے، زمین میں حرکت، نمودار بالیدگی پیدا ہوجاتی ہے، ہر طرف طرح طرح کے پودے اور گھاس لہلہانے لگتے ہیں ۔
(وَتَرَی الْاٴَرْضَ ھَامِدَةً فَإِذَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَاءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاٴَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَھِیجٍ)(۲)

بعد والی دو آیتوں میں پروردگار عالم مذکورہ بالا دلیلوں سے مجموعی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے، پانچ نکات میں ان کا مقصد بیان کرتا ہے ۔
۱۔ انسان اور نباتات کی زندگی کے مختلف مراحل کو اس لئے بیان کیا گیا تاکہ تم سمجھ لو کہ الله حق ہے
(ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ ھُوَ الْحَقُّ) ۔ چونکہ وہ خود حق ہے، لہٰذا اس کا پیدا کردہ نظام بھی برحق ہے اور قطعاً بے مقصد نہیں ہوسکتا، یہی نکتہ قرآن مجید میں ایک اور جگہ یوں بیان ہوا ہے:
<وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا بَاطِلاً ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا
”ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے، اسے بے کار پیدا نہیں کیا یہ تو کفارہ کا وہم وگمان ہے“(ص/۲۷)
چونکہ یہ کائنات بے مقصد نہیں، دوسری طرف زندگی کا اصلی مقصد اس کائنات تک محدود نہیں، لہٰذا لازمی طور پر معاد اور قیامت کا وجود ہے ۔
۲۔ اس عالم حیات وممات پر حکمران نظام ہم پر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ: وہی ہے جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے
(وَاٴَنَّہُ یُحْیِ الْمَوْتیٰ) ۔ وہی ہے جو مٹی کے بدن کو زندگی کے لباس سے آراستہ کرتا ہے اور حقیر نطفے کو انسان کامل کا شرف بخشتا ہے، مردہ زمینوں میں جان ڈالتا ہے، اس دُنیا میں اس کی ذات کی طرف مسلسل حیات آفریں پروگرام مشاہدہ کرنے کے بعد بھی کیا قیامت کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہ کیا جاسکتا ہے ۔(3)

۳۔ پروردگار عالمین ہر چیز پر قادر ہے، کوئی کام بھی اس کے لئے ناممکن نہیں
(وَاٴَنَّہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) ۔ کیا وہ ذات جو بے جان مٹی کو نطفے میں تبدیل کرتی ہے، پھر اس حقیر نطفے کو مرحلہ وار نمو دیتے ہوئے ہر روز ایک نئی زندگی دیتی ہے، خشک بنجر اور جامد زمین کو اس طرح ہمہ گیر زندگی دیتی ہے کہ تھوڑی سی مدّت میں سرسبز وشاداب کھیتیاں ہر طرف لہلہاتی نظر آئیں، اس بات پر قادر نہیں ہوسکتی کہ موت کے بعد انسان کو پھر سے زندہ کرے؟
۴۔ یہ بھی سمجھ لو کہ اس جہان کے خاتمے اور دوسرے جہاں کی ابتداء کے لئے ایک وقت مقرر ہے جس کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا
(وَاٴَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَارَیْبَ فِیھَا) ۔
۵۔ یہ زندگی دنیا کا تمام کاروبار در اصل کسی نتیجے اور انجام کا مقدمہ ہے اور اس نتیجے کے دن سبحانہ، ان سب کو جو قبروں میں پڑے ہوں گے زندہ کرے گا ۔
(وَاٴَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ)
مذکورہ بالا پانچ نتائج کہ جن میں سے بعض تمہید ہیں، بعض اصل مضمون بعض امکانی کیفیت لئے ہوئے، جبکہ
”واقع“ ہیں، ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے ایک نُقطے پر جا ملتے ہیں، وہ یہ کہ قیامت یعنی مُردوں کا حشر ونشر نہ صرف یہ کہ امکان پذیر ہے بلکہ واقعی ہوگا، وہ لوگ جو حیات بعد ممات میں شک کرتے ہیں وہ شب وروز اس دنیا میں نباتات، حیوانات اور انسان کی زندگی اور موت کا اپنی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ وہ خدائی قدرت پر شک کریں، کیا انسان ابتداء میں مٹی سے نہیں بنا؟ تو پھر تعجب کی کیا بات ہے کہ ایک فرقہ مرنے اور مٹی میں دفن ہونے کے بعد پھر اُٹھالیا جائے، کیا ہر سال ہماری آنکھوں کے سامنے اس متی سے ترو تازہ کھیتیاں نہیں نکلتیں تو پھر کون سے تعجب کی بات ہے کہ اگر کئی سالوں بعد مُردہ انسان جاندار ہوکر مٹی سے اُٹھ کھڑا ہو۔
اگر دوسری زندگی کے بارے میں ان کو شک ہے تو ان کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جو نظام آفرینش اس دنیا میں جاری وساری ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ زندگیٴ دنیا کا کوئی مقصد ہے، اگر نہیں تو یہ کام تمام کاروبارِ دنیا بیہودہ اور عبث ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ یہ چند روزہ زندگی جو سینکڑوں مشکلات، پریشانیوں اور تکالیف سے عبارت ہے، قطعاً کسی قسم کی قدر وقیمت اور حیثیت نہیں رکھتی کہ اس حیرت انگیز کائنات کا وجود، نصب العین اور مقصد اصل قرار پائے، اس بناء پر ماننا پڑے گا کہ اس عالم کے بعد کوئی دوسرا جہان ضرور وجود رکھتا ہے، جو اس دنیا کے مقابلے میں کہیں وسیع وعریض دائمی اور ابدی ہے اور اس زندگی کی اصل منزل بننے کے لائق ہے ۔


چند اہم نکات
۱۔ انسانی زندگی سات مراحل پر مشتمل ہے


مذکورہ بالا آیتوں میں حقیقت قیامت کی تشریح کے ذیل میں سیر تکاملِ انسانی کے سات مراحل گِنوائے گئے:
پہلا مرحلہ جب انسان محض مٹی ہوجاتا ہے، ہوسکتا ہے مٹی سے مراد وہ مٹی ہو، جس سے حضرت آدم علیہ السلام بنائے تھے، یہ امکان بھی ہے کہ اس مٹی سے قطع نظر ہر انسان متی سے بنتا ہے، کیونکہ نُطفے کے اجزاء انسانی خوراک سے بنتے ہیں اور خوراک مٹی کے اجزاء مرکب ہوتی ہے ۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ انسانی جسم کا ایک اہم حصّہ پانی آکسیجن اور کاربن پر مشتمل ہوتا ہے کہ جو مٹی سے نہیں لیا گیا، لیکن بدن کے تمام بنیادی اعضاء چونکہ مٹی سے بنتے ہیں، لہٰذا یہ تعبیر سوفیصد صحیح ہے کہ انسان مٹی سے ہے ۔
دوسرا مرحلہ نُطفے کا ہے، بے حس بے جان پاوٴں میں روندی جانے والی مٹی نطفے میں تبدیل ہوجاتی ہے، وہ نطفہ جس میں نہایت چھوٹے چھوٹے ذی روح اجزاء ہوتے ہیں جو صرف خورد بین ہی سے دیکھے جاسکتے ہیں، مرد کے نطفے کے اجزاء کو ”اسپرم“ اور عورت کے اجزاء کو ”اوول“ کہتے ہیں، یہ جاندار اجزاء اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ ایک مرد کے نُطفے میں شاید کئی لاکھ ”اسپرم“ موجود ہوں ۔
زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ پیدائش کے بعد انسان آہستہ آہستہ اور تدریجاً نشو ونما پاتا ہے اور یہ نشو ونما زیادہ ترکیب کے حساب سے ہوتی ہے، جبکہ رحم مادر میں نشو ونما تیز تبدیلیوں اور حرکت کے ساتھ کیفیت کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔
رحم مادر میں جنین کی کیفیت حیرت انگیز طریقے سے مسلسل بدلتی رہتی ہے، اس کی مثال ایسے ہے، جیسے ایک معمولی سی پن چند ماہ میں ایک ہوائی جہاز کی شکل اختیار کرجائے، موجودہ زمانے میں ”جنین“ پر بڑی تحقیق کی جاچکی ہے، ماہرین کو موقع ملا ہے کہ جنین کے مختلف مراحل کا مطالعہ کریں اور خدا کی عجیب وغریب قدرت سے لوگوں کو آگاہ کریں ۔
تیسرا مرحلہ علقہ ہے، یہ نطفے کی تبدیل شدہ صورت ہے، جب نطفہ شہتوت کے دانہ کی طرح ایک جمے خون کے ٹکڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اسے سائنسی اصطلاح میں
”مورولا“ کہا جاتا ہے، کچھ مدّت بعد جنین کے چاروں طرف ایک خلاء سا پیدا ہوجاتا ہے، در اصل یہ جنین کے اطراف کی تقسیم کی ابتداء کا مرحلہ ہے اور اس کیفیت کو ”لاستولا“ کہتے ہیں ۔
چوتھے مرحلے میں یہی ٹکڑا چبائے ہوئے گوشت میں تبدیل ہوجاتا ہے، بغیر اس کے کہ اس اعضاء کی کوئی شکل وصورت واضح ہو، اچانک ”جنین“ کی پتلی سی کھال میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، اعضاء بدن ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں اور ہر عضو اپنے مخصوص کام کے لحاظ سے متشکل ہوجاتا ہے، بعض جنین جو اس تبدیلی سے قاصر رہتے ہوئے اپنی سابقہ حالت ہی میں باقی رہ جائیں یا ناقص رہ جائیں وہ ساقط ہوکر خارج ہوجاتے ہیں
(مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ) ہوسکتا ہے یہ اشارہ مکمل خلقت وغیر خلقت کی طرف ایک اشارہ ہو۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بال چار مراحل کے ذکر کے بعد قرآن مجید نے
”لِنُبَیِّنَ لَکُمْ“ کا جملہ ارشاد فرمایا ہے، گویا تھوڑی سی مدّت میں یہ عجیب وغریب تبدیلیاں جو ایک معمولی سے قطرے کو مکمل انسان میں ڈھال دیتی ہیں، اس حقیقت کی واضح دلیل ہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اس کے بعد ”جنین“ کے پانچویں، چھٹے اور ساتویں مراحل کا ذکر ہے جو ولادت کے بعد سے متعلق ہیں یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا ۔
یاد رہے کہ بچے کا ایک زندہ موجود کی صورت میں پیدا ہونا بذات خود ایک زبردست تغیّر وتحرک ہے جو جنین ہی کے پے در پے تغیرات میں شمار ہوتا ہے، اسی طرح بچپن، بلوغ اور بڑھاپا بھی ”جنین“ ہی کے ارتقائی مراحل ہیں، مذکورہ بالا آیہٴ مجیدہ میں ”قیامت کو بعثت“ یعنی اٹھانا یا زندہ کرنا“ سے تعبیر کرنا جنین کے ارتقائی مراحل کی آخری کڑی ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔

۱۔ قابل توجہ یہ بات ہے کہ
”ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ‘ ‘ کے جملے میں ”طِفْلًا “ مفرد استعمال کیا گیا ہے، حالانکہ ظاہراً ”اطفالاً“ چاہیے تھا، اس کی شاہید وجہ یہ ہو کہ ”طفل“ مصدری معنی رکھتا ہے اور اس میں مفرد وجمع یکساں ہوتے ہیں، یا یہ کہ مقصد ”جنین“ کے بارے میں ہے کہ بچوں کے بارے میں جو اس موقع پر چھپے ہُوئے ہوتے ہیں اور بعد میں انھیں ظہور کرنا ہوتا ہے ۔
اس نکتے کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہیے کہ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا اور اس مقدس کتاب نے جنین کے مراحل ایسی علمی وسائنسی گفتگو کی اس وقت نہ کوئی ”جنین کو جانتا تھا اور نہ کوئی ایسا علم ومعرض وجود میں آیا تھا جو اس کی تفصیلات بیان کرے لہٰذا اپنی جگہ پر یہ خودی ایک معجزے سے کم نہیں اور اس حقیقت کی بیّن ثبوت بھی ہے کہ اس کتاب کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے ۔


۲۔ معاد جسمانی


قرآن مجید نے جہاں بھی انسان کی بازگشت کا ذکر کیا ہے، بے شک وہاں انسان کی رُوح اور جسم دونوں ہی مراد ہیں، جنھوں نے معاد کوو صرف روحانی ہونے تک محدود سمجھا اور صرف ارواح کی بقا کے قائل ہیں، انھوں نے قرآنی آیتوں کا بغور مطالعہ نہیں کیا، حالانکہ بہت سی آیتیں مذکورہ بالا آیتوں کی طرف بڑی وضاحتوں کے ساتھ معاد جسمانی کو بیان کرتی ہیں ورنہ جنین کے ارتقائی مراحل اور مردہ زمینوں کی شادابی معاد اور روحانی سے کسی طرح بھی کوئی مشابہت نہیں رکھتی، خصوصاً زیرِ بحث آیتوں کا آخری جملہ جو اس کاروبارِ ہستی کے انجام کو بیان کرتے ہوئے بڑی صراحت سے واضح کرتا ہے
(وَاٴَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ) یعنی جو بھی قبروں میں ہوگا، الله سبحانہ اس کو اٹھالے گا، کیونکہ قبر تو جسم کی جگہ ہے، نہ کہ رُوح کا مسکن، اصولی طور پر مشرکین کی ساری حیرت اور تعجب بھی معاد جسمانی پر تھا، یعنی ان کے پلّے یہ بات نہیں پڑتی تھی کہ مٹی میں خلط ملط ہوجانے والا آدمی دوبارہ کیسے اُٹھ کھڑا ہوگا ۔روح کی بقاء کا مسئلہ نہ صرف یہ کہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں تھی بلکہ ان کو منظور بھی تھا (غور فرمائیے)


۳۔ ”اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ“


”اٴَرْذَل“ ”رذل“ کے مادہ سے مشتق ہے، یعنی گھٹیا اور ناپسندیدہ چیز ”اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ“ یعنی انسان کی عُمر کا ناپسندیدہ زمانہ، جبکہ وہ بڑھاپے کی وجہ سے اپنے کمالات کو اس حد تک کھو بیٹھتا ہے کہ بقول قرآن مجید اپنی معلومات اور تجربات کو بُھول جاتا ہے اور بالکل ایک ناخواندہ اور ناسمجھ بچے کی مانند ہوجاتا ہے ، بچوں کی طرح معمولی باتوں پر پریشان ہوجاتا ہے، پل میں خوش اور پل میں خفا ہوجاتا ہے، صبر وتحمل کا دامن بالکل چھوڑدیتا ہے، مختصر یہ کہ بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ بچے سے اس بات کی توقع نہیں کی جاتی جو ایک بوڑھے آدمی سے کی جاتی ہے اور بچوں کے بارے میں امید کی جاتی ہے کہ رُوح اور جسم میں رشد ونمو کے ساتھ یہ حالات بدل جائیں گے، جبکہ بوڑھے اس امید کے قابل نہیں ہوتے اور یہ کہ بچے کی حالت کسی کمال کے زوال سے نہیں ہوئی جبکہ بوڑھا اپنا تمام مال ومتاع کمال کھوکر اس حالت کو پہنچا ہے، ان جہات کے پیش نظر بوڑھوں کی حالت بچوں کی نسبت زیادہ ناگوار اور افسوسناک ہے، بعض روایات میں ”اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ“ سے سو سال سے زیادہ عُمر مراد لی گئی ہے ۔
یہ عمومی صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے، لیکن ہوسکتا ہے کوئی شخص سو سال سے پہلے ہی ایسی حالت کو پہنچ جائے اور کوئی سو سال کے بعد بھی نہ پہنچے، ہر لحاظ سے چاک وچوبند رہے، خصوصاً عظیم اور اجلّ عُلماء وافاضل ہو جو عموماً تحصیل و ترویج علوم میں مصروف رہتے ہیں، ان میں بہت کم دیکھا گیا ہے کہ ان یہ کیفیت ہو، بہرحال عُمر کے اس حصّے میں خدا سے پناہ مانگنی چاہیے ۔
ضمنی طور پر عرض ہے کہ ان حقائق سے آگاہی ہمیں غرور اور تکبر سے نکالنے کے لئے کافی ہے کہ ہم پہلے کیا تھے، ان کیا ہیں اور آئندہ کیسے ہونے والے ہیں ۔
 



۱۔ ”مضغہ“ ”مضغ“ سے مشتق ہے، جس کے معنی چبانے کے ہیں، یہ لفظ گوشت کی اس تھوڑی سی مقدار کے لئے استعمال کیا گیا ہے جس کو انسان ایک ہی لقمہ میں چباجائے ۔
۲۔ ”ھامدة“ بجھی ہوئی آگ کو ”ھامدة“ کہا جاتا ہے اور یہ لفظ زمین کے اس حصّے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس پر گھاس پھونس زرد، خشک اور مردہ ہوگئی ہو۔ (مفردات راغب)
تفسیر ”فی ظلال “کے مطابق موت حیات کی درمیانی حالت کو ”ھامدة“ کہا جاتا ہے ”اھتزت“ ”ھز“ کے مادہ سے شدت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ”ربت“ ”ربو“ بروزن ”علو“ زیادتی افزائش اور نمو کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ”ربا“ (یعنی سُود) یہیں سے لیا گیا ہے ۔ ”بھیج“ خوبصورت دلکش اور پُرکشش کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
3۔ ”اٴَنَّہُ یُحْیِ الْمَوْتیٰ“ بعض مفسّرین نے اس جملے کو قیامت کے دن انسان کی زندگی کی طرف اشارہ سمجھا ہے، (وَاٴَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ) اس جملے کا معنی بھی کم وبیش وہی ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ پہلا جملہ اصل حیات کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا مُردوں کے زندہ ہونے کی کیفیت کی طرف لیکن ایک اور تفسیر کے مطابق ”اٴَنَّہُ یُحْیِ الْمَوْتیٰ“ کا جملہ اس دنیا میں خدائی مسلسل حیات آفرینی کی طرف اشارہ ہے اور ہم نے بھی اسی تفسیر کو بنیاد بنایا ہے تاکہ قیامت کے بارے میں دلیل قائم کی جاسکے ۔
سوره حج / آیه 8 - 10 سوره حج / آیه 5 - 7
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma