چا رمختلف گروہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند اہم نکات چند قابلِ توجہ نکات

یہ آیات سورہٴ انفال کا آخری حصّہ ہیں، ان میں مہاجرین وانصار اور مسلمان کے دوسرے گروہوں کے ماقام ومرتبے کا ذکر ہے نیز جہاد اور مجاہدین کے بارے میں جاری بحث کی بھی ان آیات میں تکمیل ہوتی ہے۔
ان آیات میں مختلف رشتوں کے حوالے سے اسلامی معاشرے کا نظام بیان کیا گیا ہے کیونکہ جنگ اور صلح کا پروگرام دوسرے عمومی پروگراموں کی طرح صحیح اجتماعی اور معاشرتی رشتوں کو ملحوظ رکھے بغیر نہیں بن سکتے۔
ان آیات میں پانچ گروہوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، ان میں سے چار مسلمان ہیں اور ایک گروہ غیر مسلموں کا ہے۔ مسلمانوں کے چار گروہ ہیں:
۱۔ مہاجرین اوّلین-
۲۔ انصار، اہل مدینہ سے یار وانصار-
۳۔ وہ جو ایمان تو لے لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہ کی-
۴۔ وہ جو بعد میں ایمان لائے اور مہاجرین سے آملے-
زیر بحث پہلی آیت میںکہا گیا ہے : وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کیا اور وہ لوگ کہ جنھوںنے پناہ یاور مدد کی وہ ایک دوسرے کے اولیاء ، ہم پیمان اور ایک دوسرے کا دفاع اور محافظت کرنے والے ہیں (إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا بِاٴَمْوَالِھِمْ وَاٴَنفُسِھِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَنَصَرُوا اٴُوْلٰئِکَ بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ)۔
آیت کے اس حصّے میں پہلے اور دوسرے گروہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، یعنی وہ مومنین جو مکہ میں ایمان لائے اور اس کے بعد انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوروہ مومنین جو مدینہ رسول الله پر ایمان لائے اور آپ کی اور مہاجرین کی مدد کی اور حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ، ان کا ایک دوسرے کے اولیاء، حامی اور متعہد کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے۔
یہ بات جالبِ توجّہہے کہ پہلے گروہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں، پہلی ایمان، دوسری ہجرت، تیسری مالی واقتصادی جہاد (مکہ میں موجود اپنے مال سے صرف نظر کرتے ہوئے یا جنگ بدر میں اپنے مال کی پرواہ نہ کرنے کی صورت میں) اور چوتھی اپنے خون اور جان کے ساتھ راہِ خدا میں جہاد کرنا۔
انصار کے دو وسف بیان ہوئے ہیں: پہلا ”ایواء“ (پناہ دینا) اور دوسرا مددکرنا۔
نیز ”بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ“ کے جملے کے ذریعے سب کوایک دوسرے کے بارے میں جوابدہ قرار دیا گیا ہے۔
حقیقت میںیہ دونوں گروہ اسلامی معاشرے کے تانے بانے کی بنیادی اجزاء کی حیثیت رکھتے تھے، ایک تانے کی اور دوسرا بانے کی حیثیت کا حامل تھا، ان میں کوئی بھی دوسرے سے بے نیاز نہ تھا۔
اس کے بعد تیسرے گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: وہ جو ایمان لائے لیکن انھوںنے ہجرت نہیں کی اور تمھارے نئے معاشرے سے وابستہ نہیں ہوئے ان کے بارے میں تم کوئی ذمہ داری، جوابدہی اور ولایت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں(وَالَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یُھَاجَرُوا مَا لَکُمْ مِنْ وَلَایَتِھِمْ مِنْ شَیْءٍ حَتَّی یُھَاجِرُوا)۔
البتہ اگلے میں اس گروہ کی حمایت اور مسئولیت سے متعلق ایک استثنائی حکم دیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جس وقت یہ لوگ (غیر مہاجر مومنین) تم سے اپنے دین وآئین کی حفاظت کے لئے مدد طلب کریں (یعنی دشمنوں کے شدید دباوٴ میں گھرے ہوں) تو تم پر لازم ہے کہ ان کی مدد کے لئے فوراً جاوٴ

 (وَإِنْ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمْ النَّصْرُ)۔ مگر اس وقت کہ جب ان کے مخالف وہ لوگ ہوں کہ تمھارے اور ان کے درمیان لڑائی نہ کرنے کا عہدوپیمان موجود نہ ہو (إِلاَّ عَلیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِیثَاقٌ)۔
دوسرے لفظوں میں ان کا دفاع اس صورت میں لازم ہے جب وہ مشترک دشمن کے مقابل ہوں جنھوںنے تم سے معاہدہ کررکھا ہے تو پھر معاہدے کا احترام اس بدحال گروہ کے دفاع کی نسبت زیادہ ضروری ہے۔
آیت کے آخر میں ان ذمہ داریوں کی حدود کوملحوظ نظر رکھنے اوران فرامین کی انجام دہی میں دقتِ نظر سے کام لینے کے لئے کہا گیا ہے: جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے بصیر وبینا ہے (وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ)۔
وہ تمھارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے اور تمھاری تمام تر سعی وکاوش اور احساسِ ذمہ داری سے آگاہ ہے، اسی طرح اس عظیم ذمہ داری کے بارے میں بے اعتنائی، سستی ، تساہل اور عدم احساس سے بھی باخبر ہے۔
دوسری طرف آیت میں اسلامی معاشرے کے مدمقابل یعنی کفر اور اسلام کے معاشرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: وہ جو کافر ہوگئے ہیں ان میں سے بعض دوسرے بعض کے اولیاء اور سرپرست ہیں (وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ) ۔ یعنی ان کا تعلق اور پیوند خود انھیں کے ساتھ ہے اور تمھیں کہ ان سے کوئی تعلق قائم کرو اور ان کی حمایت کرو یا انھیں اپنی حمایت کی دعوت دو، نہ انھیں پناہ دو اور ن ان سے پناہ لو، خلاصہ یہ کہ اسلامی معاشرے کے تاروپودا اور تانے بانے میں انھیں دخیل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی تم ان کے معاشرے کے تاروپود میں دخل دو۔
اس کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی کی گئی ہے کہ اگر تم نے اس اسلامی حکم کو نظر انداز کردیا توزمین میں اور تمھارے معاشرے کے گردو پیش میں عظیم فتنہ وفساد بپا ہوگا (إِلاَّ تَفْعَلُوہُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاٴَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ)۔
اس سے بڑھ کر فتنہ وفساد کیا ہوگا کہ تمھاری کامیابی کے نقوش محو ہوجائیں گے اور تمھارے معاشرے میں دشمنوں کی سازیں کارگر ہوں گی اور دینِ حق وعدالت کی راہ کو دُور کردینے کے لئے ان منحوس اور بدبخت منصوبے بے موٴثر ہونے لگیں گے۔
اگلی آیت میں دوبارہ مہاجرین وانصار کے مقام کی اہمیت اور اسلامی معاشرے کے اہداف کی پیش رفت میں ان کا کردار کے احترام کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ جو ایمان لائے ہیں اور انھوںنے ہجرت کی ہے اور راہِ خدا میں جہاد کیا ہے اور وہ کہ جنھوں نے پناہ دی اورمدد کی ہے وہی حقیقی اور سچّے مومن ہیں (وَالَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَنَصَرُوا اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا)۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اسلام کے سخت، دشوار اور غربت کے دنوں میں دینِ خدا اور رسول الله کی مدد کے لئے کسی نہ کسی صورت میں آگے بڑھا ہے اور ”انھیں اس عظیم فداکاری کی وجہ سے بخشش اور شائس رزق نصیب ہوگا“ (لَھُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ)۔ وہ خدا کی بارگاہ میں اور دوسرے جہان میں بھی عظیم نعمات سے بہرہ ور ہوں گے اور اِس جہان میں بھی نفع نفع ، عظمت، سربلندی، کامیابی، امن وامان اور اطمینان کا شائستہ حصّہ حاصل کریں۔
آخری آیت میں مسلمانوں کے چوتھے گروہ یعنی ”بعد کے مہاجرین“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ جو اس کے بعد ایمان لے آئیں اور ہجرت کریں اور تمھارے ساتھ شریکِ جہاد ہوں وہ بھی تم میں سے ہیں (وَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا مَعَکُمْ فَاٴُوْلٰئِکَ مِنْکُمْ)۔ یعنی اسلامی معاشرے کے دائرہ کا تنگ یا کسی گروہ پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے دروازے آئندہ کے تمام مومنین، مہاجرین اور مجاہدین کے لئے بھی کھلے ہوئے ہیں، پہلے مہاجرین اگرچہ ایک خاص مقام ومرتبہ رکھتے ہیں لیکن یہ برتری اس معنی میں نہیں کہ آئندہ کے مومنین اور مہاجرین جو اسلام کے نفوذ اور پیش رفت کے وقت اس کی طرف جھکے اور اس سے آملے ہیں وہ اسلامی معاشرے کی بُن وبافت کا جز نہیں ہیں۔
آیت کے آخر میں رشتہ داروں اور عزیزوں کی ایک دوسرے کےلئے ولایت واولویت کے متعلق تھی اور اس آخری آیت میں خداتعالیٰ تاکید کرتا ہے کہ یہ ولایت واولویت رشتہ داروں کے لئے قوی اور زیادہ جامع صورت میں ہے کیونکہ مسلمان رشتہ دار ایمان وہجرت کی میراث کے علاوہ رشتہ داری کی ولایت بھی رکھتے ہیں(وَاٴُوْلُوا الْاٴَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اٴَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللهِ)۔
اسی بناپر وہ ایک دوسرے کی میراث لیتے ہیں جب کہ رشتہ داروں کے علاوہ دسرے شریکِ میراث نہیں ہوتے۔
لہٰذا آخری آیت صرف میراث کا حکم بیان نہیں کرتی بلکہ ایک وسیع معنی کی حامل ہے کہ جس کا ایک جزء میراث بھی ہے، اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایات اور تمام فقہی کتب میں احکامِ ارث کے لئے اس آیت اور سورہٴ اجزاب کی اس سے ملتی جلتی آیت سے استدلال ہوا ہے تو یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ آیت مسئلہ ارث میں منحصر ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ آیت ایک عمومی قانون یان کررہی ہو جس کا ایک اہم حصّہ میراث بھی ہے۔
اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول الله کی جانشینی کے مسئلہ میں کہ مالی میراث میں داخل نہیں ہے بعض اسلامی روایات میںسے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے نیز غسل میت وغیرہ کے مسائل میں بھی رشتہ داروں کی اولویت کے لئے اسی آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔
جو کچھ سطورِ بالا میں کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جو بعض مفسّّرین نے اصرار کیا ہے کہ یہ آیت صرف میراث کے بارے میں ہے، بے وجہ اور بے دلیل ہے، اگر ہم اس آیت کی تفسیر کرنا چاہیں تو اس کا صرف یہی طریقہ ہے کہ اسے گذشتہ آیت میں مہاجرین وانصار کے مابین بیان شدہ ”ولایت مطلقہ“ سے ایک استثناء سمجھیں اور کہیں کہ آخری آیت کہتی ہے کہ مسلمانوں کی عمومی ولایت میں ایک دوسرے کی میراث لینا شامل نہیں ہے۔
باقی رہا یہ احتمال کہ گذشتہ آیات کے بارے میں بھی ہے اور اس کے بعد آخری آیت نے اس حکم کو نسخ کردیا ہے یہ بہت بعید نظر آتا ہے کیونکہ ان آیات کا مفہوم کے اعتبار سے اور معنوی لحاظ سے آپس میں ارتباط یہاں تک کہ لفظی مشابہت بھی بہت نشاندہی کرتی ہے کہ یہ سب کی سب ایک ساتھ نازل ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے یہ ناسخ ومنسوخ نہیںہوسکتیں۔
بہرحال آیات کے مفہوم کے ساتھ زیادہ مطابق وہی تفسیر رکھتی ہے جو ہم نے ابتداء میں ذکر کی ہے۔
آیت کے آخری جملہ میں جو کہ سورہٴ انفال کا آخری جملہ ہے فرمایا گیا ہے: خدا ہر چیز کوجانتا ہے (إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ)۔
انفال ، جنگی غنائم، نظامِ جہاد، صلح، جنگی قیدی اور ہجرت وغیرہ سے مربوط تمام احکام جو اس سورہ میں نازل ہوئے ہیں سب دقیق منصوبہ بندی اور حساب وکتاب کے ماتحت ہیں جوکہ انسانی معاشرے ، بشری تقاضوں اور ہر پہلو سے ان مصالح سے مطابقت رکھتے ہیں۔

 

چند اہم نکات چند قابلِ توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma