شدّتِ عمل، پیمان شکنوں کے مقابلے میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
جنگی طاقت میں اضافہ اور اس کا مقصددو اہم نکات

یہ آیات دشمنانِ اسلام کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی پوری پُر حوادث تاریخ میں مسلمانوں پر سخت ضربیں لگائیں اور بالآخر اس دردناک انجام کا سامنا کیا۔
یہ گروہ، وہی مدینہ کے یہودی تھے جنھوںنے بارہا رسول الله کے ساتھ عہدوپیمان باندھا اور پھر بزدلانہ طور پر اسے توڑ یا۔
یا آیات ایک مستحکم طریقہ بیان کررہی ہیں جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو اس پیمان شکن گروہ کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے، ایسا طریقہ کہ جو دوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو اور اس گروہ کے خطرے کو بھی دور کرے۔
پہلے قرآن اس جہاں کے زندہ موجودات میں سے بے وقعت ترین اور گھٹیا ترین وجود کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے:زمین پر چلنے والے بدترین لوگ خدا کے نزدیک وہ ہیں جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اور اسی طرح اس پر چلتے رہتے ہیں اور کسی طرح ایمان نہیں لاتے

(إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللهِ الَّذِینَ کَفَرُوا فَھُمْ لَایُؤْمِنُونَ)۔
”اَلَّذِینَ کَفَرُوا“ کی تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہے کہ مدینہ کے بہت سے یہودی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ظہور سے پہلے اپنی کتب کی روشنی میں آپ سے لگاوٴ اور ایمان کا اظہار کرتے تھے بلکہ آپ کے مبلغ اور لوگوں کو آپ کے ظہور کے لئے تیار کرتے تھے لیکن آپ کے ظہور کے بعد چونکہ انھیں اپنے مادی مفادات خطرے میں نظر آئے تو کفر کی طرف جھک گئے اور اس راہ میں انھوںنے ایسی شدّت کا مظاہرہ کیا کہ ان کے ایمان کی کوئی امید باقی نہ رہی جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ”فَھُمْ لَایُؤْمِنُونَ“۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: یہ وہی لوگ تھے جن سے تم نے عہد وپیمان باندھا تاکہ کم از کم غیرجانبداری ہی کا لحاظ رکھیں اور مسلمانوں کو آزار وتکلیف پہنچانے کے درپے نہ ہوں اور دشمنانِ اسلام کی مدد نہ کریں لیکن انھوں نے ہر مرتبہ اپنا پیمان توڑدیا (اَلَّذِینَ عَاھَدْتَ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَھْدَھُمْ فِی کُلِّ مَرَّةٍ)۔(۱)
نہ انھیں خدا سے کوئی شرم وحیا آتی تھی اور نہ وہ اس کے فرمان کی مخالفت سے ڈرتے تھے اور نہ ہی وہ انسانی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے کوئی پرواہ کرتے تھے (وَھُمْ لَایَتَّقُونَ)۔
”ینقضون“ ”یتقون“فعل مضارع کا صیغہ ہیں اور استمرار پر دلالت کرتے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے کئی مرتبہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے کئے ہوئے عہد وپیمان توڑے تھے۔
اگلی آیت میں اس پیمان شکن، بے ایمان اور ہٹ دھرم گروہ سے طرزِ سلوک کے بارے میں قرآن کہتا ہے: اگر انھیں میدانِ جنگ میں پاوٴ اور وہ مسلح ہوکر تمھارے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں تو ان کی ایسے سرکوبی کرو کہ جو گروہ ان کے پیچھے ہوں وہ عبرت حاصل کریں اور منتشر ہوجائیں اور اپنے آپ کو پیش نہ کریں (فَإِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِھِمْ مَنْ خَلْفَھُمْ)۔
”تَثْقَفَنَّھُمْ“ ”ثقف“ (بروزن ”سقف“ کے مادہ سے ہے اس کا مطلب ہے ”کسی چیز کو دقّت سے اور تیزی سے سمجھنا“۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی تنقید اور اعتراضات سے تیزی سے اور دقتِ نظر سے آگاہی حاصل کرو اور اس سے پہلے کہ تم پر وہ بے خبری میں کوئی جنگ ٹھونس دیں بجلی کی طرح ان پر جاپڑو۔
”شرد“ ”تشرید“ کے مادہ سے ”حالتِ اضطراب میں منتشر کرنے“ کے معنی میں ہے۔ یعنی ان پر اس طرح سے حملہ کرو کہ دشمنوں اور پیمان شکنوں کے دیگر گروہ منتشر ہوجائیں اور حملہ کرنے کی نہ سوچیں، یہ حکم اس بناپر ہے کہ دوشرے دشمن بلکہ آئندہ کے دشمن عبرت حاصل کریں اور ججنگ کی طرف بڑھنے سے اجتناب کریں اور اسی طرح جو لوگ مسلمان سے عہد وپیمان رکھتے ہیں یا آئندہ کوئی پیمان باندھیں تو عہد وپیمان توڑنے سے اجتناب کریں اور شاید سب کے سب سمجھ سکیں اور متذکر ہوں(لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُونَ)۔
”اور اگر وہ تیرے سامنے میدان میں نہ آئیں لیکن ان سے ایسے آثار وقرائن ظاہر ہوں کہ وہ پیمان شکنی کے درپے ہیں اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ خیانت کریں گے اور بغیر اطلاع کے ایک طرفہ طور پر پیمان توڑدیں گے تو تم پیش قدمی کرو اور انھیں بتاو کہ ان کا پیمان لغو ہوچکا ہے۔ (وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْبِذْ إِلَیْھِمْ عَلیٰ سَوَاءٍ)
ایسا نہ ہو کہ ان کا پیمان لغو ہونے کی اطلاع دیئے بغیر ان پر حملہ کردو کیونکہ خدا خیانت کرنے والوں اور ان لوگوں کو جو اپنے پیمان میں خیانت کرتے کی راہ اختیار کریں دوست نہیں رکھتا (إِنَّ اللهَ لَایُحِبُّ الْخَائِنِینَ)۔
اگرچہ مندرجہ بالا آیت میں رسول الله کو اجازت دی گئی ہے کہ دشمن کی طرف سے خیانت اور ایمان شکنی کے خوف کے موقع پر ان کے پیمان کو لغو قرار دیں لیکن واضح ہےکہ یہ خوف بغیر دلیل کے نہیں ہوسکتا لہٰذا اس سلسلے میں یہ بات حتمی ہے کہ جب وہ کچھ ایسے اعمال کے مرتکب ہوں جو نشاندہی کریں کے وہ پیمان شکنی،دشمن سے مل کر سازش کرنے اور غفلت کی حالت میں حملہ کرنے کی فکر میں ہیں تو پھر اتے قرائن اور علاات مہیّا ہوجانے پر اس بات کی اجازت ہے کہ پیغمبر ان کے پیمان کے لغو ہوجانے کااعلان کریں۔
”فَانْبِذْ إِلَیْھِمْ“ ”اِنْبَاذْ “ کے مادہ سے پھینکنے یا اعلان کرنے اور بتانے کے معنی میں ہے یعنی ان کا پیمان ان کی طرف پھینک دو اور لغو قرار دے دو اور اس کے لغو ہونے کی انھیں اطلاع دے دو۔
”علیٰ سواء “ کی تعبیر یا تو اس معنی میں ہے کہ جس طرح انھوں نے اپنے پیمان کو لغوکردیا ہے تم بھی اپنی طرف سے لغو قرار دے دو، یہ ایک عادلانہ اور مساویانہ حکم ہے یا یہ اس معنی میں ہے کہ ایک واضح غیر مخفی اور ہر قسم کے مکر وفریب سے پاک طریقے سے اعلان کردو۔
بہرحال زیرِ نظر آیت جہاں مسلمانوں کو تنبیہ کررہی ہے کہ وہ کوشش کریں کہ پیمان شکن ان پر حملہ آور نہ ہوجائیں وہاں انھیں معاہدوں کی حفاظت کرنے یا عہدو پیمان لغو کرنے کے سلسلے میں انسانی اصولوں کو ملحوظ رکھنے کے بارے میںبھی کہہ رہی ہے۔
زیرِ بحث آخری آیت میں روئے سخن پیمان شکن گروہ کی طرف کرتے ہوئے انھیں تنبیہ کی گئی ہے کہ ”کہیں ایسا نہ ہو کہ کفر اختیار کرنے والے لوگ یہ تصور کریں کہ وہ اپنے خیانت آمیز اعمال کے ذریعے کامیاب ہوگئے ہیں اور ہماری قدرت اور سزا وعذاب کے قلمرو سے نکل گئے ہیں“ (وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَبَقُوا)۔ وہ ہمیں ہرگز عاجز نہیںکرسکتے اور ہمارے اجاطہٴ قدرت سے نہیں نکل سکتے(إِنَّھُمْ لَایُعْجِزُونَ)۔

 

۶۰- وَاٴَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھِمْ لَاتَعْلَمُونَھُمْ اللهُ یَعْلَمُھُمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَاٴَنْتُمْ لَاتُظْلَمُونَ
۶۱- وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ إِنَّہُ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ
۶۲- وَإِنْ یُرِیدُوا اٴَنْ یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللهُ ھُوَ الَّذِی اٴَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ
۶۳- وَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ لَوْ اٴَنفَقْتَ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا مَا اٴَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَلَکِنَّ اللهَ اٴَلَّفَ بَیْنَھُمْ إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
۶۴- یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللهُ وَمَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ
ترجمہ
۶۰۔ ان دشمنوں کے مقابلے کے لئے جتنی ”قوت“ ممکن ہوسکے مہیّا کرو اور تیّار رکھو اسی طرح (میدان جنگ کے لئے) طاقتور اور تجربہ کار گھوڑے (بھی تیار رکھو) تاکہ اس سے خدا کے اور اپنے دشمن کو ڈرا سکو اور (اسی طرح) ان کے علاوہ دوسرے گروہ کو کہ جنھیں تم نہیں پہچانتے اور خدا انھیں پہچانتا ہے اور جو کچھ تم راہ خدا میں (اسلامی دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے) خرچ کرو گے تمھیں لوٹا دیا جائے گا اور تم پر ظلم وستم نہیں ہوگا۔
۶۱۔ اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی بابِ صلح کی طرف داخل ہو اور خدا پر تکیہ کرو کہ وہ سننے اور جاننے والا ہے۔
۶۲۔ اور اگر وہ تمھیں دھوکا دینا چاہیں تو خدا تمھارے لئے کافی ہے اور وہی ہے کہ جس نے تجھے اپنی اور مومنین کی مدد سے تقویت پہنچائی۔
۶۳۔ اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا کردی اور اگر وہ دلوں میں الفت پیدا کرنے کے لئے روئے زمین کی تمام چیزوں کو صرف کردیتے تو ایسا ہرگز نہ کرسکتے لیکن خدا نے ان کے درمیان الفت پیدا کردی وہ توانا اور رحیم ہے۔
۶۴۔ اے نبی! خدا اور وہ مومنین جو تیری پیروی کرتے ہیں تیری حمایت کے لئے کافی ہیں۔

 


۱۔ ”من“ ”عاہدت منھم“ میں یا تبعیض کے معنی میں یعنی جزیرہ نمائے عرب کے یہودیوں کے ایک گروہ یا مدینہ کے یہودیوں کے سرداروں سے تم نے پیمان باندھا تھا یا اصلاح کے مطابق ”صلہ“ کے لئے ہے اس کا معنی ”عاہدتھم“ (تونے ان سے عہد یا) ہوگا یہ بھی احتمال ہے کہ یہ جملہ ”اخذ العھد منھم“ (تو نے ان سے عہد لیا) کے معنی ہو۔

 

جنگی طاقت میں اضافہ اور اس کا مقصددو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma