بدر کے تربیتی درس

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
جہاد سے فرار ممنو ع ہےتفسیر

یہ آیات جنگ بدر کے حسّاس مواقع کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اس خطرناک موقع پر خدا نے مسلمانوں کو جن کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا ان میں ان کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ان میں اطاعت اور شکرگزاری کا جذبہ ابھارا جائے اور ان کے سامنے آئندہ کی کامیابیوں کا راستہ کھول دیا جائے۔
پہلے فرشتوں کی مدد کا ذکر ہے، ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب دشمن کی کثرتِ تعداد اور ان کے زیادہ جنگی سازوسامان سے وحشت واضطراب کے باعث تم نے خدا کی پناہ لی اور دستِ حاجت اس کی طرف دراز کیا اور اس سے مدد کی درخواست کی (إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ)۔
کچھ روایات میں آیا ہے کہ خدا سے استغاثہ اور مدد طلب کرنے میں رسول الله بھی مسلمانوں کے ساتھ ہم آواز تھے آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کررکھے تھے اور کہہ رہے تھے:
اللّٰھمّ انجز لی ماوعدتنی اللّٰھمّ ان تھلک ہٰذہ العصابة لاتعبد فی الارض-
خدایا! مجھ سے جو تو نے وعدہ کیا تھا اُسے پورا کردے ۔ پروردگار! اگر مومنین کا یہ گروہ مارا گیا تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
آپ نے اس تسغاثہ اور دعا کو اتنا طول دیا کہ عبا آپ کے دوش مبارک سے گرگئی۔(۱)
اس وقت خدا نے تمھاری دعا اور درخواست کو قبول کرلیا اور فرمایا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری نصرت کروں گا جوایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہوں گے(فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اٴَنِّی مُمِدُّکُمْ بِاٴَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ مُرْدِفِینَ)۔ ”مردفین“ کا مادہ ”ارداف“ ہے، اس کا معنی میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ ایک ہزار کا دستہ تھا اور دیگر دستے اس کے پیچھے تھے۔ اس طرح سے سورہٴ آل عمران کی آیہ ۱۲۴ بھی اس مفہوم پر منطبق ہوجاتی ہے جس میں ہے کہ پیغمبر نے مومنین سے کہا:
کیا یہ کافی نہیں ہے کہ خدا نے تمھاری تین ہزار فرشتوں کے ساتھ مدد کی۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ جنگ بدر میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور ”مردفین‘ ‘ اس ایک ہزار کی صفت ہے، سورہٴ آل عمران کی آیت مسلمانوں سے ایک خدا ئی وعدہ تھا کہ اگر ضرورت پڑھی تو خدا مزید تمھاری مدد کے لئے بۺیجے گا۔
اس کے بعد کہ کہیں یہ خیال پیدا ہو کہ کامیابی فرشتوں یا اِن جیسوں کے ہاتھ میں ہے، فرمایا گیا ہے: خدا نے ایسا صرف بشارت کے طور پر اور تمھارے اطمینانِ قلب کے لئے کیا (وَمَا جَعَلَہُ اللهُ إِلاَّ بُشْریٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِہِ قُلُوبُکُمْ)۔ ورنہ کامیابی تو صرف خدا کی طرف سے ہے اور ان ظاہری اور باطنی اسباب کے اوپر اس کا ارادہ مشیت ہے ( وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللهِ)۔ کیونکہ ایسا خدا قادر وقوی ہے کہ کوئی بھی اس کے اراد ہ اور مشیّت کے سامن نہیں ٹھہرسکتا اور ایسا حکیم ودانا ہے کہ اس کی مدد اصل افراد کے علاوہ کو نہیں پہنچتی (إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ)۔
کیا فرشتوں نے جنگ گی تھی؟
مفسّرین کے درمیان اس سلسلے میں بہت اختلاف ہے۔
بعض کا نظریہ ہے کہ فرشتے یاقاعدہ معرکہ جنگ میں شریک ہوئے اور انھوں نے ایسے ہتھیاروں سے دشمن کے لشکر پر حملہ کیا جو انہی سے مخصوص تھے۔ انھوں نے ان میں سے کچھ افراد کو ڈھیر کردیا۔ اس سلسلے میں ان مفسّرین نے کچھ زیادہ روایات بھی نقل کی ہیں۔
کچھ قرائن ایسے بھی ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرے گروہ کا نظریہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتے صرف مومنین کی دلجوئی اور روحانی تقویت کے لئے نازل ہوئے تھے ۔ کیونکہ:
۱۔ ہم مندرجہ بالا آیت میں پڑھ چکے ہیں کہ فرمایا گیا ہے : یہ سب کچھ تمھارے اطمینانِ قلب کے لئے تھا تاکہ اس پشت پناہی کے احساس سے بہتر طور پر جنگ کرسکو، نہ یہ کہ فرشتوں نے جنگ کے لئے قدم بڑھایا۔
۲۔ اگر فرشتوں نے بہادرانہ جنگ سے دشمن کے سپاہیوں کو چت کردیا تو مجاہدین بدر کی کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے جو روایات میں بڑے زور وشور سے بیان کی گئی ہے۔
۳۔ بدر میں شدمن کے مقتولین کی تعداد ستر(۷۰) افراد ہے۔ اس میں ایک بڑا حصّہ حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے قتل ہوا اور باقی دیگر مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان مجاہدین میں سے بیشتر کے نام تاریخ میں مذکور ہیں اس بناء پر فرشتوں کے لئے کونسے باقی رہ جاتے ہیں اور انھوں نے کتنے افراد قتل کئے۔
اس کے بعد خداتعالیٰ مومنین کو اپن یدوسری نعمت باد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب تمھیں اونگھ نے گھیر لیا جو خدا کی طرف سے تمھارے جسم وروح کے لئے باعثِ سکون تھی (إِذْ یُغَشِّیکُمْ النُّعَاسَ اٴَمَنَةً مِنْہُ)۔”یغشی“”غشیان“ کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے ڈھاپنا اور احاطہ کرنا۔ گویا نیند ایک پردے کی طرح ان پر ڈال دی گئی اور اس نے انھیں ڈھانپ لیا۔
”نعاس“ نیند کی ابتدا (اونگھ) یا تھوڑی اور ہلکی سی آرام بخش نیند کو کہا جاتا ہے اور شاید اس طرف اشارہ ہے کہ عین استراحت کے باوجود اس طرح گہری نیند تم پر مسلط نہیں ہوئی کہ دشمن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تم پر شبخون مارے۔ اس طرح مسلمانوں نے ا س پُر اضطراب رات میں اس عظیم نعمت سے فائدہ اٹھایا جس نے اگلے روز میدان جنگ میں ان کی بڑی مدد کی۔
تیسری نعمت جو اس میدان میں تمھیں عطا کی گئی یہ تھی کہ آسمان سے تم پر پانی برسا (وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً)۔ تاکہ اس کے ذریعے تمھیں پاک کرے اور شیطانی نجاست تم سے دور کرے (لِیُطَھِّرَکُمْ بِہِ وَیُذْھِبَ عَنکُمْ رِجْزَ الشَّیْطَانِ)۔
یہ نجاست ہوسکتا ہے شیطانی وسوسے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شب بعض کے مجنب ہوجانے کی وجہ سے جسمانی ناپاکی ہو یا ممکن ہے دونوں قسموں کی نجاست ہو۔
بہرحال اس حیات بخش پانی نے جو بدر کے اطراف کے گھڑوں میں جمع ہوگیا تھا۔ دشمن نے کنویں اپنے قبضے لے رکھے تھے اور مسلمانوں کو طہارت اور پینے کے لئے پانی کی سخت ضرورت تھی۔ اس حالت میں بارش کے اس پانی نے ان سب نجاستوں کو دھوڈالا اور انھیں بہالے گیا۔
علاوہ ازیں خدا چاہتا تھا کہ اس نعمت کے ذریعے تمھارے لوں کو محکم کردے (وَلِیَرْبِطَ عَلیٰ قُلُوبِکُمْ)۔ نیز چاہتا تھا کہ یہ ریتلی زمین جس میں تمھارے پاوٴں دھنس جاتے تھے اور پھسل جاتے تھے بارش کے برسنے کی وجہ سے مضبوط ہوجائے تاکہ تمھارے قدم مضبوط ہوجائیں(وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاٴَقْدَامَ)۔
ثابت قدمی سے مراد روح کی تقویت اور جوش وولولہ میں اضافہ ہو یا ہوسکتا ہے دونوں چیزیں مراد ہوں۔
مجاہدینِ بدر پر پروردگار کی نعمتوں میں سے ایک نعمت وہ خوف وہراس تھا جو دشمنوں کے دلوں میں ڈال دیا گیا تھا جس نے ان کے حوصلوں کو متزلزل کررکھا تھا، اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں اور تم اہلِ ایمان کو تقویت دو اور انھیں ثابت قدم رکھو (إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَائِکَةِ اٴَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا)۔ اور عنقریب میں کافروں کے دلوں میں خوف اور وحشت ڈال دوںگا

(سَاٴُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ)۔
واقعاً یہ عجیب وغریب بات تھی کہ تواریخ کے مطابق مسلمانوں کے چھوٹے سے لشکر کے مقابلے قریش کی طاقتور فوج نفسیاتی طور پر اس قدر شکست خوردہ ہوچکی تھی کہ ان میں سے ایک گروہ مسلمانوں سے جنگ کرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل میں سوچتے کہ یہ عام انسان نہیں ہیں، بعض کہتے کہ یہ موت کو اپنے اونٹوں پر لادکر مدینہ سے تمھارے لئے سوغات لائے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دشمن کے دل میں یہ خوف ڈالنا کہ جو کامیابی کے عوامل میں سے ایک موٴثر عامل ہے، بلاوجہ نہ تھا۔ مسلمانوں کی وہ پامردی، ان کی نماز جماعت، ان کے حرارت بخش شعار اور سچّے مومنین کا اظہارِ وفاداری، سب کچھ اپنی تاثیر مرتب کررہا تھا۔
سعد بن معاذ انصار کے نمائندہ کے طور پر خدمتِ پیغمبر میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے الله کے رسول! ہم آپ پر ایمان لائے اور ہم نے آپ کی نبوت کو گواہی دی ہے کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں خدا کی طرف سے ہے، آپ جو بھی حکم دینا چاہیں دیجئے اور ہمارے مال میں جو کچھ آپ چاہیں لے لیں، خدا کی قسم اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ اس دریا (دریائے احمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جو وہاں سے قریب تھا) کود پڑو تو ہم کو پڑیں گے، ہماری یہ آرزو ہے کہ خدا ہمیں توفیق دے کہ ایسی خدمت کریں جو آپ کی آنکھ کی روشنی کا باعث ہو۔
جی ہاں، ایسی گفتگو جو دوست اور دشمن میں پھیل جاتی تھی، اس استقامت کے علاوہ جو وہ پہلے ہی مکہ میں مسلمان مردوں اور عورتوں میں دیکھ چکے تھے۔ سب باتیں اکھٹی ہوگئیں اور اس سے دشمن وحشت زدہ ہوگیا۔
دشمن کی طرف سخت آندھی چل رہی تھی، اُن پر موسلا دھار بارش برس رہی تھی، عاتکہ کے وحشت ناک خواب کا بھی مکہ میں چرچا ہوچکا تھا، یہ اور دوسرے عوامل مل کر انھیں خوفزدہ کئے ہوئے تھے، اس کے بعد الله تعالیٰ نے میدانِ بدر میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ذریعے مسلمانوں کو جو پیغام دیا تھا وہ انھیں یاد دلایا جارہا ہے اور وہ یہ کہ: مشرکین سے جنگ کرتے وقت غیرموٴثر ضربوں سے پرہیز کرو اور انھیں ضائع نہ کرو بلکہ دشمن پر کاری ضربیں لگاوٴ ”گردن سے اُوپر ان کے مغز اور سر پر ضرب لگاوٴ“ (فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْاٴَعْنَاقِ)۔ ”اور ان کے ہاتھ پاوٴں بیکا رکردو“ (وَاضْرِبُوا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ)۔
”بَنَانٍ“ ”بَنَانة“ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے ہاتھ پاؤں کی انگلی کی پور، خود انگلی کو بھی ”بَنَانة“ کہتے ہیں۔ زیر بحث آیات میں ہوسکتا ہے ہاتھ پاؤں کے لئے کنایہ کے طور پر یہ لفظ آیا ہو اور یا پھر اپنے اصل معنی میں ہو، کیونکہ اگر ہاتھ کی انگلیاں کٹ جائیں اور بے کار ہوجائیں تو انسان ہتھیار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو چلنے کی طاقت نہیں رہتی۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اگر حملہ آور دشمن پیادہ ہو تو اسکے سر کو نشانہ ن بناوٴ اور اگر سوار ہو تو اس کے ہاتھ پاوٴں کو۔
جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ بعض اس جملے کو ملائکہ سے خطاب سمجھتے ہیں لیکن قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ اس میں مخاطب مسلمان ہی ہیں اور اگر فرشتے بھی مخاطب ہوں تو ہوسکتا ہے کہ دماغ اور ہاتھ پاوٴں پر ضرب لگانے سے مراد یہ ہو کہ ان پر اسیا خوف طاری کرو کہ کام کرتے ہوئے ان کے پاوٴں ہل جائیں اور سر نیچے جھک جائیں (البتہ یہ تفسیرظاہر عبارت کے خلاف ہے اور ملائکہ کے جنگ نہ کرنے کے بارے میں قرائن بیان کئے جاچکے ہیں اسی کوثابت سمجھنا چاہیے)۔
ان تمام باتوں کے بعد اس بنا پر کوئی ان سخت فرامین اور سرکوبی کرنے والے ان لازمی وقطعی احکام کو آئین جوانمردی اور رحم وانصاف کے خلاف تصور نہ کرے فرمایا گیا ہے: وہ اس چیز کے مسحتق ہیںکیونکہ وہ خدا اور اس کے پیغمبر کے سامنے عداوت، دشمنی، نافرانی اور سرکشی پر اُتر آئے ہیں (ذٰلِکَ بِاٴَنَّھُمْ شَاقُّوا اللهَ وَرَسُولَہُ)۔
”شَاقُّوا“”شقاق“ کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے شگاف اور جدائی اور چونکہ مخالف دشمن اور معصیت کار اپنی صف جدا کرلیتا ہے لہٰذا اس عمل کو ”شقاق“ کہتے ہیں اور جو شخص بھی خدا اور پیغمبر کی مخالفت کے دروازے سے داخل ہوگا وہ دنیا وآخرت میں دردناک سزا میں گرفتار ہوگا کیونکہ (جس طرح اس کی رحمت وسیع اور لامتناہی ہے) اس کی سزا بھی شدید اور دردناک ہے (وَمَنْ یُشَاقِقْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ)۔
اس کے بعد اس امر کی تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے: اس دنیا کی سزا کا مزہ چکھو، میدان جنگ میں کاری ضربوں، قتل، قید او شکست کی سزا بھگتو اور دوسرے جہاں کی سزا کے منتظر رہو (کیونکہ جہنم کی) آگ کا عذاب کافروں کے انتظار میں ہے (ذَلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَاٴَنَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ)۔

 

۱۵- یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ الَّذِینَ کَفَرُوا زَحْفًا فَلَاتُوَلُّوھُمَ الْاٴَدْبَارَ
۱۶- وَمَنْ یُوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ اٴَوْ مُتَحَیِّزًا إِلیٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللهِ وَمَاٴْوَاہُ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ
۱۷- فَلَمْ تَقْتُلُوھُمْ وَلَکِنَّ اللهَ قَتَلَھُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللهَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ
۱۸- ذَلِکُمْ وَاٴَنَّ اللهَ مُوھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِینَ
ترجمہ
۱۵۔ اے ایمان والو! جب میدانِ جنگ میں کافروں کا سامنا کرو تو ان سے پشت نہ پھیرو۔
۱۶۔ اور جو شخص اس وقت ان سے پیٹھ پھیرے گا مگر یہ کہ اس کا مقصد میدان سے پلٹ کر نیا حملہ کرنا یا (مجاہدین کے) گروہ سے ملنا ہو، تو (ایسا شخص) غضبِ پروردگار میں گرفتار ہوگا اور اس کی قرارگاہ جہنم ہے اور یہ کیسی بُری جگہ ہے۔
۱۷۔ یہ تم نہ تھے جنھوںنے انھیں قتل کیا بلکہ خدا نے انھیں قتل کیا ہے اور (اے پیغمبر!) یہ تُو نہ تھا(کہ جس نے اُن کے چہروں پر مٹی پھینکی) بلکہ خدا نے پھینکی تھی اور خدا چاہتا تھا کہ وہ مومنین کو اس طرح سے آزمالے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۱۸۔ مومنین اور کافرین کی سرنوشت یہی تھی جو تم نے دیکھ لی اور خدا کفار کی سازشوں کو کمزور کرنے والا ہے۔

 


۱۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-

 

جہاد سے فرار ممنو ع ہےتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma