تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
اسلام اور کفر کا پہلا تصادم۔ جنگ بدرمومن کی پانچ خصوصیات

اس سورہ کی پہلی آیت میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ نئے مسلمانوں میں کچھ لوگ جنگ بدر کے غنائم کی تقسیم کی کیقیت سے ناراض تھے یہاں تک کہ زیر بحث آیات میں بھی خداوندعالم انھیں کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ کوئی چیز تمھیں اچھی نہ لگے چاہے تمھاری مصلحت اسی میں ہو جیسا کہ خود جنگ بدر تم میں سے بعض کو ناپسند تھی کہ جس کے مالِ غنیمت کے بارے میں اب تم گفتگو کررہے ہو لیکن تم نے دیکھا کہ آخرکار وہ مسلمانوں کے لئے درخشاں نتائج کی حامل ہوئی لہٰذا احکام الٰہی کو اپنی کوتاہ نظر سے نہ دیکھو بلکہ ان کے سامنے سرتسلیم خم کرو اور ان کے اصلی نتائج سے فائدہ اٹھاؤ۔
پہلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے : غنائمِ بدر پر کچھ افراد کی یہ ناگواری ایسے ہی ہے جیسے خدا نے تجھے تیرے گھر اور مقام مدینہ سے حق کے ساتھ باہر نکالا جبکہ کچھ مومنین اس سے کراہت کررہے تھے اور اسے ناپسند کرتے تھے (کَمَا اٴَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِھُونَ)۔
”بِالْحَقِّ“ اس طرف اشارہ ہے کہ خروج کا یہ حکم الٰہی اور پیغامِ آسمانی کے مطابق دیا گیا تھا کہ جس کا نتیجہ اسلامی معاشرے کے حق میں تھا۔
یہ ظاہر بین اور کم حوصلہ لوگ بدر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اس فرمانِ حق کے بارے میں مسلسل تجھ سے مجادلہ اور گفتگو کرتے رہے اگرچہ وہ جانتے تھے کہ یہ حکم خدا ہے پھر بھی اعتراض سے باز نہیں آتے تھے(یُجَادِلُونَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ)۔ اور انھیں خوف وہراس نے یوں گھیر رکھا تھا جیسے انھیں موت کی طرف دھکیلا جارہا ہو اور گویا وہ اپنی موت اور نابودی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں (کَاٴَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنظُرُونَ)۔
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ کس قدر غلط فہمی کا شکار تھے اور بلاوجہ خوف وہراس میں گرفتار تھے اور جنگ بدر مسلمانوں کے لئے کیسی درخشاں کامیابی لے کر آئی تو یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود انھوں نے جنگ بدر کے بعد مالِ غنیمت کے سلسلے میں زبان اعتراض کیوں دراز کی ہے۔
ضمنی طور پر ”فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ“ کی تعبیر سے واضح ہوتا ہے کہ اوّل تو یہ جھگڑا اور گفتگو منافقت اور بے ایمانی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ایمان کی کمزوری اور اسلامی مسائل کے بارے میں کافی دانش وبینش نہ ہونے کی وجہ سے تھی۔
دوسری بات یہ کہ صرف چند افراد ہی ایسی فکر رکھتے تھے اورمسلمانوں کی اکثریت جو سچّے مجاہدوں پر مشتمل تھی فرمانِ پیغمبر اور ان کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے تھی۔

 


۷- وَإِذْ یَعِدُکُمْ اللهُ إِحْدیٰ الطَّائِفَتَیْنِ اٴَنَّھَا لَکُمْ وَتَوَدُّونَ اٴَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ وَیُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ-
۸- لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ-
ترجمہ
۷۔ اور وہ وقت یاد کرو جب خدا نے تم سے وعدہ کیا کہ قریش کے تجارتی قافلے اور (ان کا لشکر، ان) دوگروہوں میں سے تمھارے لئے ایک ہوگا (اور تم اس پر کامیاب ہوجاؤگے) لیکن خدا چاہتا ہے کہ اپنے کلمات سے حق کو تقویت دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے (لہٰذا لشکر قریش سے تمھاری مڈبھیڑ کروادی)
۸۔ تاکہ حقثابت ہوجائے اور باطل ختم ہوجائے اگرچہ مجرم اسے ناپسند کرتے ہوں اور اس سے کراہت کرتے ہوں۔

 

اسلام اور کفر کا پہلا تصادم۔ جنگ بدرمومن کی پانچ خصوصیات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma