چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
تدریجی سزادوزخیوں کی نشانیاں

چند اہم نکات

۱۔ اسماء حسنیٰ کیا ہیں: شیعہ وسنّی کتب وتفسیر میں اسماء حسنیٰ کے سلسلہ میں تفصیلی ملتی ہیں کہ جن کا خلاصہ اور اپنا نکتہٴ نظر ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اسماء حسنیٰ “ کا مطلب ”اچھے نام“ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ پروردگار کے سب نام اچھے اپنے اندر اچھے مفاہیم ہی رکھتے ہیں تو اس بناپر اس کے سب نام ہی حسنیٰ ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ذات پاک کی صفات ثبوتیہ میں سے ہوں مثلاً ”عالم وقار“یا یہ کہ ذات مقدس کی صفات سلبیہ میں سے ہوں ۔ جیسا کہ ”قدوس“ یا وہ جو صفات فعل ہیں جو اس کے کسی فعل کی ترجمانی کرتی ہیں مثلاً خالق ، غفور، رحمٰن اور رحیم۔
دوسری طرف اس میں بھی شک نہیں کہ صفات باری تعالیٰ کا احاطہ اور شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے کمالات اور لامحدود ہیں اور اس کے ہر کمال کے لئے کوئی نام اور صفت ہم انتخاب کرسکتے ہیں، لیکن جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی صفات میں سے بعض بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور ”اسماء حسنیٰ“ جوکہ اُوپر والی آیت میں آئے ہیں شاید ان میں ممتازتر صفات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ وہ روایات جو پیغمبر اکرماور آئمہ اہلبیت(علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بارہا یہ مطلب نظر سے گذرا ہے کہ خدا کے ننانوے نام ہیں اور جو شخص بھی اسے ان ناموں کے ساتھ پکارے اس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے وہ اہل بہشت میں سے ہے ۔
مثلاً وہ روایت جو کتاب توحیدِ صدوقۺ میں امام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء واجداد کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:
”إنّ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ تسعة وتسعین إسماً، ماٴة الّا واحدة، من اٴحصاھا دخل الجنة...(1)
”الله تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“
نیز کتاب توحید ہی میں امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے ان کے اباء واجداد کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”إنّ اللّٰہ عزّوجلّ تسعة وتسعین إسماً مَن دَعا اللّٰہ بھا استجاب لہ ومن اٴحصاھا دخل الجنة...(2)
”یعنی خدا تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کے ذریعے الله کو پکارے اُس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“
صحیح مسلم، بخاری، ترمذی اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث میں بھی یہی مضمون خدا کے ننانوے ناموں کے بارے میں درج ہے اور یہ بھی کہ جو خص خدا کو اُن کے ساتھ پکارے اس کی دعا قبول ہوگی یا جو شخص انھیں شمار کرے وہ اہلِ بہشت میں سے ہوگا(3) ان میں سے بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ننانوے نام قرآن مجید میں ہیں، مثلاً وہ روایت جو ابنِ عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:
”للّٰہِ تسعة وتسعون إسماً من اٴحساھا دخل الجنة وھی فی القرآن“(4)
الله کے ننانوے نام گننے والا جنت میں جائے گا اور وہ قرآن میں ہیں ۔
اس لئے بعض علماء نے کوشش کی ہے کہ وہ ان ناموں اور صفات کو قرآن مجید سے اخذ کریں لیکن خدا کے جو نام قرآن مجید میں آئے وہ ننانوے سے زیادہ ہیں لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اسماء حسنیٰ انھیں کے درمیان ہوں اور یہ درست نہیں کہ ننانوے ناموں کے علاوہ خدا کا اور کوئی نام نہیں ۔
بعض روایات میں یہ ننانوے نام آئے ہیں، ہم ذیل میں ان میں سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں (لیکن یاد رہے کہ ان میں سے بعض نام جس طرح اس روایت میں آئے ہیں اس طرح متن قرآن میں نہیں ہیں لیکن ان کا مضمون ومفہوم قرآن میں موجود ہے)
اور یہ وہ روایت ہے جو ”توحیدِ صدوقۺ“ میں امام صادق علیہ السلام سے ان کے آباء واجداد کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں اس طرف اشارہ فرمانے کے بعد خدا کے ننانوے نام ہیں آپ فرماتے ہیں:
وھی اللّٰہ، الالٰہ، الواحد، الاحد، الصمد، الاوّل، الاٰخر، السمیع، البصیر، القدیر، القادر، العلی، الاعلیٰ، الباقی، البدیع، الباریء، الاکرم، الباطن، الحی، الحکیم، العلیم، الحلیم، الحفیظ، الحق، الحسیب، الحمید، الحفی، الرب، الرحمان، الرحیم، الذراء، الرازق، الریب، الروٴف، الرائی، السلام، الموٴمن، المھیمن، العزیز، الجبّار، المتکبر، المتکبر، السیدن السبوح، الشھید، الصادق، الصانع، الظاھر، العدل، العفو، الغفور، الغنی، الغیاث، الفاطر، الفرد، الفتاح، الفالق، القدیم، الملک، القدوس، القوی، القریب، القیوم، القابض، الباسط، قاضی الحاجات، المجید، المولیٰ، المنّان، المحیط، المبین، المغیث، المصوّر، الکریم، الکبیر، الکافی، الکاشف الضّر، الموتر، النّور، المھّاب، الناصر، الواسع، الودود، الھادی، الوفی، الوکیل، الوارث، البرّ، الباعث، التوّاب، الجلیل، الجواد، الخبیر، الخالق، خیرالناصرین، الدیّان الشکور، العظیم، اللّطیف، الشافی ۔ (5)

لیکن جو چیز یہاں پر زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور خصوصیت کے ساتھ جس کی طرف توجہ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا ان ناموں سے پکارنے یا پررودگار کے اسماء حسنیٰ کو شمار کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان کے معانی ومفاہیم کس طرف توجہ کیے بغیر صرف الفاظ ادا کئے جائیں تو کوئی شخص سعادت مند ہوجائے گا یا اُس کی دعا قبول ہوجائے گی، بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ان اسماء اور صفات پر ایمان رکھتا ہو اور کوشش کرے کہ اپنے وجود میں ان کے مفاہیم کا پرتو یعنی عالم، قادر، رحمان، رحیم، حلیم، غفور، قوی، غنی، رازق، وغیرہ کا مفہوم اپنے وجود میں منعکس کرے، مسلّم ہے کہ ایسا شخص بہشتی بھی ہوجائے گا اور اس کی دعا بھی قبول ہوگی اور ہر خیرونیکی کو پائے گا ۔
جو کچھ ضمناً بیان ہوا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کچھ روایات اور دعاؤں میں ان ناموں کے علاوہ خدا کے اسماء کا تذکرہ ملتا ہے اور بعض دعاؤں میں خدا کے ناموں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے، تو ہمارا بیان ان کی منافی نہیں کیونکہ خدا کے اسماء کی کوئی انتہا نہیں اور خدا کی ذات باکمال ولازوال کی طرح وہ غیر محدود ہیں اگرچہ ان میں سے کچھ صفات اور اسماء ممتاز ہیں ۔
بعض اور بھی روایات ہیں مثلاً وہ روایت جو کافی میں امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
نحن واللّٰہ الاسماء الحسنیٰ
خدا کی قسم ہم خدا کے اسماء حسنیٰ ہیں(6)
تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ صفات خداوندی کا قوی پرتو ہمارے وجود میں منعکس ہوا ہے اور ہماری معرفت اس کی پاک ذات معرفت کے لئے ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے، ایسی روایات بھی بطور سطورِ بالا پیش کئے گئے مفہوم سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں ۔
یا پھر دوسری احادیث میں درج ہے کہ تمام اسماء حسنیٰ کا خلاصہ ”خالص توحید“ میں ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی تمام صفات اس کی یکتا ذات پاک طرف لوٹتی ہیں ۔
فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک لحاظ سے قابلِ غور ہے پروردگار کی تما صفات ان دو حقیقتوں کی نشاندہی کرتی ہیں ”اس کی ذات کی ہر چیز سے بے نیازی“ یا ”ہر چیز کی اس کی ذات کی طرف نیازمندی“۔ (7)
۲۔ فلاح ونجات پانے گروہ: جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ بندگان خدا کا ایگ گروہ حق کی طرف دعوت دیتا ہے اور حق کے مطابق حکم کرتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گروہ سے کون لوگ مراد ہیں ان روایات میں جو احادیث اسلام میں آئی ہیں مختلف تعبیریں نظر سے گزرتی ہیں، بشمول ان کے امیرالمومنین(علیه السلام) سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
اس سے مراد امت محمد صلی الله علیہ وآلہ سلّم ہے(8)
یعنی وہ لوگ جو رسولِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ سلّم کے سچّے پیروکار ہیں اور آنحضرت کی تعلیمات میں کسی قسم کے ردّوبدل، تغیّر، بدعت اور انحراف سے کنارہ کش ہیں ۔
اسی بناپر ایک اور حدیث میں رسول اکرمصلی الله علیہ وآلہ سلّم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”والذّی نفسی بیدہ لتفرقن ھٰذہ الامة، علیٰ ثلاثة وسبعین فرقة کلھا فی النار الّا فرقة“ وممن خلقنا امة یھدون بالحق وبہ یعدلون“ وھٰذہ التی تنجو من ہٰذہ الامة“
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ امّت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی کہ جو سب دوزخ میں جائیںگے سوائے ایک فرقے کے کہ جن کی طرف خدا نے آیہٴ <وممن خلقنا امة... میں اشارہ کیا ہے صرف وہی اہلِ نجات ہیں ۔ (9)
ہوسکتا ہے ۷۳ کا عدد کثرت یا بہتات کے لئے استعمال ہوا ہو اور مختلف گروہوں کی طرف اشارہ مطلوب ہو جو اسلام کی پوری تاریخ میں عجیب وغریب عقائد کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہے اور خوش قسمتی سے ان میں زیادہ تر ختم ہوگئے ہیں اور ”تاریخ عقائد“ کی کتب میں صرف اُن کے نام رہ گئے ہیں، ایک اور حدیث میں جو اہل سنّت کے منابع میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ہم پڑھتے ہیںکہ حضرت علی علیہ السلام نے ان مختلف گروہوں کے ضمن میں جو آئندہ امّت اسلامی پیدا ہونے والے تھے ۔ ارشاد فرمایا ہے:
وہ گروہ جو اہلِ نجات ہے وہ میرے شیعہ اور میرے مکتب کے پیروکار ہیں ۔ (10)
واضح ہے کہ اوپر والی تمام روایات ایک ہی سچائی و حقیقت کی تصدیق کررہی ہیں ۔اور اس حقیق کے مختلف پہلوؤں کو بیان کررہی ہیں یعنی آیت میں ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دعوت حق دیتا ہے اور جس کا قول و فعل نظام حکومت اور پروگرام سراسر حق ہے اور وہ سچے اور صحیح اسلام کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور یہ امر قابل توجہ ہے کہ تمام تضادات کے باوجود جو علمی، نسلی اور لسانی معاملات میں ہوتے ہیں وہ (پھر بھی) ایک ہی امت اور ایک گروہ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ کیونکہ قرآن ان کے بارے میں اُمّت (نہ کہ امم) کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔
۳۔ خدا کا اسم اعظم: بعض روایات میں کہ جو ”بلعم باعورا“ کے واقعہ سے متعلق ہیں، جس کا تذکرہ ہوچکا ہے یہ آیا ہے کہ وہ خدا کے ”اسم اعظم“ کو جانتا تھا ۔ اوپر والی آیات کی مناسبت سے جن میں خدا کے اسماء حسنیٰ پر گفتگو ہوئی ہے مناسب ہوگا کہ ہم اس موضوع کی طرف اشارہ کریں ۔
اسم اعظم کے سلسلے میں گونا گوں روایات ملتی ہیں اور ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اس اسم سے باخبر ہو نہ صرف اس کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ یہ فیض بھی اٹھاتا ہے کہ خدا کے حکم سے عالم طبیعت میں تصرف بھی کرسکتا ہے اور اہم کام انجام دے سکتا ہے ۔
اس بارے میں کہ خدا کے ناموں میں سے اسم اعظم کو نسا ہے بہت سے علماء اسلام نے بحث کی ہے اور زیادہ تر مباحث جس محور کے گرد گھومتی ہیں، وہ یہ ہے کہ خدا کے ناموں میں سے وہ اس نام کا سراغ لگائیں جو یہ عجیب اور عظیم خاصیت رکھتا ہو۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس بات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ ہم ایسے نام اور صفات کا پتہ لگائیں کہ جن کے مفہوم کو اپنا نے سے ہم ایسا روحانی کمال حاصل کریں کہ جس سے وہ آثار مرتب ہوں ۔ بالفاظ دیگر اصل مسئلہ ان صفات کو خود میں پیدا کرنا، ان مفاہیم کا واجد ہونا اور ان اوصاف سے متصف ہونا ہے ۔ ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ گناہوں سے آلودہ ایک شخص مستجاب الدعوة وغیرہ ہوجائے ۔
اور اگر ہم سنتے ہیں کہ بلعم اسم اعظم کا حامل تھا اور اسے ہاتھ سے کھو بیٹھا تو اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ وہ خود سازی، ایمان کی آگاہی اور پرہیزگاری کی وجہ سے روحانیت کے اس مرتبہ پر فائز ہوگیا تھا کہ اس کی دعا بارگاہ ایزدی میں رد نہیں ہوتی تھی لیکن پھر وہ ان لغزشوں کے نتیجے میں کہ جن سے بہرحال انسان محفوظ نہیں ہے اور ہوس پرستی میں مبتلا ہونے سے، فرعونوں اور طاغوتوں کی خدمت گزاری کی وجہ سے وہ روحانیت و معنویت سے مکمل طور پر ہاتھ دھوبیٹھا اور اس مقام و مرتبہ کو کھوبیٹھا اور اسمِ اعظم کے بھول جانے سے مراد ہوسکتا ہے یہی معنی ہو۔
نیز اگر مرقوم ہے کہ رسولِ اعظم اور ہادیاں بر حق اسم اعظم سے آگاہ تھے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے اس عظیم ترین اسم کی حقیقت کو اپنے وجود میں جذب کرلیا تھا اور اس حالت و کیفیت کی وجہ سے خدانے انھیں یہ بلند مقام عطا فرمادیا تھا ۔

 

۱۸۲ وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ.
۱۸۳ وَاٴُمْلِی لَھُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ.
ترجمہ
۱۸۲۔ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہم تدریجاً انھیں اس طریقے سے سزادیں گے وہ نہیں جانتے ۔
۱۸۳۔ اور انھیں ہم مہلت دیتے ہیں (تاکہ ان کی سزا زیادہ دردناک ہوجائے) کیونکہ میرا منصوبہ قوی (اور حساب و کتاب کے مطابق) ہے (اور کوئی شخص اس سے فرار کی قدرت نہیں رکھتا)
 

 



1، 2، 3، 4۔تفسیر المیزان؛ مجمع البیان اور نور الثقلین آیہ ہٰذا کے ذیل میں.
5۔ المیزان،ج۸، ص۳۷۶ (منقول از توحید صدوقۺ).
6۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۰۳.
7۔ تفسیر فخر رازی، ج۱۵، ص۶۶.
8۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۰۵.
9۔ مدرک مافوق.
10۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۵۳.
بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اس آیت سے مراد آئمہ اہل بیت(علیه السلام) ہیں ۔ (12)
10۔ نورالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۴ و صفحہ ۱۰۵.
 
تدریجی سزادوزخیوں کی نشانیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma