ایک عالم جو فرعونوں کا خدمتگار ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
دوزخیوں کی نشانیاںعالم ذر اور اسلامی روایات

ایک عالم جو فرعونوں کا خدمتگار ہے

اس آیت میں بنی اسرائیل کے ایک اور واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے جو اُن لوگوں کے لئے ایک مثال اور نمونہ ہے جو اس قسم کی صفات رکھتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم ان آیات کی تفسیر کے دوران میں پڑھیں گے مفسرین نے اس شخص کے بارے میں جس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں، متعدد شکوک کا اظہار کیا ہے لیکن یہ درست ہے کہ آیت کا مفہوم دیگر آیات کی طرح کہ جو اگرچہ خاص حالات میں نازل ہوئیں، کلی اور عمومی ہے ۔
پہلی آیت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: اُس شخص کا واقعہ جسے ہم نے اپنی آیات دی تھیں لیکن بالآخر وہ ان سے بھٹک گیا اور شیطانی وسوسوں میں گرفتار ہوکر گمراہوں کے زمرے میں داخل ہوگیا، ان سے بیان کرو (وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاٴَ الَّذِی آتَیْنَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْھَا فَاٴَتْبَعَہُ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِینَ) ۔
یہ آیت واضح طور پر کسی ایسے شخص کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو پہلے مومنین کی صف میں شامل تھا اور آیات وعلوم الٰہی پر ایمان رکھتا تھا، پھر وہ اس راستہ سے بھٹک گیا اس بناء پر شیطان نے اُسے وسوسہ میں ڈالا اور اُس کا انجام گمراہی اور بدبختی تک جاپہنچا ۔
”انسلخ“ مادہٴ ”انسلاخ“ سے ہے جو اصل میں چمڑے سے باہر آنے معنی میں ہے، یہ لفظ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے آیات خداوندی اور علوم الٰہی نے ابتداء میں اس کا اس طرح احاطہ کیا ہوا تھا کہ وہ اس کے بدن کے چمڑے کی طرح ہوگئے تھے مگر اچانک وہ اس چمڑے کے محیط سے باہر نکل آیا اور اس نے ایک تیز چکّر کھاتے ہوئے اپنا راستہ مکمل طورپر بدل لیا ۔
”فاٴتبعہ الشیطان“ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان پہلے تو اس سے اپنی اُمید منقطع کرچکا تھا کیونکہ وہ مکمل طورپر حق کے راستے پر گامزن تھا، لیکن مذکورہ انحراف کے بعد شیطان نے تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور اس کی تاک میں لگا رہا اور اس کے دِل میں وسوسے ڈالنے لگا اور آخرکار اسے گمراہ، شقی اور بدبخت لوگوں کی سف میں لاکھڑا کیا(۱)
بعد والی آیت اس بات کی اس طرح تکمیل ہے کہ ”اگر ہم (خدا) چاہتے تو اسے جبراً حق کی راہ پر قائم رکھ سکتے تھے اور اِن آیات وعلوم کے ذریعہ اسے بلند مقام دے سکتے تھے (وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِھَا) لیکن یہ مسلّم ہے کہ جس پروردگار کی سنّت انسان کو ارادہ وفیصلہ کی آزادی واختیار دیتا ہے افراد کو جبراً حق کی راہ پر چلانا اس کی اس سنّت سے مناسبت نہیں رکھتا اور یہ بات کسی کی شخصیت وعظمت کی نشانی نہیں بن سکتی، لہٰذا بِلاتوقف مزید ارشاد فرماتا ہے: ہم نے اسے اس کے اختیار پر چھوڑدیا اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے علوم ودانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر روز بلند مقام کی طرف بڑھتا، پستی کی طرف جھکا اور ہواوہوس کی پیروی کی وجہ سے اپنے تنزّل کی جانب مائل ہوا (وَلَکِنَّہُ اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ) ۔
”اخلد“ ”اخلاد“ کے مادہ سے ہے، جس کا مطلب ہے ”کسی جگہ دائمی سکونت اختیار کرنا“ اس بناء پر ”اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ “ کا معنی ہے کہ ہمیشہ کے لئے زمین سے چمٹ گیا جو یہاں کنایہ ہے اور اس مادّی دنیا کی چمک دمک اور غیرشرعی لذّات اور آسائشوں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
اس کے بعد اس شخص کو کتّے سے تشبیہ دی ہے، ایسا کتّا جو اپنی زبان پیاسے جانوروں کی طرح ہمیشہ باہر نکالے رکھتا ہے، ارشادِ ربّانی ہے: وہ کتّے کی طرح ہے ۔ اگر اس پر حملہ کرو تو اس کا منھ کھلا ہوا ہے اور زبان باہر نکلی ہے اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑدیں تو بھی اسی طرح رہتا ہے (فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَثْ اٴَوْ تَتْرُکْہُ یَلْھَثْ) ۔
اس نے لذّت پرستی کی شدّت اور اس مادی دُنیا کی بے تحاشا محبّت سے مغلوب ہوکر ایک لامحدود اور ختم نہ ہونے والی پیاس کی حالت اپنا رکھی ہے کہ ہمیشہ وہ دنیا پرستی کے پیچھے لگارہتا ہے، کسی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ایک بیمار کی طرح، باؤلے کتّے کی مانند کہ جس پر باؤلے پن کی وجہ سے پیاس کی ایک جھوٹی کیفیت طاری رہتی ہے اور کسی وقت بھی سیراب نہیں ہوتا، یہی حالت اُن دنیا پستوں اور پست ہمّت ہواوس کے پچاریوں کی ہے جنھیں دُنیا کی آسائشیں میسّر ہوں لیکن اُن کی نیّت سیر نہیں ہوتی ۔
مزید ارشاد ہوتا ہے کہ یہ مثال کسی مخصوص شخص کے ساتھ منسوب نہیں بلکہ یہ ان تمام گروہوں کی مثال ہے جو آیات خدا کو جھٹلاتے ہیں (ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا) ۔
یہ واقعات ان کے سامنے بیان کرو ہوسکتا ہے کہ وہ ان پر سوچ بچار کریں اور صحیح راستے کا یقین کرلیں (فَاقْصُصْ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُونَ) ۔
دُنیا پرست اور منحرف عالم بلعم باعوراجیسا کہ آپ نے دیکھا اوپر والی آیات میں کسی کا نام نہیں لیا گیا بلکہ ایک عالم کے متعلق گفتگو ہوئی ہے جو پہلے حق کے راستے پر گامزن تھا اور گوئی ا س کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ کسی دِن یہ حق سے منحرف ہوجائے گا لیکن آخرکار دُنیاپرستی اور خواہشات نفسانی نے اُس پر ایسا غلبہ پایا اور اُسے پستیوں میں دھکیل دیا کہ وہ گمراہوں اور شیطان کے پیروکار کی صف میں جاکھڑا ہوا ۔
بہت سی روایات اور مفسرین کے کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد بلعم باعور نامی ایک شخص تھا جو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے زمانہ میں رہتا تھا اور بنی اسرائیل کے نامی گرامی علماء میں اس کا شمار ہوتا تھا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) اُس سے ایک بڑے مبلغ کی حیثیت کام لیتے تھے اور وہ اس درجے پر فائز تھا کہ اس کی دُعا بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت پاتی تھی، لیکن وہ فرعون کی ظاہری شان وشوکت اور اُس کے وعدوں سے اتنا متاثر ہُوا کہ راہ حق سے بھٹک گیا لہٰذا اس کی تمام قدرومنزلت جاتی رہی ، حتّیٰ کہ وہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے مخالفین کی صف میں شامل ہوا ۔ (2)
باقی رہا یہ احتمال کہ یہ شخص امیہ ابن ابی الصلت ہے جو زمانہٴ جاہلیت کا مشہور شاعر ہے جوپہلے گذشتہ کتبِ آسمانی آگاہی رکھنے کی وجہ سے آخری پیغمبر کے ظہور کے انتظار میں تھا، لیکن پھر وہ یہ سوچنے لگا کہ ہوسکتا ہے کہیں وہ خود ہی پیغمبر ہے ۔ اس لئے اس نے بعثتِ پیغمبر کے بعد رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے حسد کو مخالفت کی بنیاد بنایا ۔
یہ بھی احتمال پیش کیا گیا ہے کہ اس سے مشہور راہب ابوعامر مراد ہے، جو زمانہٴ جاہلیت میں لوگوں کو پیغمبر اسلام کے ظہور کی خوشخبری دیتا تھا لیکن پیغمبر کے ظہور کے بعد اس نے مخالفت کی راہ اپنائی، تو یہ دونوں احتمال حقیقت سے دُور نظر آتے ہیں ۔
کیونکہ ”واتل“ ”نباء“ اور ”فاقصص القصص“ کے الفاظ نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ واقعہ پیغمبر اسلام کے ہمعصر افراد سے متعلق نہیں تھا بلکہ یہ گذشتہ اقوام کی سرگزشت ہے، علاوہ ازیں سورہٴ اعراف ان سورتوں میں سے ہے جو مکّہ میں نازل ہوئی ہیں اور ابوعامر راہب اور امیہ بن ابوصلت کا تعلق مدینہ سے ہے ۔
تفسیر المنار میں پیغمبر اسلام سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں بلعم باعور کی مثال اس امّت میں امیّہ بن ابی الصلت ایسی ہے ۔ (3)
اسی طرح امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”الاصل فی ذٰلک بلعم، ثمّ ضربہ اللّٰہ مثلا لکل موٴثر ھواہ علی ھدی اللّٰہ من اھل القبلة“
اصل آیت بلعم کے بارے میں ہے اس کے بعد خدا نے اسے ایک مثال کے طورپر ایسے اشخاص کے لئے کیا ہے جنھوں نے اس امّت میں ہوس پرستی کو خداپرستی اور خدا کی ہدایت پر مقدم گردانا ہے(۱)
اصولی طور پر انسانی معاشروں میں اتنا خطرہ کسی چیز سے نہیں جتنا ان علماء سے ہوتا ہے جو اپنے علم وافکار کو اپنے زمانے کے فرعونوں اور جابروں کے اختیار میں دے دیتے ہیں اور ہوس پرستی اور مادی دنیا کی شان وشوکت (وخلاد الی الارض) سے مرعوب ہوکر اپنا تمام سرمایہٴ فکر ونظر طاغوتوں کے قبضے میں دے دیتے ہیں اور وہ بھی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اس قسم کے افراد سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ امر صرف حضرت موسیٰ(علیه السلام) یا باقی انبیاء کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ زمانہٴ پیغمبر سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، کہ بلعم باعور، ابوعامر اور امیہ بن ابوالصلت جیسے عالم اپنے علم ودانش اور اجتماعی اثر ورسوخ کو درہم ودینار یا مقام ومنزلت کے عوض بیچ دیتے یا پھر کینہ وحسد کی بناء پر منافقین، دشمنانِ حق، فرعونوں، بنی اُمیّہ اور بنی عباس جیسے طاغوتوں کے اختیار میں دیئے ہیں ۔
مذکورہ بالا آیات میں علماء کے اس گروہ کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن کے ذریعے انھیں پہچانا جاسکتا ہے، وہ ایسے مادہ پرست ہیں جنھوں نے دنیا کی محبّت میں خدا کو بھلادیا ہے، وہ اتنے کم ظرف ہیں کہ بارگاہِ خداوندی اور خلقِ خدا کی نظر میں بلند مقام حاصل کرنے کی بجائے ذلّت کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں، اپنی اسی کم ظرفی کی وجہ سے سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں، وہ شیطان کے شدید وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں اور انھیں آسانی سے خریدا اور بیچا جاسکتا ہے، وہ بیمار اور باؤلے کتّوں کی مانند ہیں جو کبھی سیراب نہیں ہوتے، انہی وجوہ کی بناء پر انھوں نے حق کو چھوڑدیا ہے اور بے راہ روی اختیار کرلی ہے وہ گمراہوں کے پیشوا ہیں، ایسے افراد کی پہچان لازمی ہے تاکہ سختی سے ان کے شر سے محفوظ رہا جاسکے ۔
بعد والی دونوں ایات میں بلعم اور دنیا پرست علماء کی سرگزشت سے ایک کلی اور عمومی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے: کیا بُری مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات سے انکار کرتے ہیں اور کیسا بُرا انجام اور ذلّت اُن کے انتظار میں ہے (سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا) ۔ لیکن وہ ہم پر ظلم وستم نہیں کرتے تھے بلکہ خود اپنے اوپر ستم روا رکھتے تھے (وَاٴَنفُسَھُمْ کَانُوا یَظْلِمُونَ) ۔ اور اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا کہ معنوی علم ودانش کا سرمایہ ح۔جو خود ان کے معاشرے کی سربلندی کا باعث بن سکتا تھا، صاحبِ زر اور صاحبِ اقتدار کے اختیار میں دے دیتے ہیں اور سستے داموں اُسے فروخت کرکے بالآخر اپنے آپ کو اور معاشرے کو پستی میں دھکیل دیتے ہیں ۔
لیکن اس قسم کی لغزشوں اور شیطانی دام وفریب سے خبردارد رہو کیونکہ ان سے رہائی خدا کی توفیق اور ہدایت کے بغیر ممکن نہیں، جال اور پھندا بڑا ہی سخت ہے مگر یہ کہ رحمتِ الٰہی مددگار ہو۔
”جسے خداہدایت دے اور اپنی رحمت کو اس کا مددگار بنادے تو حقیقتاً وہی ہدایت پانے والا ہے“
<مَنْ یَھْدِ اللهُ فَھُوَ الْمُھْتَدِی
”اور جس خص کو خدا اس کے (بُرے) اعمال کے نتیجہ میں اپس کے حال پر چھوڑدے یا کامیابی اور موافقت کے ذرائع شیطانی وسوسوں کے مقابلہ میں اُس سے چھین لے تو وہ واقعی زیانکار اور خسارے میں ہے ۔
<وَمَنْ یُضْلِلْ فَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْخَاسِرُونَ
بارہا ہم نے کہا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور کمراہی نہ جبری پہلو رکھتی ہے اور نہ ہی بغیر کسی وجہ اور حساب وکتاب کے ہے، ان دونوں سے مراد وسائل ہدایت فراہم کرنا یا اس قسم کے ذرائع کو روک لینا ہے، وہ بھی انسان کے گذشتہ اچھے بُرے یا اعمال کی وجہ سے جو اس نے انجام دیئے ہیں، بہرحال آخری پختہ ارادہ خود انسان کا اپنا ہوتا ہے، اس بناء پر زیرنظر آیت ان گذشتہ آیات سے مکمل مطابقت رکھتی ہے جو ارادہ کی آزادی کی تائید کرتی ہیں اور ان کے درمیان اختلاف نہیں ۔
  ۱۷۹ وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَھُمْ قُلُوبٌ لَایَفْقَھُونَ بِھَا وَلَھُمْ اٴَعْیُنٌ لَایُبْصِرُونَ بِھَا وَلَھُمْ آذَانٌ لَایَسْمَعُونَ بِھَا اٴُوْلٰئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اٴَضَلُّ اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْغَافِلُونَ.
۱۸۰ وَلِلّٰہِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِھَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اٴَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ.
۱۸۱ وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اٴُمَّةٌ یَھْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ.
ترجمہ

۱۷۹۔ یقیناً جن وانس کے بہت سے گروہوں کو ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے وہ ایسے دل (اور ایسی عقل ) رکھتے ہیں کہ جن سے (وہ سوچتے نہیں اور) سمجھتے نہیں اور ایسی آنکھیں رکھتے ہیں کہ جن سے و دیکھتے نہیں اور ایسے کان رکھتے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں، وہ چوپاؤں کی طرح ہیں ۔ بلکہ وہ زیاد ہگمراہ ہیں (اور) وہ غافل ہیں (کیونکہ ہدایت کے تمام تر اسباب میسّر ہونے کے باوجود گمراہ ہیں) ۔
۱۸۰۔ خدا کے بہترین نام ہیں ۔ اسے انہی ناموں پُکاروں اور انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں تحریف کرتے ہیں ۔ (اور یہ نام اس کے غیر کے لئے رکھتے ہیں اور اس کے لئے شریک کے قائل ہیں) وہ عنقریب اپنے کردہ (بُرے) اعمال کی سزا پائیں گے ۔
۱۸۱۔ اور جنھیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو حق کی تبلیغ کرتا ہے ۔


۱۔ ”اتبعہ“ اور ”تبعہ“ ”لحقہ وادرکہ“ (اس سے ملحق ہوا اور اسے پالیا) کے معنی میں آیا ہے ۔
2۔موجودہ تورات میں بھی بلعم باعور کے ماجرا کی تفصیل آئی ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ تورات آ!رکار اسے انحراف سے بری الذمہ قرار دیتی ہے، مزید تفصیل کے لئے سفر اعداد کے باب ۲۲ سے رجوع کریں ۔
3۔المنار، ج۹، ص۱۱۴.
 
دوزخیوں کی نشانیاںعالم ذر اور اسلامی روایات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma