چند قابل توجہ امور

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
پیغمبرکی عالمگیر دعوتاپنے پیغمبر کی پیروی کرو

چند قابل توجہ امور

۱۔ آنحضرت کی نبوّت پر ایک آیت میں پانچ دلیلیں: قرآنِ کریم کی کسی آیت میں آنحضرت کی حقانیت کی حقانیت پر اتنی دلیلیں اکھٹا نہیں ملیں گی جتنی اس آیت میں موجود ہیں ۔
اگر ہم پیغمبرِ آخر الزمان کی ان سات صفتوں پر غور کریں جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں تو ہمیں آنحضرت کی حقانیت کی پانچ روشن دلیلیں ملیں گی ۔
اوّل: یہ کہ وہ ”اُمّی“ تھے یعنی انھوں نے کسی آگے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا، اس کے باوجود انھوں نے ایسی کتاب پیش کی جس نے نہ صرف اہلِ حجاز کی قسمت بدل دی بلکہ وہ تاریخ بشریّت میں سب کی توجہ کا مرکز بنی ۔ حتّیٰ کہ وہ لوگ جو آپ کی نبوت کے قائل نہیں ہیں انھیں بھی اس کتاب کی عظمت اور اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری میں کوئی شک نہیں ہے ۔
ایک ایسا انسان جس نے نہ تو کسی سے درس پڑھا، نہ وہ مدرسہ گیا، بلکہ اس نے ایک انتہائی جاہلانہ ماحول اور برریت کی فضا میں پرورش پائی، کیا بربنائے عادت ومعمول یہ ممکن نہیں ہے کہ ایسا شخص اتنا بڑا کام انجام دے؟!
دوم: یہ کہ اس کی نبوت کی دلیلیں مختلف الفاظ میں گذشتہ آسمانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں جس سے ایک حق طلب انسان کو اس کی حقانیت کا پتہ ملتا ہے اوروہ مطمئن ہوجاتا ہے، یہ ایسی بشارتیں ہیں جو صرف اس کی ذات اور اس کے صفات پر منطبق ہوتی ہیں ۔
سوّم: یہ کہ اس کی دعوت کے جو اصول ہیں وہ عقل ودانش کے مطابق ہیں، کیونکہ اچھائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا عقل کے مطابق ہے یہی اس کی دعوت کا مقصد جو اس کی تعلیمات سے حاصل ہوتا ہے ۔
چہارم: یہ کہ اس کی دعوت کے اصول طبعِ سلیم اور فطرتِ انسانی کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہیں ۔
پنجم: یہ کہ اگر آپ کے فرستادہ نہ ہوتے تو یہ بات حتمی ہے کہ آپ اتنے بڑے کام کے پرودہ میں اپنے ذاتی منافع کو پیشِ نظر رکھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ نہ صرف لوگوں کو ان کے قید وبند سے آزاد نہ کرواتے بلکہ انھیں اسی عالم غفلت وبے خبری میں پڑا رہنے دیتے، اس طرح سے آپ ان سے زیادہ ناجائز فائدے حال کرسکتے تھے، جبکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے بشریت کے ہاتھ پاؤں سے بھاری زنجیروں کو الگ کردیا ہے:
جن زنجیروں کو آپ نے کاٹا ان میں سے بعض یہ ہیں:
جہل ونادانی کی زنجیریں، جنھیں آپ نے اس طرح کاٹا کہ لوگوں کو علم ودانش کی طرف مسلسل اور ہمہ گیر دعوت دی ۔
بت پرستی اور خرافات پرستی کی زنجیریں: جنھیں آپ نے دعوتِ توحید کے ذریعے کاٹا ۔
قبائلی تعصّب کی زنجیریں: جنھیں آپ نے یوں ختم کیا کہ انھیں اخوّتِ اسلامی کی تعلیم دی ۔
دنیاوی لحاظ سے پستی وبلندی کی زنجیریں: جنھیں آپ نے مساوات کی تعلیم کے ذریعے کاٹ دیا ۔
اس کے علاوہ دیگر طرح طرح کی زنجیریں جن کو آپ نے بیک قلم قلم کردیا، یہ کارنامہ بجائے خود آپ کی حقانیت کی زبردست دلیل ہے ۔
۲۔ پیغمبر کے ’اُمّی“ ہونے کا کیا مطلب ہے؟: لفظ ”اُمّی“ کے مفہوم کے بارے میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے عام طور پر تین احتمال بیان کئے جاتے ہیں:
اوّل: اس کے معنی ”اَن پڑھ“ کے ہیں ۔
دوّم: ”اُمّی“ وہ ہے جو ”اُمّ القریٰ“ یعنی سرزمینِ مکّہ میں پیدا ہوا ہو اور وہاں اس کی پرورش ہوئی ہو۔
سوّم: وہ شخص جو عوام الناس میں سے اٹھا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور پہلی تفسیر ہے جو اس کلمہ کے مواردِ استعمال سے بھی زیادہ تعلق رکھتی ہے اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ممکن ہے کہ تینوں معنی مراد لئے گئے ہوں ۔
یہ بات کہ آنحضرتنے تو کسی معلم سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی آپ کسی مدرسہ میں گئے اس میں موٴرخین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، قرآن کریم میں بھی سورہٴ عنکبوت کی آیت ۴۸ میں پیغمبر کی قبل بعثت حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
<وَمَا کُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَابٍ وَلَاتَخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
یعنی تم اس (اعلانِ رسالت) سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے جس کی وجہ سے دشمنوں کو یہ موقع ملے کہ وہ تمھاری رسالت میں شک وشبہ ڈال سکیں ۔
سرزمینِ حجاز میں عام طور پر پڑھے لکھے لوگ اس قدر کم تھے کہ وہ تمام سرزمین میں گنتی کے ہونے کی وجہ سے جانے اور پہچانے جاتے تھے، یہاں تک کہ سرزمینِ مکّہ جو حجاز کا مرکز سمجھی جاتی تھی اس میں پڑھے لکھے مَردوں کی تعداد کُل ۱۷ عدد تھی اور عورتوں میں سے صرف ایک عورت لکھنا پڑھنا جانتی تھی ۔ (1)
یہ بات واضح اور مسلم ہے کہ ان چند محدود افراد میں سے کسی ایک سے بھی اگر پیغمبر پڑھنا لکھنا سیکھتے تو یہ ڈھکی چھپی بات نہ رہتی بلکہ سب کے زبان زد ہوجاتی ۔
اگر ہم آپ کی نبوت کو تسلیم نہ بھی کریں، تب بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ مکہ کے محدود افراد میں سے کسی سے بھی پڑھا ہو اور اس کے بعد آپ نے پڑھا ہوتا تو اہلِ مکہ میں سے کوئی تو کہتا کہ اے محمد! تم غلط کہتے ہو کہ تم نے کسی سے نہیں پڑھا، تم نے تو فلاں شخص سے تعلیم حاصل کی ہے ۔
بہرحال پیغمبر کی یہ صفت (اَن پڑھ ہونا) آپ کی نبوّت کی بنیاد کو مستحکم کرتی ہے تاکہ آپ کو ذاتِ خداوندی اور دنیائے ماوراء الطبیعت سے جو تعلق حاصل ہے اس کا لوگوں کو یقین حاصل ہو اور اس سلسلہ میں آپ جو دعوت دیں اسے لوگ قبول کرلیں ۔
آپ کا یہ حال قبل از بعثت کا تھا، بعثت کے بعد بھی کسی تاریخ میں نہیں ملتا کہ آپ نے اپنے اعلانِ نبوّت کے بعد کسی سے تعلیم کی ہو، بنابریں آپ اپنی سابقہ اّمّی حالت میں آخر عمر تک باقی رہے ۔
لیکن ایک بڑی غلط فہمی جو یہاں پر پیدا ہوتی ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے یہ ہے کہ درس نہ پڑھنا الگ چیز ہے اور جاہل ہونے کا الگ مفہوم ہے، لہٰذا اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ آپ معاذ الله کوئی جاہل شخص تھے، اس لئے جن لوگوں نے ”اُمّی“ کی یہ تفسیر کی ہے کہ آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے گویا ان کی توجہ اس نکتے کی طرف نہیں ہے ۔
اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم الٰہی تعلیم کے ذریعے سے پڑھنا یا پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے بغیر اس کے کہ آپ نے کسی بشر سے ان امور کو سیکھا ہو کیونکہ اس صفت کا بلاشبہ کمالاتِ انسانی میں شمار ہوتا ہے اور اس مقام سے مقامِ نبوت کی تکمیل ہوتی ہے ۔
اس مطلب کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جو آئمہ طاہرین صلوات الله علیہم سے مروی ہیں جن میں فرمایا گیا ہے پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم لکھنا پڑھنا جانتے تھے یا آپ میں اس کی صلاحیت موجود تھی(2)
لیکن اس لئے کہ نبوّت میں کسی کو چھوٹے سے چھوٹا شبہ نہ ہونے پائے آپ اپنی اس صفت سے کام نہیں لیتے تھے ۔
اس مقام پر یہ جو کہا گیا ہے کہ لکھنے اور پرھنے کی قوت بذاتِ خود کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ دونوں علم حقیقی اور کمالات تک پہنچنے کی سیڑھی ہیں، یہ خود حقیقی علم نہیں ہیں، اس بات کا جواب خود اس میں پوشیدہ ہے کہ کیونکہ کسی کمال کے وسیلے سے آگاہی بذاتِ خود ایک کمال شمار ہوتی ہے ۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ آئمہ طاہرین(علیه السلام) کی بعض روایات میں ”اُمّی“ کو ”امّ القریٰ“ سے لیا گیا ہے(3)
اس کے جواب میں ہم کہیں گے اس مفہوم کی دو روایتیں ہیں جن میں سے ایک روایت وہ ہے جسے اصطلاح میں ”مرفوعہ“ کہا جاتا ہے لہٰذا وہ سند کے لحاظ سے بے وقعیت ہے، دوسری روایت میں ایک راوی بنام ”جعفر بن محمد صوفی“ہے جو علمِ رجال کی رُو سے مجہول شخص ہے ۔
اب رہا یہ امر کہ بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے سورہٴ جمعہ میں خدافرماتا ہے:
<یَتْلُو عَلَیْھِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیھِمْ وَیُعَلِّمُھُمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ
نیز اسی مطلب کی دیگر آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر قرآن کو دیکھ لوگوں کے سامنے پڑھتے تھے، یہ غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ لفظ ”تلاوت“ دیکھ پرھنے کو بھی کہتے ہیں اور حافظہ سے پڑھنے کو بھی کہتے ہیں، جو لوگ قرآن کی آیات، یا اشعار یا دعائیں اپنی یادداشت سے پڑھتے ہیں اس پر بھی تلاوت کا اطلاق بکثرت ہوا ہے ۔
بہرحال جوکچھ ہم نے بیان کیا اس سے حسبِ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:
۱۔ پیغمبر نے یقیناً کس شخص نے پرھنا لکھنا سیکھا تھا اور نہ وہ سوائے خدا کی ذات کے کسی کے شاگرد تھے ۔
۲۔ کوئی معتبر دلیل اس بات میں موجود نہیں ہے کہ آپ نے اپنی نبوت کے اعلان سے پہلے یا اس کے بعد ”عملی طور پر“ کبھی کچھ پڑھا یا لکھا ہو۔
۳۔ یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ آپ پروردگارِ عالم کی تعلیم کی بناپر لکھنے اور پڑھنے پر قادر تھے ۔
کتاب عہدیں میں پیغمبر اکرمصلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کی بشارتیں
اگرچہ اس بات کے یقینی قرائن موجود ہیں کہ یہود ونصاریٰ کی مقدس کتابیں (توریت وانجیل) وہ اصلی کتابیں نہیں ہیں جو حضرت موسیٰ(علیه السلام) وحضرت عیسیٰ(علیه السلام) پر آسمان سے نازل ہوئی تھی، بلکہ انسان کا دستِ تحریف ان کی طرف دراز ہُوا ہے ان کتابوں میں سے کچھ حصّہ بالکل ضائع ہوگیا ہے اور اس وقت جو لوگوں کے پاس موجود ہے وہ ایک مخلوط ومرکب کتاب ہے جس میں کچھ ایسے افکار ہیں جو ذہن انسانی کی پیداوار ہیں اور کچھ حضرت موسیٰ(علیه السلام) اور حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی وہ تعلیمات ہیں جو ان دونبیوں پر نازل ہوئی تھیں اور ان کے شاگردوں کے پاس موجود تھیں(4)
اس بناپر اگر موجودہ کتب میں آنحضرت کی پیشنگوئی کے متعلق کوئی صریحی جملہ نہ ملے تو اس میں کوئی جائے تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
لیکن اس کے باوجود انہی تحریف شدہ کتابوں میں ایسی عبارتیں ملتی ہیں جن سے اس پیغمبر عالیمقام کے ظہور کا کھُلا اشارہ ملتا ہے، ان عبارتوں کو ہمارے بعض علماء نے اپنی کتابوں یا مقالوں میں جو اس موضوع پر تحریر کئے ہیں، اکھٹا کیا ہے، چونکہ ان سب کا تذکرہ طول کا باعث ہے اس لئے نمونہ کے طور پر ان میں سے بعض کا ہم یہاں پر تذکرہ کرتے ہیں:
۱۔ توریت سفر تکوین فصل ۱۷ نمبر۱۷ تا ۲۰ میں ہے:
اور ابراہیم نے خدا سے کہا کاش اسماعیل تیرے حضور میں زندہ رہے (خدا نے جواب دیا) اے ابراہیم!ہم نے اسماعیل کے بارے میں تمھاری دعا سن کی، ہم نے اسے برکت دی اور اسے بہت زیادہ پھولنے پھلنے والا قرار دیا چنانچہ اس کی نسل سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور انھیں ہم بہت بڑی امت قرار دیں گے ۔
۲۔سفر پیدائش باب ۴۹ نمبر۱۰میں ہے:
عصای سلطنت یہود ا سے، اور ایک فرمان روا اس کے پیروں کے آگے سے قیام کرے گا تااینکہ ”شیلوہ“ آجائے کہ اس پر تمام امتیں اکھٹا ہوجائیں گی ۔
یہاں پر یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ لفظ ”شیلوہ“ کے ایک معنی ”رسول“ یا ”رسول الله“ کے ہیں جیسا کہ مسٹر باکس نے اپنی کتاب ”قاموس مقدس“ میں تصریح کی ہے ۔
۳۔ انجیل یوحنّا باب ۱۴ نمبر ۱۵ و۱۶ میں ہے:
اگر تم مجھے دوست رکھتے ہو تو میرے احکام کو محفوظ رکھنا اور مَیں باپ سے سوال کروں گا تووہ ایک دوسرا تسلی دینے والا تم کو عطا کردے گا جو ابد تک تمھارے ساتھ رہے گا ۔
۴۔ انجیل یوحنّا باب ۱۴ نمبر ۲۶ میں ہے:
وہ تسلی دینے والا آئے گا کہ جسے میں اپنے باپ کی طرف سے بجھواؤں گا یعنی وہ ایک صحیح روح کہ جو باپ کی طرف سے آئے گی وہ میرے بارے میں گواہی دے گی ۔
۵۔ نیز اسی انجیل یوحنّا باب ۱۶ نمبر ۱۷ میںہے:
لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمھارے لئے یہ بہتر ہے کہ میں چلاجاؤں کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو وہ تسلی دہندہ تمھارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر میں چلاجاؤں تومیں اسے تمھارے پاس بھیجوادوںگ.... لیکن جب ”وہ“ یعنی راستی کا روحِ رواں آجائے گا تووہ تم کو راستی (صراط مستقیم) کی طرف ہدایت کرے گا کیونکہ وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہے گا بلکہ جو (خدا سے) سنے گا وہی کہے گااورتمھیں آئندہ ہونے والے واقعات کی خبر دے گا(5)
یہاں پر جس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ فارسی انجیلوں میں مذکورہ بالا جملوں میں جو انجیل یوحنّا سے لئے گئے ہیں کلمہ ”تسلی دہندہ“ آیا ہے لیکن عربی انجیل مطبوعہ میںلندن (مطبعہ ولیم دیٹس، سال ۱۸۵۷ء) میں اس کے بجائے فار قلیط کا لفظ مذکورہ ہے ۔

 

۱۵۸ قُلْ یَااٴَیُّھَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللهِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ لَاإِلَہَ إِلاَّ ھُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ فَآمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الْاٴُمِّیِّ الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللهِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُونَ.
ترجمہ
۱۵۸۔ کہدو: اے لوگو! میں تم سب کی طرف الله کا فرستادہ ہوں، وہ الله جس کے قبضہٴ قدرت میں زمین وآسمان کی حکومت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جِلاتا اور مارتا ہے، پس الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جس نے کسی کے آگے درس نہیں پڑھا ہے وہ الله اور اس کے کلموں پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاجاؤ۔
تفسیر
 


1۔ فتوح البلدان بلاذری، ط مصر، ص۴۵۹.
2۔ تفسیر برہان، ج۴، ص۲۳۲ سورہٴ جمعہ کی ابتدائی آیات کے ذیل میں.
 3۔ تفسیر برہان، ج۴، ص۳۳۲؛ تفسیر نورالثقلین، ج۲، ص۷۸، زیر بحث آیہ کے ذیل میں.
 4- مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ”رہبر سعادت یا دینِ محمد“ اور کتابِ ”قرآن وآخرین پیامبر“.
5۔ یہ تمام عبارتیں جو اوپرکتب عہد قدیم وجدید سے نقل کی گئی یہ اس فارسی ترجمہ سے لی گئی ہیں جو ۱۸۷۸ عیسوی میں لندن میں مشہور عیسائی علماء کے ذریعہ عربی سے فارسی میں ترجمہ ہواہے.
پیغمبرکی عالمگیر دعوتاپنے پیغمبر کی پیروی کرو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma