متکبروں کا انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
یہودیوں کی گوسالہ پرستی کا آغازچند اہم نکات

ان دو آیتوں میں جو بحث کی گئی ہے اس میں درحقیقت ان گذشتہ ایتوں کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے جن میں فرعون، فرعونیوںاور بنی اسرائیل کے سرکش افراد کا انجام مذکورہ ہوا ہےن خداوندکریم نے ان آیتوں میں یہ حقیقت بیان کی ہے کہ اگر فرعون یا بنی اسرائیل کے سرکش افراد اتنے معجزات دیکھنے کے بعد اور اس قدر آیاتِ الٰہی سننے کے بعد راہِ راست پر نہ آئے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارا یہ قانون ہے کہ جولوگ حق کے مقابلے کے لئے صف آرا ہوتے ہیں، ہم انھیں ان کے اعمال کے جرم میں، حق کے قبول کرنے سے روک دیتے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ سرکشی اور تکذیبِ آیات الٰہی میں اصرار انسان کی روح میں اس قدر اثرانداز ہوتا ہے کہ حق کے مقابلے میں اس کی حیثیت ایک ایسے سخت موجود کی ہوجاتی ہے جس پر کوئی شے اثرانداز نہیں ہوتی ۔
اس سے پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہم عنقریب ان لوگوں کو جو زمین میں ناحق تکبّر کرتے ہیں اپنی آیتوں سے پلٹادیں گے (سَاٴَصْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ) ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا آیت دلائل عقلی کے خلاف نہیں ہے کہ اس کی توجیہہ کے لئے ہمیں دیگر مفسرین کی طرح ارتکابِ خلاف کی ضرورت پڑے، یہ ایک الٰہی قانون ہے کہ جو اس کے مقابلہ میں ضد سے کام لیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کی آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں، خدا ان سے ہر طرح کی توفیق سلب کرلیتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ خود ان کی بداعمالیوں کی خاصیت ہے لیکن چونکہ خدا کی ذات علة العلل اور مسبب الاسباب ہے اس لئے ان کی نسبت الله نے اپنی طرف دی ہے ۔
یہ موضوع نہ تو مستلزم جبر ہے اور نہ دوسرا کوئی محذور لازم آتا ہے کہ کسی توجیہہ کی ضرورت ہو۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی توجہ رکھنا چاہیے کہ لفظ ”تکبر“ کے بعد ”بغیر الحق“ کی قید تاکید کے لئے ہے، کیونکہ تکبر، خود بینی اور دیگر بندگانِ خدا کی تحقیر ہمیشہ ناحق ہی ہوتی ہے ۔
یہ تعبیر بالکل ایسی ہی ہے کہ جیسے سورہٴ بقرہ کی آیت ۶۱ میں آیا ہے :
<وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ
وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔
خاص کر یہ کلمہٴ ”فی الارض“ کے ہمراہ ہے جس کے معنی زمین پر سرکشی اور طغیان برپا کرنے کے ہیں اور یقیناً یہ عمل ہمیشہ ناحق ہی ہوتا ہے ۔
اس کے بعد اس طرح کے ”متکبر وسرکش“ افراد کی تین صفتوں کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ کس طرح ان سے حق کو قبول کرنے کی توفیق سلب ہوجاتی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وہ اگر تمام آیاتِ الٰہی کو بھی دیکھیں تب بھی ایمان نہ لائیں گے (وَإِنْ یَرَوْا کُلَّ آیَةٍ لَایُؤْمِنُوا بِھَا) ۔
”اور اگر راہِ راست کو دیکھیں گے تب بھی اسے اختیار نہ کریں گے (وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الرُّشْدِ لَایَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا) ۔
اس کے برعکس ”اگر غلط اور ٹیڑھے راستے کو دیکھیں گے تو اس کو اختیار کریں گے (وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الغَیِّ یَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا ) ۔
ان صفات کا ذکر کرنے کے بعد جو ان کی حق کو قبول کرنے کی حکایت ہیں اس کی دلیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، فرمایا گیا ہے: یہ شب اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور غفلت برتی (ذٰلِکَ بِاٴَنَّھُمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَکَانُوا عَنْھَا غَافِلِینَ) ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ایک مرتبہ یا چند مرتبہ آیاتِ الٰہی کی تکذیب انسان میں قبول حق کی توفیق سلب کرنے کا استحقاق پیدا کرتی، بلکہ اس کے لئے راہ توبہ اب بھی کھلی ہوئی ہے لیکن اگر اس حالت میں اصرار واستمرار ہے تو آخر میں یہ نوبت آجاتی ہے کہ اس میں نیک وبد (”شد“ و”غی“) کی تشخیص کی صلاحیت باقی نہیں رہتی ۔
بعد کی آیت میں ایسے لوگوں کی سزا کو بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کریں گے اور روز آخرت کی ملاقات کے منکر ہوں گے ان کے تمام اعمال حبط اور نابود ہوجائیں گے (وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُھُمْ) ۔
”حبط“ کے معنی عمل کو باطل اور بے اثر کردینے کے ہیں، یعنی اس طرح کے افراد اگر کوئی کارِ خیر بھی کریں گے تو اس سے ان کے لئے کوئی نتیجہ نہ نکلے گا (اس کی مزید توضیح کے لئے سورہٴ بقرہ آیت۲۱۷ کی تفسیر ملاحظہ ہو جو ہم اسی کتاب کی جلد دوم لکھ آئے ہیں) ۔
آیت کے اخر میں اس طرح اضافہ فرمایا گیا ہے: ان کا جو یہ انجام ہوا ہے اس میں کسی جذبہٴ انتقام کو دخل نہیں ہے بلکہ یہ خود ان کے اعمال کا نتیجہ ہے جو ان کے سامنے آیا ہے ”آیا انھیں سوائے اپنے اعمال کے کسی اور چیز کی سزا دی جائے گی؟ ( ھَلْ یُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔
یہ آیت ان آیتوں میں سے ایک ہے جو اس بات کی دلیل ہیں کہ بروز قیامت انسان کو اس کے اعمال کی سزا ملے گی (برخلاف مذہب جبر کے جو یہ کہتا ہے کہ جزاء وسزا میں اعمال کو دخل نہیں ہے)

۱۴۸ وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسیٰ مِنْ بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّھِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَہُ خُوَارٌ اٴَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّہُ لَایُکَلِّمُھُمْ وَلَایَھْدِیھِمْ سَبِیلًا اتَّخَذُوہُ وَکَانُوا ظَالِمِینَ.
۱۴۹ وَلَمَّا سُقِطَ فِی اٴَیْدِیھِمْ وَرَاٴَوْا اٴَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِنْ لَمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ.
ترجمہ

۱۴۹۸۔ قومِ موسیٰ نے اس کے (میعادگاہ الٰہی کی طرف جانے کے) بعداپنے زیور اور آلات سے ایک گوسالہ بنایا، ایک (بے جان) جسد جس میں گائے کی آواز تھی، کیا وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرسکتا اور راہ (راست) کی طرف ہدایت نہیں کرسکتا تھا، انھوں نے اس کو (بطور اپنے خدا کے) انتخاب کرلیا اور وہ ظالم تھے ۔
۱۴۹۔ اور جب انھیں حقیقت کا پتہ چلا اور انھوں نے دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو انھوں نے کہا: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو تم ہم ضرور گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔
تفسیر

 

یہودیوں کی گوسالہ پرستی کا آغازچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma