جوذات ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت رکھتی ہے وہ اپنے بندوں کو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
عدالت ِاجتماعیایک اہم سوال کا جواب

گذشتہ آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو چکا ہے کہ اگر حالات مجبور کریں کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے جد اہ وجائیں اور ا س کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو اس اقدام میں کوئی حرج نہیں اور آیندہ کے حالات سے نہیں ڈرنا چاہئیے ۔ کیونکہ خدا انھیں اپنے فضل و کرم سے مطمئن اور بے نیاز کردے گا۔
زیر نظر آیات میں سلسلہ کلام جاری ہے پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہمیں انھیں بے نیاز اور مستغنی کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے (وَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ) ۔
جوذات ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت رکھتی ہے وہ اپنے بندوں کو بے نیاز کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی ۔
اس کے بعد اس موقع پر اور دیگر مواقع پر ہر پرہیزگاری اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرما گیا ہے : یہودی و نصاریٰ کو اور ان لوگوںکو جو تم سے پہلے صاحبِ کتاب ہیں اور اسی طرح تمہیں بھی ہم نے وصیت کی ہے کہ پر ہیز گاری اختیار کرو( وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ إِیَّاکُمْ اٴَنِ اتَّقُوا اللَّہَ ) ۔
اس کے بعد روئے سخن مسلمانوں کی طرفکرتے ہوئے فرمایا : تقویٰ اختیار کرنے کا یہ حکم تمہارے فائدے میں ہے اور خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تم رو گردانی کرو، نافرمانی کی راہ اپناوٴ تو خدا کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔
کیونکہ آسمانوں او رزمین میں جو کچھ ہے اسی کی ملکیت ہے اور وہ بے نیاز ہے اور لائق ستائش ہے (وَ إِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّہُ غَنِیًّا حَمیداً) ۔
در اصل حقیقی معنی میں غنی اور بے بیاد تو خدا ہی ہے کیونکہ وہ غنی بالذات ہے اور کسی اور کی بے نیازی اسی کی مدد سے ہے ۔ ورنہ ذاتی طور پر تو سب محتاج اور نیاز مند ہیں اسی طرح وہی بالذات لائق ستا ئش ہے کیونکہ جن کمالا ت کی وجہ سے وہ تعریف و ستائش کے لائق ہے وہ اس کی ذات میں ہیں نہ کہ دوسروں کی کمالات کی طرح کہ جو عاریتاً انھیں دئیے جاتے ہیں اور اور کسی دوسرے کی طرف سے ہیں ۔
بعد والی آیت میں یہ جملہ تیسری مرتبہ آیا ہے کہ آسمانوں او رزمین میں جو کچھ ہے خدا کی ملکیت ہے اور خدا ان حفاظت و نگہبانی اور انتظام و انصرام کرتا ہے (وَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کَفی بِاللَّہِ وَکیلاً) ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے مختصر سے فاصلے میں ایک مطلب کا تین مرتبہ تکرار کیوں کیا گیا ہے ۔ کیا یہ تکرار صرف تاکید کے لئے ہے یا کچھ اور اشارے بھی اس میں مضمر ہیں ۔آیات میں غور و فکر کیا جائے اور دقت نظر سے کام لیا جائے تو ہر مرتبہ اس بات کے ذکر میں ایک نکتہ دکھائی دیتا ہے ۔
پہلی مرتبہ دونوں میاں بیوی سے عدہ کرتا ہے کہ ایک دوسرے سے الگ ہو جانے کے بعد خدا انھیں بے نیاز کر دے گا ۔ اس موقع پر یہ ظاہر کرنے کے لئے وہ اپنا وعدہ پورا کرنے پر قدرت رکھتا ہے اس نے اپنی زمین و آسمان کی وسعتوں کی ملکیت کا تذکرہ کیا ہے ۔
دوسری مرتبہ تقویٰ و پر ہیز گاری کی وصیت کے بعد یہ ذکر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ واضح کیا جائے کہ اس فرمان کی اطاعت کا خدا کو کوئی فائدہ نہیں ہے یا اس کی مخالفت اس کے لئے ضررساں نہیں ہے ۔ درحقیقت یہ بات اس کے مشابہ ہے جو حضرت امیر المومنین علی (علیه السلام) نے نہج البلاغہ میں خطبہ ہمام کی ابتداء میں فرمایا ہے :
ان اللہ سبحانہ و تعالیٰ خلق الخلق حین خلقتھم غنیا عن طاعتھم اٰمنا من معصیتھم لانہ لاتضرہ معصیة من عصاہ و لا تنفعہ طاعة من اطاعہ
یعنی . خدا ئے متعال نے انسانوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ان کی طاعت سے بے نیاز تھا اور ان کی نافرمانی سے امان میں تھا کیونکہ نہ تو گنہ گاروں کی نافرمانی اسے نقصان پہنچاتی ہے اور نہ اطاعت کرنے والوں کی طاعت اسے فائدہ پہنچاتی ہے ۔ ( نہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۲) ۔
تیسری مرتبہ آیة ۱۳۳ میں موجود بحث کے عنوان کے طور پر اس کا تذکرہ ہے ا س کے بعد فرمایا گیا ہے : خدا کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں کہ تمہیں ختم کردے اور تمہاری جگہ زیادہ آمادہ پختہارادے والا گروہ پیدا کردے جو اس کی اطاعت میں زیادہ کوشاں ہو اور خدا ایسا کرنے پر قادر ہے (إِنْ یَشَاٴْ یُذْہِبْکُمْ اٴَیُّہَا النَّاسُ وَ یَاٴْتِ بِآخَرینَ وَ کانَ اللَّہُ عَلی ذلِکَ قَدیراً) ۔
تفسیرتبیان اور مجمع البیان میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے اپنا ہاتھ سلمان کی پشت پرمارا اور فرمایا:
وہ گروہ عجم اور فارس کے یہ لوگ ہیں ۔
حضور کا یہ فرمان در حقیقت ان عظیم خدمات کی پیش گوئی ہے جو ایرانی مسلمانوں نے اسلام کے لئے کیں ہیں ۔
آخری آیت میں ان لوگوں کے بارے میں بیچ میں گفتگو آگئی ہے جو خدا پر ایمان لانے کا دم بھر تے ہیں ، میدان جہاد میں شرکت کرتے ہیں اور احکام اسلام کی پابندی کرتے ہیں مگر ان کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول نہیں ہوتا ، بلکہ مادی نتائج مثلاًمالِ غنیمت کا حصول ہوتا ہے ارشاد فرمایا گیا ہے : جو لوگ صرف دنیا کی جزا چاہتے ہیں وہ غلط فہی میں مبتلا ہیں کیونکہ خدا کے پاس تو دنیا و آخرت دونوں کی جزا اور ثواب ہے (مَنْ کانَ یُریدُ ثَوابَ الدُّنْیا فَعِنْدَ اللَّہِ ثَوابُ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ) ۔لہٰذا وہ دونوں کی جستجو کیوں نہیں کرتے اور خدا سب کی نیتوں سے آگاہ اور ہر محل و مقام پرا سکی نظرہے اور منافق صفت لوگوں کے اعمال سے باخبر ہے ( وَ کانَ اللَّہُ سَمیعاً بَصیراً) ۔
یہ آیت ایک مرتبہ پھر حقیقت بیان کرتی ہیں کہ اسلام کی نگاہ صرف معنوی اور خروی پہلو وٴ ں پر نہیں بلکہ وہ اپنے پیرو کاروں کے لئے مادی اور روھانی دونوں طرح کی سعادتیں چاہتا ہے ۔


۱۳۵۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ بِالْقِسْطِ شُہَداء َ لِلَّہِ وَ لَوْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ اٴَوِ الْوالِدَیْنِ وَ الْاٴَقْرَبینَ إِنْ یَکُنْ غَنِیًّا اٴَوْ فَقیراً فَاللَّہُ اٴَوْلی بِہِما فَلا تَتَّبِعُوا الْہَوی اٴَنْ تَعْدِلُوا وَ إِنْ تَلْوُوا اٴَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّہَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ۔
ترجمہ
۱۳۵۔ اے ایمان والو! مکمل طور پر عدالت کے ساتھ قیام کرو،خدا کے لئے گواہی دو اگر چہ یہ خود تمہارے لئے یا تمہارے والدین کے لئے اقرباء کے لئے نقصان دی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر وہ غنی یا فقیر ہو ں تو خدا حق رکھتا ہے کہ ان کی حمایت کرے اس لئے ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو، اس طرح تو حق سے منحرف ہو جاوٴ گے ۔ اور حق میں تحریف کرو گے یا اس کے اظہارسے اعراض کرو گے تو جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے ۔


 

عدالت ِاجتماعیایک اہم سوال کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma