سچے اور جھوٹے امتیازات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرشانِ نزول

ان دو آیت میں اسلام کی ایک بہت ہی اہم اساس کو بیان کیا گیا ہے او ر وہ یہ کہ افراد کی وجودی قدر و قیمت اور جزاو سزا ان کے دعووں اور آرزوٴں سے مربوط نہیں ہے بلکہ صرف ایمان اور عمل سے وابستہ ہے اسلام کی یہ بنیاد ثابت اور سنت ہے اور غیر متبدل ہے ۔ یہ وہ قانون ہے جس کی نظر میں تمام امتیں یکساں ہیں لہٰذا پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: فضیلت و برتری کا انحصار تمہاری اور اہل کتاب کی آرزووٴں پر نہیں ہے (لَیْسَ بِاٴَمانِیِّکُمْ وَ لا اٴَمانِیِّ اٴَہْلِ الْکِتابِ) ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے : جو شخص کوئی عمل بجا لائے گا وہ اس کے بدلے اپنی سزا پائے گا اور خدا کے علاوہ کسی کو اپناولی و یا ور نہ پائے گا

( مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً یُجْزَ بِہِ وَ لا یَجِدْ لَہُ مِنْ دُونِ اللَّہِ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔اور اسی طرح کے لوگ نیک عمل بجالائیں گے اور صاحبِ ایمان ہوں گے وہ مرد ہوں یا عورت جنت میں داخل ہوں گے اور ان پرکوئی ظلم نہیں ہو گا (وَ مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُولئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَ لا یُظْلَمُونَ نَقیراً) ۔۱
اس طرح قرآن نے نہایت سادگی سے بقولے سب کے ہاتھ پر پاک پانی ڈالا ہے او رکسی مذہب سے دعوے کی حد تک خیالی ، اجتماعی یا نسلی وابستگی کو بے فائدہ قرار دیا ہے اور نجات کی بنیاد اس مکتب کے اصولوں پر ایمان لانے اور اس کے پروگراموں پر عمل کرنے ٹھہرایاہے ۔
پہلی آیت کے ذیل میں بنیادی شیعہ کتب میں ایک حدیث منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بعض مسلمان ایسی وحشت و پریشانی میں مبتلا ہو گئے کہ وہ ڈر کے مارے رونے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسان خطا ر ہے اور آخر اس سے گناہ سرزد ہونا ممکن ہی ہے اور اگر کسی قسم کی کوئی معافی اور بخشش نہیں اور تمام برے اعمال کی سزا ملے گی پھر یہ تو بڑا مشکل مرحلہ ہے ۔ لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت نے ہمارے لئے تو کوئی صورت نہیں چھوڑی، اس پر پیغمبر اکرم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بات وہی ہے جو اس آیت میں نازل ہوئی ہے تاہم تمہیں ایسی بشارت دیتا ہوں جو تمہارے لئے قربِ خدا اورنیک اعمال بجا لانے کی تشویق کا سبب بنے گی اور وہ یہ کہ تمہیں جو مصیبتیں پہنچیں گی، تمہارے گناہوں کا کفارہ بنیں گی یہاں تک تمہارے پاوٴں میں چھبنے والاایک کانٹا بھی ۔ ۲

ایک سوال کاجواب

ارشاد الہٰی ہے :
وَ لا یَجِدْ لَہُ مِنْ دُونِ اللَّہِ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔یعنی وہ اپنے گناہوں کے مقابلہ میں کسی کو اپناسر پرست و یا ور نہیں پائے گا) ممکن ہے بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہیں کہ اس جملے سے مسئلہ شفاعت وغیرہ کی بالکل نفی ہو جاتی ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا جاچکا ہے کہ شفاعت کا معنی یہ نہیں ہے کہ شفاعت کرنے والے مثلاً انبیاء آئمہ اور صلحا خدا کے مقابلہ میں کوئی مستقل طاقت رکھتے ہیں بلکہ ان کی شفاعت بھی حکم خدا کے ماتحت ہے اور اس کی جازت او رجس کی شفاعت کی جانا ہے اس کی اہلیت کے بغیر کبھی شفاعت نہیں کریں گے ۔لہٰذا ایسی شفاعت کی بر گشت بالا ٓخر خد اکی طرف ہے اور خدا کی سر پرستی ، نصرت اور مدد کا ایک شعبہ شمار ہوتی ہے ۔

۱۲۵۔وَ مَنْ اٴَحْسَنُ دیناً مِمَّنْ اٴَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراہیمَ حَنیفاً وَ اتَّخَذَ اللَّہُ إِبْراہیمَ خَلیلاً ۔
۱۲۶۔وَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ کانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطاً ۔
ترجمہ
۱۲۵۔ جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے اس سے بہتر کس کا دین ہے اور پھر جو نیکو کار بھی ہو اور ابراہیم کے خالص او رپاک دین کا پیرو ہو اور خدا نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کرلیا ہے ۔
۱۲۶۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب خدا کا ہے او رخدا ہر چیز پر محیط ہے ۔

 

 


۱-نقیر کے مفہوم پر اسی سورہ کی آیت ۵۳ میں بحث کی جاچکی ہے ۔
۲- نو ر الثقلین جلد اول ۔ ص۵۵۳۔
 
تفسیرشانِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma