احترام ِ محبت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیر اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ

اگر چہ بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کاتعلق گذشتہ آیات کے ساتھ اس لحاظ سے ہے کہ گذشتہ آیات کی مباحث جہاد سے متعلق تھیں اور اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر دشمن دوستی اور مصالحت چاہیں تو تم بھی مناسب جواب دو لیکن واضح ہے کہ یہ تعلق اس سے مانع نہیں کہ ایک کلی اور عمومی حکم تما م تحیات اور نوازشات کے اظہار سے متعلق ہو جو مختلف افراد کی طرف سے ہو ۔ آیت کی ابتدا میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تحیہ کہے تو اس کا جواب بہتر طریقہ سے دو یا کم از کم اس کے مساوی جواب دو ۔
(وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْہَا اٴَوْ رُدُّوہَا)
تحیت لغت میں حیات کے مادہ سے دوسرے کے لئے حیات و زندگی کی دعا کرنے کے معنی میں ہے چاہے یہ دعا ” سلام علیک “ کی صورت میں ہو

( خدا تجھے سلامت رکھے ) یا حیاک اللہ ( خدا تجھے زندہ رکھے ) یا اس قسم کے اور الفاظ سے ہو لیکن عام طور پر یہ ہر قسم کے اظہار محبت کے لئے ہے جو لوگ الفاظ کے ذریعہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں جس کا واضح ترین اظہار سلام کرنا ہے لیکن کچھ روایات اور تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ عملی اظہار محبت بھی مفہوم ِ تحیت میں شامل ہے تفسیر علی بن ابراہیم میں امام محمد باقر اور امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :
المراد بالتحیة فی الایة السلام و غیرہ من البر
آیت میں محبت سے مراد سلام اور ہر قسم کی نیکی کرنا ہے ۔
کتاب مناقب کی ایک روایت میں ہے :
ایک کنیز نے پھول کی ایک شاخ امام حسن علیہ السلام کی خد مت میں پیش کی تو اس کے جواب میں امام (علیه السلام) نے اسے آزاد کردیا۔ جب آپ

(علیه السلام) سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ خدا نے ہمیں یہی حسن سلوک سکھاتے ہوئے فرمایا :
(وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْہَا )
اس کے بعد مزید فرمایا : بہتر تحیہ وہی اس کا آزاد کرناتھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آیت ایک کلی حکم اور ہر قسم کے اظہار محبت کا جواب دینے کے سلسلہ میں ہے چاہے وہ زبانی ہو یا عملی ۔ آیت کے آخر میں اس لئے کہ لوگ جان لیں کہ تحیات ان کے جوابات اور ان کی بر تری و مساوات ، جس قدر اور جیسے ہوں ، خدا سے پوشیدہ پنہاں نہیں ہیں ۔ فرماتا ہے : خدا تمام چیزوں کے حساب سے آگاہ ہے
( إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا) ۔
سلام عظیم اسلامی تحیہ ہے
جہان تک ہمیں معلوم ہے دنیا کی تمام ملل و اقوام کے افراد جب ایک دوسرے سے ملا قات کرتے ہیں تو ایک دوسرے سے اظہار محبت کے لئے کچھ تحیہ پیش کرتے ہیں جو بعض اوقات لفظی ہوتا ہے اور کبھی عملی بھی ۔ عمل عموماً تحیت کی علامت ہوتا ہے ۔ اسلام میں بھی ” سلام “ ایک واضح ترین تحیت ہے اور اوپر والی آیت میں جیسا کہ اشارہ ہو چک ہے تحیہ اگر چہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے تاہم اس کا ایک واضح اظہار سلام کرنا ہے ۔ لہٰذا اس آیت کے مطابق تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سلام کا عالی تر یا کم از کم مساوی جواب دیں ۔
آیاتِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام تحیت کی ایک قسم ہے سورہٴ نو کی آیة ۶۱ میں ہے :
فاذا دخلتم بیوتاً فسلموا علی انفسکم تحیة من عند اللہ مبارکة طبیة
جب تم کہیں داخل ہو تو ایک دوسرے پر تحیت الہٰی بھیجو ، وہ تحیہ جو مبارک اور پاکیزہ ہے ۔
اس آیت میں سلام کو مبارک اور پاکیزہ خد ائی تحیہ کہہ کر پکارا گیا ہے اور ضمنی طور پر اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سلام ٌ علیکم کا معنی اصل میں سلام اللہ علیکم ہے ” یعنی پروردگار کا تم پر سلام ہو “ یا خدا تمہیں سلامت رکھے ۔ اسی سبب سلام کرنا ایک قسم کا دوستی ، صلح اور جنگ نہ کرنے کا اعلان ہے ۔ قرآن کی کچھ آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل بہشت کا تحیہ بھی سلام ہے ۔
اولئک یجزون الغرفة بما صبروا و یلقون فیھا تحیة و سلاماً (فرقان۔ ۷۵)
” اہل بہشت اپنی استقامت اور صبر کی وجہ سے بہشت کے انعامات اور بلند مقامات سے بہر یاب ہوں گے اور انھیں تحیہ و سلام سے نوازا جائے گا“۔
سورہ ابراہیم کی آیہ ۲۳ اور سورہٴ یونس کی آیہ ۱۰ میں بھی اہل بہشت کے بارے میں ہے : تحیتھم فیھا سلام ” ان کا تحیہ بہشت میں سلام ہے ۔“
آیاتِ قرآں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت بمعنی سلام (یا اس کے مفہوم کا کچھ متبادل ) گذشتہ اقوام میں بھی مروج تھا جیسا کہ سورہٴ ذاریات کی آیہ۲۵ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے واقعہ میں آیا ہے کہ جب قوم ِ لوط (علیه السلام) کو سزا دینے والے فرشتے بھیس بدل کر حضرت ابراہیم

 (علیه السلام) کے پاس آئے تو آپ (علیه السلام) پر سلام کہا اور آپ(علیه السلام) نے بھی ان کے سلا م کا جواب دیا ۔
اذ دخلوا علیہ فقالوا سلاماً ْقال سلام قوم منکرون
زمانہ جاہلیت کے عربی اشعار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت سلام کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی تھی ۔۱
یہ شعر زمانہ جاہلیت کے توبہ نامی شاعر کے ہیں ۔
جب ہم غیر جانبدار انہ طور پر اس اسلامی تحیت کا مختلف اقوام کی تحیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اس کی قدر و قیمت ہم پر زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔ اسلامی تحیت خدا کی طرف توجہ بھی ہے مخاطب کے لئے سلامتی کی دعا بھی اور صلح و امن کا اعلام بھی ہے ۔ اسلامی روایات میں سلام کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم سے منقول ہے :
من بدء بالکلام قبل السلام فلاتجیبوہ
جو شخص سلام سے پہلے گفتگو شروع کردے اس کا جواب نہ دو ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم ) ۔
اور امام صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ خدا فرماتا ہے :
البخیل من یخیل بالسلام بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔
دوسری حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے :
ان اللہ عزو جل یحب افشاء السلام
افشاء سلام سلام عام کرنے والے کو خدا دوست رکھتا ہے ۔ ( اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔
افشاء سلام سے مراد مختلف افراد کو سلام کرنا ہے ۔ احادیث میں سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام صرف ان افراد سے مخصوص نہیں ہے جن سے انسان خصوصی شنا سائی رکھتا ہو جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبراکرم سے سوال ہوا :
کونسا عمل بہتر ہے تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
”تطعم الطعام و تقمرء السلام علی من عرفت و من لم تعرف“
کھانا کھلاوٴ اور سلام کرو اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جاتے۔2
احادیث میں بھی آیا ہے کہ سوار پیادہ کو اور پیش قیمت سواری والا کم قیمت سواری والوں کو سلام کریں گویا یہ حکم ایسے تکبر کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے جو دولت، ثروت اور مخصوص مادی حیثیت سے پیدا ہو تا ہے ۔
یہ بات آج کل دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ آداب و سلام کو نچے طبقہ کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور انھوں نے اسے استعمار، استعباد اور بت پرستی کی شکل دے رکھی ہے اگرہم پیغمبر اکرم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ تمام لوگوں کو یہاں تک کہ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ البتہ یہ بحث اس حکم سے اختلاف نہیں رکھتی جو بعض روایات میں آیا ہے کہ بچے جو عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں وہ اپنے بڑوں کو سلام کریں کیونکہ ادب کا تقاضا یہی ہے اس بات کا طبقاتی تفاوت او رمادی حیثیت کے اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ۔
چند روایات میں حکم ہے کہ سودخور، فاسق ، کجرو اور منحرف وغیرہ پر سلام نہ کرو ۔ یہ بھی فساد اور برائی کے خلاف ایک طرح کا اقدام ہے ہاں البتہ ایسے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے یا رابطے کے لئے تاکہ انھیں خدا ئی نافرمانی سے بچنے کی دعوت دی جاسکے، سلام کرنے کی اجازت ہے ” تحیت باحسن“ سے مراد یہ ہے کہ سلام کی دوسری عبارات مثلاً و رحمة اللہ یا و رحمة اللہ وبرکاتہ کو ساتھ ملا نا ۔
تفسیر در المنثور میں ہے :
ایک شخص نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا : السلام علیک۔ تو آپ نے فرمایا ” و علیک السلام و رحمة اللہ “ دوسرے نے عرض کیا” السلام علیک ورحمة اللہ “ تو آپ نے فرمایا” وعلیک السلام و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تیسرے شخص نے کہا” السلام علیک و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تو پیغمبر نے فرمایا” و علیک “ جب اس نے سوال کیا کہ آپ نے مجھے مختصر جواب کیوں دیا ہے تو فرمایا ۔” قرآن کہتا ہے تحیہ کا جواب زیادہ بہتر طریقہ سے دولیکن تونے کوئی چیز باقی نہیں رکھی ۔“
حقیقت میں پیغمبر نے پہلے اور دوسرے شخص کے جواب میں احسن طریقہ پر تحیہ کیا ہے لیکن تیسرے شخص کے بارے میں مساوی طریقہ اختیار کیا ہے کیونکہ ” وعلیک “ کا مفہوم ہے کہ جو کچھ تونے کہا وہ تیرے لئے بھی ہو ۔ ( در المنثورجلد ۲ صفحہ ۸)


۸۷۔ اللهُ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیہِ وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا۔
ترجمہ
۸۷۔ وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تم سب کو یقینی طور پر قیامت کے دن کہ جس میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا اور کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہو ۔

 


۱-ولو ان لیلی الاخیلیة سلمت، علی ودونی جندل و صفایح : لسلمت تسلیم البشاشة او زقا الیما صدی من جانب الزبر صالح
2۔تفسیر فی ظلال ذیل آیہ مذکورہ۔
 
تفسیر اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma