ایک اہم سوال کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرکامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

ان دو آیات کا مطالعہ جو قرآن میں آگے پیچھے مربوط ہیں ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ کیوں پہلی آیت میں تمام نیکیوں اور برائیوں ( حسنات و سیئات) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جب کہ دوسری آیت میں صرف نیکیوں کو خدا کی طرف اور برائیوں اور سیئات کو لوگوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یقینا یہاں کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ دو آیات جو کہ یکے بعد دیگرے آئی ہیں ان میں ایسا واضح اختلاف ہے ان دونو ں آیات پر غور و فکر کرنے سے چند نکات واضح ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک سوال کا علیحدہ جواب بن سکتا ہے ۔
۱۔ اگر سیئات اور برائیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دوپہلو رکھتی ہیں ۔ ایک مثبت پہلو اور ایک منفی پہلو ۔ یہی منفی پہلو ہے جو انھیں برائی کی شکل و صورت دیتا ہے اور انھیں نسبتی زبان یا مقابلتاً نقصان کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔
اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔
جو شخص گرم سر و ہتھیار کے ذریعہ کسی مسلمان کو قتل کردے ، مسلم ہے کہ وہ ایک برائی کا مرتکب ہوا ہے اب ہم اس برے کام کے عوامل پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ ان عوامل میں انسان کی طاقت م اس کی فکر ، سرد یا گرم ہتھیار کی طاقت ، صحیح نشانہ، مناسب وقت سے استفادہ کرنا اور گولی کی تاثیر اور طاقت وغیرہ نظر آتے ہیں جو تمام واقعہ کے مثبت پہلو ہیں ۔ کیونکہ یہ سب مفید اور سود مندہ سکتے ہیں اور اگر انھیں بر مخل استعمال کیا جائے تو بڑی بڑی مشکلات کے موقع پر کام آتے ہیں صرف ایک منفی پہلو اس واقعہ کا یہ ہے کہ یہ تمام صلاحتیں اور توانائیاں بے محل استعمال ہوئی ہیں مثلاً بجائے اس کے کہ ان کے ذریعے ایک خطر ناک درنسدے کو مارا جاتا یا ایک جفا کار ظالم کو قتل پر انھیں استعمال کیا جاتا، ایک بے گناہ انسان کو نشانہ بنایا گیا بس یہی پہلو ،منفی ہے کہ ان صلاحیتوں کو برائی کے طور پر کام لایا گیا ، ورنہ نہ تو اچھے نشانے کی صلاحیت انسان کے لئے بری چیز ہے اور نہ ہی گولی او ربارود کا استعمال برا ہے ، یہ سب صلاحیت کو استعمال کرنے کے ذرائع ہیں اور اپنی جگہ بہت فوائد کے حامل ہیں ۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت میں تمام حسنات اور سیئات کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کے تمام ذرائع ، یہاں تک کہ وہ صلاحتیں کہ جن سے غلط فوائد حاصل کئے گئے ، خدا کی طرف سے ہیں اور اصلاحی اور مثبت اجراء کا سر چشمہ وہی ہیں اور اگر دوسری آیت میں سیئات کی نسبت لوگوں کی طرف دی گئی ہے تو واقعہ کے انھی منفی پہلووٴں اور خدا کی عنایات اور صلاحیتوں سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی طرف اشارہ ہے یہ بالکل اسی مثال کی طرح ہے کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو ایک اچھا گھر بنانے کے لئے سرمایہ دے لیکن وہ اسے منشیات، فساد ، تباہ کاری میں صرف کردے اس میں شک نہیں ہے کہ سرمایہ کے لئے وہ اپنے باپ کا مقروض ہے لیکن سرمایے کے غلط استعمال کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے ۔
۲۔ ممکن ہے کہ آیہ مبارکہ ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتی ہو جس کی طرف خبر اور تفویض کی بحث میں اشارہ ہوا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام حوادث دنیا، یہاں تک ہمارے اعمال و افعال چاہے اچھے ہوں یا برے ، نیک ہوں یا بد ایک طرح سے خدا سے مربوط ہیں کیونکہ وہی جس نے ہمیں طاقت دی ہے اور اختیار و ارادہ کی آزادی ہمیں بخشی ہے لہٰذا ہم جو کچھ اختیار کرتے ہیں اور ارادے کی آزادی کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں وہ مشیت الہٰی کے برخلاف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اعمال ہم سے نسبت رکھتے ہیں اور ان کا سر چشمہ ہمارا وجود ہے کیونکہ عمل کے تعین کرنے کا عامل و سبب ہمارا ارادہ و اختیار ہے اور اسی بناپر ہم اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہیں اور خدا کی طرف ہمارے اعمال کی اسناد و نسبت، جیسا کہ اشارہ ہوا ہے ہماری ذمہ داری اور جوابدہی کو سلب نہیں کرتی اور عقیدہ جبر کا موجب اور سبب نہیں بنتی۔ لہٰذ ا خدا جہاں فرماتا ہے کہ ” حسنات و سیئات“ میری طرف سے ہیں تو وہاں اشارہ کرتا ہے کہ تمام چیزوں کی نسبت خدا کی اس فاعلیت ( اختیار) کی طرف ہے اور جہاں فرماتا ہے سیئات تمہاری طرف سے ہیں تو وہاں ہماری فاعلیت اور ہمارے ارادہ و اختیار کی طرف اشارہ ہے ، اور حقیق میں دو آیات کا مجموعہ” الامر بین الامرین “ کے مسئلہ کو ثابت کرتا ہے ( یہ نکتہ غور طلب ہے )
۳۔ ایک اور تفسیر جو ان آیات کے لئے موجود ہے اور اہل بیت (علیه السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ” سیئات“ سے مراد اعمال کی سزا و مجازات اور گناہوں کے عقوبات و نتائج ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سزائیں خدا کی طرف سے ہیں لیکن چونکہ یہ بندوں کے اعمال و افعال کا نتیجہ ہیں ۔ اس بناپر بعض اوقات ان کی نسبت بندوں کی طرف دی جاتی ہے اور بعض اوقات خدا کی طرف، اور دونوں صحیح ہیں ۔ مثلا یہ دونوں طرح سے صحیح و درست ہے کہ کہا جائے کہ قاضی چور کا ہاتھ کاٹتا ہے یا یہ کہ چور خود اپنے ہاتھ کو کاٹتا ہے ۔

 

۸۰۔مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا ۔
۸۱۔ وَیَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللهُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ فَاٴَعْرِضْ عَنْہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ۔
ترجمہ
۸۰۔جس شخص نے پیغمبر کی اطا عت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو گر دانی کرے تو تم اس کے جواب دِہ نہیںہو ۔
۸۱۔وہ تیرے سامنے کہتے ہیں کہ ہم فر ما نبردار ہیں لیکن جب وہ تمھاری بز م سے باہرجاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمھاری گفتگو کے بر خلاف رات کو خفیہ میٹنگیں تشکیل دیتا ہے جو کچھ وہ ان میٹنگوں میںکہتے ہیں خدا اسے لکھتا ہے ۔
ان کی پر واہ نہ کرو (اور ان کے منصوبوںاور سا زشوں سے نہ ڈرو)اور خدا پر تو کل کرو اور کافی ہے کہ وہ تمھارا مدد گاراور حفاظت کرنے والا ہو ۔

 

تفسیرکامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma