حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
آیات 66 تا 68 سوره نساء احادیث کی گواہی

اگر چہ آیت مندرجہ بالا کے ابتدائی حصے کے بارے میں شان نزول بیان کی جاچکی ہے تاہم جیسا کہ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ آیت کی مخصوص شانِ نزول کبھی اس کے عام مفہوم کے خلاف نہیں ہوتی ۔ اس بنا پر ہوسکتا ہے کہ یہ آیت گذشتہ آیت کی بث کی تکمیل کرتی ہو ۔ غرض خدا وند عالم اس آیت میں قسم کھاکر فرماتا ہے کہ انسانوں کا ایمان حقیقی اور واقعی اس وقت ہوگا جب وہ اپنے اختلافات میں پیغمبر کو فیصل اور حاکم مانیں اور دوسروں کی طرف رجوع نہ کریں ۔( فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیماشجر بینھم ) ۔ ۱
اس کے بعد فرماتا ہے کہ نہ صرف فیصلہ آپ کے پاس لے کر آئیں بلکہ جب آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں چاہے وہ ان کے نفع میں ہو یا نقصان میں ، نہ صرف یہ کہ وہ زبانِ اعتراض نہ کھولیں بلکہ ان کا دل مطمئن ہونا چاہیئے
( ثم لایجد وا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما) ۔
اگر چہ فیصلوں کے سلسلے میں جو نقصان انسان کے اٹھا نا پڑتا ہے اس سے ایسی پریشانی اور بے چینی ہوتی ہے جو اکثر انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی لیکن اخلاقی تربیت اور حق عدالت کے سامنے روح تسلیم کی پرورش اور پیغمبر اکرم کے حقیقی مقام کا تصور کرنے سے انسان کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ پھر کبھی نہ صرف حضور کے فیصلے سے بلکہ وہ علماء جو ان کے جانشین ہیں ان کے فیصلے سے بھی کسی قسم کی معمولی سی تکلیف بھی محسوس نہیں کرتا ۔ بہر حال سچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حق کے سامنے تسلیم کا خو گر بنے ۔
مندرجہ بالاآیت میں راسخ اور حقیقی ایمان کی نشانیاں تین مرحلوں میں بیان کی گئی ہیں ۔
۱۔ تمام اختلافات میں چاہے وہ بڑ ے ہوں یا چھوٹے قضاوت و فیصلہ کے لئے پیغمبر اکرم کی طرف رجوع کریں جس کا سر چشمہ حکم الہٰی ہے اور طاغوت اور باطل فیصلہ کرنے والوں کی طرف رجوع نہ کیا جائے ۔
۲۔ پیغمبر اکرم کے فیصلوں اور احکام کو جو یقیناحکم الہٰی ہیں برا نہ سمجھیں اور دل میں بھی ان پر رنج محسوس نہ کریں ۔
۳۔حکم رسول پر سختی سے عمل کریں اور کامل طور پر حق کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔
واضح ہے کہ ایک مکتب کے احکامات کو ان مواقع میں تسلیم کرنا جو انسان کے فائدے میں ہوں اس مکتب پر ایمان کی دلیل نہیںہے بلکہ ایسے مواقع پر احکامات کی تعمیل ایمان کی مظہر ہے جہاں بظاہر وہ حکم انسان کے نقصان میں دکھائی دیتے ہوں لیکن حقیقت میں حق و صداقت پرمبنی ہوں ۔
اس آیت کی تفسیر میںجو حدیث حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے وہ یہ ہے :
اگر ایک گروہ خدا کی عبادت کرے ، نماز پرھے زکوٰة ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور حج کرے لیکن ان کاموں کی جو رسول اللہ (ص) نے کئے ہیں براسمجھے یا یوں کہے کہ فلاں کام نہ کیا ہوتا تو بہتر تھا، وہ در اصل حقیقی مومن نہیں ہے ۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
تم لا لازم ہے کہ خدا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرو ۔
آیت مندرجہ بالا سے ضمنی طور پر دو اہم مطلب معلوم ہوتے ہیں :
۱۔ یہ آیت رسول اللہ (ص) کے معصوم ہونے کی دلیل ہے ۔ کیونکہ پیغمبر (ص)کے تمام احکامات کی گفتار و کردار میں مطلق او رکامل طور پر پذیرائی یہاں تک کہ دلی طور پر ان کے آگے جھکنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آپ کو احکام خدا وندی اور اپنے فیصلوں میں نہ کوئی اشتباہ ہوتا ہے اور نہ آپ جان بوجھ کر خلاف حق کہتے یا کرتے ہیں ۔ لہٰذا آپ خطا سے بھی معصوم ہیں اور گناہ سے بھی ۔
۲۔ آیت مندرجہ بالانصِ پیغمبر کے مقابلہ میں اجتہاد اور ایسے مسائل میں جن کے بارے میں خدا ورسول خدا کی طرف سے حکم صریح موجود ہواظہار رائے اور اظہار عقیدہ کی نفی کرتی ہے ۔ لہٰذا اگر تاریخ اسلام ہمیں یہ بتائے
کہ بعض لوگ خدا و پیغمبر کے حکم کے مقابلے میں اجتہاد، اظہاررائے اور اظہار عقیدہ کیا کرتے تھے مثلاً یہ کہتے تھے کہ پیغمبر نے اس طرح کہا ہے اور میں یہ کہتا ہوں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان کا عمل مندرجہ بالا آیت کی صراحت کے بالکل خلاف ہے ۔

 


۱شجر اصل میں مادہ” شجر“ (بروزن قمر ) سے درخت کے معنی میں ہے ۔ کیونکہ مشاخرہ اور نزاع میں ایک قسم کی پریشانی اور پیچید گی ہوتی ہے جیسے کہ درخت کی شاخیں ایک دوسرے سے پیوست ہوتی ہیں اس لئے نزاع اور کمشکش کے معنی میں بھی آتا ہے زیر نظر آیت میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
آیات 66 تا 68 سوره نساء احادیث کی گواہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma