جبت و طاغوت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
وہ لوگ جو ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں سازشی لوگ

لفظ ” جبت “ قرآن مجید میں صرف اسی آیت میں استعمال ہوا ہے ۔ یہ اسم جامد ہے اس کے مشتقات نہیں ہیں ۔ کہتے ہیں کہ در اصل یہ حبشی زبان کو ایک لفظ ہے جو ” جادوگر“ یا شیطان کے معنی میں ہے ۔ پھر عربی زبان میں آکر اس معنی میں یا ” بت “ نیز ” خد ا“ کے علاوہ ہر وہ معبود کے لئے استعمال ہونے لگا کہا جاتا ہے کہ یہ اصل میں ” جبس “ تھا اس کے بعد اس کی” س“”ت“سے بدل گئی ۔
لفظ ”طاغوت“ قرآن میں آٹھ مقامات پر استعمال ہوا ہے ۔ جیساکہ اس کی تفسیر پہلی جلد میں سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۵۶ کی ذیل میں آچکی ہے کہ یہ طغیان کے مادہ سے مبالغہ ۱
کا صیغہ حد اور سر حد سے تجاوز کرنے کے معنی میں آتا ہے اور اس کے مفہوم میں ہر ایسی چیز شامل ہے جو حد سے تجاوز کرنے کا سبب بنے جن میں سے بت بھی ہیں ۔ اس لئے بتوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔
اس بناپر شیطان ، بت ، جابر و متکبر حاکم ، خدا کے علاوہ ہر معبود اور ہر وہ مادہ راستہ جو غیر حق تک پہنچانے طاغوت کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔
باقی رہا یہ کہ زیر بحث ، آیت میں ان دونوں لفظوں سے کیا مراد ہے تو اس بارے میں مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ دو بتوں کے نام ہیں جن کے سامنے مذکورہ داستان میں یہودیوں کے ایک گروہ نے سجدہ کیا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ جبت کے معنی بت کے ہیں اور طاغوت کے معنی ہیں بت پرست یا بت کا مدد گار جو بتوں سے باتیں کرنے کے نام پر کچھ چیزیں اور باتیں بتوں کی طرف نقل کرتے اور جھوٹ موٹ ان کی طرف نسبت دیتے تھے تاکہ لوگوں کو دھوکا دے سکیں ۔ ۲
جو کچھ شان نزول اور تفسیر میں لکھا گیا ہے یہی مفہوم اس سے مناسبت رکھتا ہے ۔ کیونکہ یہودیوں نے بتوں کے سامنے سجدہ کیا اور بت پرستوں کے آگے بھی سر تسلیم خم کیا ۔
اس کے بعد کی آیت میں اس قسم کی سازشیں کرنے والوں کا انجام بیان کرتے ہوئے فرماتاہے : وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں خدا وند عالم نے اپنی رحمت سے دورکردیاہے اور جسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کردے اس کا تمہیں یا رو مدد گار کہیں نہیں ملے گا ( اولائک الذین لعنھم اللہ و من یلعن اللہ فلن تجد لہ نصیراً)۔آیت کے اعلان کے مطابق یہو دی اپنی سنگین سازشوں سے کوئی فائدہ اٹھا سکے، آخر کار ناکام ہو کر شکست کھائی اور ان کے بارے میں قرآن کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی ۔
مندرجہ بالا آیتیں اگر چہ ایک خاص گروہ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں ۔ لیکن یہ مسلم ہے کہ وہ انہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ وہ ایسے تمام لوگوں کے لئے ہیں جو اپنے گھٹیا مقاصد حاصل کرنے کے لئے اپنی حیثیت و شخصیت بلکہ ایمان و اعتقاد کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس قسم کی سازشیں کرنے والے دنیا اور آخرت میں رحمت ِ خدا سے دور ہیں اور اکثر و بیشتر انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑاتا ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا ناپسندیدہ جذبہ اس قوم میں ابھی تک شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جس حالت میں بھی ہوں مکاری، فریب کاری اور دھوکا بازی سے منہ نہیں موڑتے۔ اسی وجہ سے وہ گذشتہ طویل تاریخ میں اور آج بھی شکست پر شکت کھا رہے ہیں ۔

 

۵۳۔اٴَمْ لَہُمْ نَصیبٌ مِنَ الْمُلْکِ فَإِذاً لا یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقیراً ۔
۵۴۔اٴَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلی ما آتاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْنا آلَ إِبْراہیمَ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ آتَیْناہُمْ مُلْکاً عَظیماً ۔
۵۵۔فَمِنْہُمْ مَنْ آمَنَ بِہِ وَ مِنْہُمْ مَنْ صَدَّ عَنْہُ وَ کَفی بِجَہَنَّمَ سَعیراً ۔
ترجمہ
۵۳۔ کیا ان یہودیوں کا حکومت میں کوئی حصہ ہے ( جو وہ چاہتے ہیں کہ اس کا فیصلہ کریں ) حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ لوگوں کو ان کا کوئی حق نہ دیتے( اور تمام چیزین اپنے ہی دائرہ اختیار میں رکھتے)۔
۵۴۔ یا یہ کہ وہ لوگوں کے ساتھ ( پیغمبر اور ان کے اہل بیت (ع) سے ) اس کے بدلے میں جو خداوند عالم نے اپنے فضل و کرم سے انہیں مرحمت فرمایا ہے حسد کرتے ہیں ۔ ( وہ کیوں حسد کرتے ہیں ) حالانکہ ہم نے آل ابراہیم کو ( کہ یہودی بھی اسی خاندان سے ہیں ) کتاب و حکمت عطا کی اورا نہیں ایک عظیم حکومت عطا کی ۔
۵۵۔ ان میں سے ایک جماعت تو اس پر ایمان لے آئی لیکن ایک گروہ نے اس کے راستے میں رکاوٹ پید اکردی اور اور جہنم کی آگ کا بھڑکتا شعلہ ان کے لئے کافی ہے ۔


 

۱تفسیر المنار جلد سوم ، صفحہ ۳۵ اور بعض کے نزدیک یہ مصدر ہے ، لیکن صفت اور صیغہ مبالغہ کے طور پر ہوا ہے ۔
۲ تفسیر تبیان اور تفسیر روح المعانی ۔
 
وہ لوگ جو ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں سازشی لوگ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma