خود ستا ئی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
سازشی لوگ گناہوں کی بخشش کے اسباب

شان نزول .

بہت سی اسلامی تفاسیر میں اس آیت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے لئے کچھ خصوصیات اور امتیا زات کے قائل تھے ۔ چنانچہ آیات قرآنی میں ہے کہ کبھی وہ کہتے ہم خد اکے بیٹے ہیں ، کبھی کہتے: ہمارے لئے بہشت مخصوص ہے اور ہمارے سوا کوئی وہاں نہیں جاسکتا ( مائدہ ۱۸ ، بقرہ ۱۱۱) یہ آیتیں نازل ہو ئیں اور ان کے باطل خیالات کا جواب دیا گیا ۔

خود ستا ئی

اٴَ لَمْ تَرَ إِلَی الَّذینَ یُزَکُّونَ اٴَنْفُسَہُمْ ۱
اس آیت میں ایک مذموم صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں بہت سے لوگ اور قومیں مبتلا ہیں اور وہ ہے خودستائی ، اپنے آپ کو نیک پاک ظاہر کرنا اور اپنے لئے فضیلتیں گھڑنا ۔ آیت میں ہے : کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی تعریفیں کرتے ہیں ۔ اس کے بعد فرماتا ہے : خدا جس کی چاہتا ہے تعریف کرتا ہے ( بَلِ اللَّہُ یُزَکِّی مَنْ یَشاء )۔ صرف وہی ذات اقدس ہے جو حکمت و مشیت بالغہ کی رو سے کسی کمی اور زیادتی کے بغیر افراد کی ان کی قابلیت، لیاقت اور استعداد کے مطابق مدح کرتی ہے اور کبھی کسی شخص پر سوئی کی نوک کے برابربھی ظلم نہیں کرتی( وَ لا یُظْلَمُونَ فَتیلاً )۔۲
حقیقت میں فضیلت وہی ہے جسے خدا وندعالم فضیلت قرار دے نہ کہ وہ جسے خودستائی کرنے والے خود غرضی کی وجہ سے اپنے ساتھ چسپاں کرلیں اور یوں اپنے پر اور دوسروں پر ظلم کریں ۔
اگر چہ روئے سخن قوم یہود و نصاریٰ کی طرف ہے جو بغیر کسی دلیل کے غلط طور پر اپنے حق میں بعض امتیازات و خصوصیات کے قائل تھے اور اپنے تعارف معززقوم و ملت کی حیثیت سے کراتے تھے کبھی کہتے:
لو تمسنا النار الا ایاما ً معدودة
یعنی چند دنوںکے سوا جہنم کی آگ ہمیں ہر گز نہیں چھو سکتی۔ ( بقرہ۔ ۸۰)
کبھی کہتے :
نحن ابناء اللہ و احبا ئہ
ہم خدا کے بیٹے اور محبوب ہیں ( مائدہ۔ ۱۸)
لیکن یہ بات کسی قوم اور گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ تمام افراد اور قومیں اس میں شامل ہیں جن میں یہ بری عادت پائی جاتی ہے ۔
قرآن مجید سورہٴ نجم آیہ ۳۲ میں صراحت کے ساتھ سب مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے :
فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی
خود ستائی نہ کرو ، خدا پر ہیز گاروں کو خوب پہچانتا ہے ۔
اس کا سر چشمہ وہی خود بینی ، غرور اور گھمنڈ ہے جو آہستہ آہستہ خود ستائی کا روپ دھار لیتا ہے ۔
افسوس ہے کہ یہ بری عادت بہت سی قوموں ، طبقوں اور افراد میں پائی جاتی ہے اور بہت سی معاشرتی بد حالیوں لڑائی جھگڑوں اور تفوق طلبیوں کا سر چشمہ یہی بیماری ہے ۔ گذشتہ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی بعض قومیں اسی جھوٹے احساس بر تری کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسری قوموں سے بالاتر سمجھتی تھیں اور اسی سبب سے خود کو اس امر کو حقدار جانتی تھیں کہ انہیں اپنا غلام بنالیں ۔ زمانہ جاہلیت کے عرب ہر قسم کی پس ماندگی اور فقر و فاقہ کے باوجود اپنے کو اعلیٰ نسل شمار کرتے تھے اور ان کے قبیلوں میں سے ہر ایک قبیلہ اپنے کو سب سے برھ چڑھ کر سمجھتا تھا موجودہ دور میں جرمن قوم یا نسل کی تفوق طلبی اور اپنی بڑائی کا احساس علاقائی اور عالمگیر جنگوں کا سر چشمہ بنی ہے ۔ یہود و نصاریٰ صدر اسلام میں بھی دوسروں کی نسبت اسی قسم کے وہم میں گرفتار تھے ۔ اسی لئے وہ حقائق اسلام کے سامنے بڑی مشکل سے سر جھکا نے کے لئے تیار ہوتے تھے ۔ اسی بناپر زیر نظر آیت میں قرآن شدت سے اس قسم کے توھمات اور برتری کی خواہشات کی سر کوبی کرتا ہے اور اسے افتراء ، خدا پر جھوٹ باندھنا اور بڑا گناہ شمار کرتا ہے اور فرماتاہے (اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَ کَفی بِہِ إِثْماً مُبیناً )۔
یعنی دیکھئے یہ گروہ کس طرح جھوٹے فضائل بنانے اور ان کو خدا کی طرف منسوب کرنے کے ذریعے خد اپر جھوٹ باندھتا ہے ۔ اگر انہوں نے اس گناہ کے علاوہ اور کوئی گناہ نہ بھی کیا ہو تو یہی ان کی سزا کے لئے کافی ہے ۔
حضرت امیر المومنین علی (ع) اپنے مشہور خطبہٴ ھمام میں پرہیز گاروں کی ممتاز اور مخصوص صفتوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
لایرضون من اعمالھم القلیل ولا یستکثرون الکثیر فھم لانفسھم مستھمون و من اعمالھم مشفقون اذا زکی احد منھم خاف مما یقال لہ فیقول انا اعلم بنفسی من غیری و ربی اعلم بی من نفسی اللھم لا توٴخذنی بما یقولون و اجعلنی افضل مما یظنون و اغفرلی مالایعلمون۔
وہ کبھی اپنے تھوڑے سے عمل پر راضی نہیں ہوتے اور کبھی اپنے زیادہ عمل کو بڑا نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے آ پ کو ہر حالت میں فرائض کے انجام دہی میں کوتاہ گردانتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف زدہ رہتے ہیں جب کوئی ان کی تعریف کرتا ہے توجو کچھ وہ ان کے بارے میں کہتاہے اسے سن کر انہیں دقت ہونے لگتی ہے کہ میں اپنی حالت کو دوسروں کی نسبت بہتر جانتا ہوں اور خدا مجھے مجھ سے بہتر جانتا ہے ۔ پالنے والے اس تعریف کے بدلے میں جو تعریف کرنے والے میرے بارے میں کرتے ہیں میری جواب طلبی نہ کرنا اور مجھے اس سے بھی زیادہ جو یہ گمان کرتے ہیں بلند و بالا اور بر تر قرار دے اور میری وہ خطا ئیں جو ان کے علم میں نہیں ہیں بخش دے ۔

 ۵۱۔اٴَ لَمْ تَرَ إِلَی الَّذینَ اٴُوتُوا نَصیباً مِنَ الْکِتابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوتِ وَ یَقُولُونَ لِلَّذینَ کَفَرُوا ہؤُلاء ِ اٴَہْدی مِنَ الَّذینَ آمَنُوا سَبیلاً ۔
۵۲۔اٴُولئِکَ الَّذینَ لَعَنَہُمُ اللَّہُ وَ مَنْ یَلْعَنِ اللَّہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ نَصیراً۔

ترجمہ
۵۱ ۔ کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں خدا کی کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے کہ وہ )
اس کے باوجود ) جبت و طاغوت ( بت اور بت پرستوں ) پر ایمان رکھتے ہیں اور مشرکین سے کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں سے جو ایمان لاچکے ہیں زیادہ ہدایت یافتہ ہیں ۔
۵۲۔ وہ ایسے لوگ ہیں خدا وند عالم نے جنہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور جسے خدا اپنی رحمت سے دور کرے اس کا تجھے کو ئی بھی مدد گار نہیں ملے گا ۔

 


۱-یزکون مادہ تزکیہ سے ہے ۔ جس کے معنی ہیں پاک سمجھنا اور پاکیزہ گی سے پہچنوانا بعض اوقات پاک کرنے ، تربیت دینے اور رشد و ہدایت کے معنی میں بھی استعما ل ہوتا ہے ۔ اصل میں یہ پاک کرنے کے معنی میں ہے ۔ اگر یہ کام عملی پہلو رکھتا ہو تو پسند یدہ ہے اور اگر صرف زبانی جمع خرچ ہو تو مذموم ہے ۔
۲ -فتیل لغت میں اس بہت ہی باریک دھا گے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گھٹلی کے شگاف میں دکھائی دیتا ہے ۔ یہ بہت ہی چھوٹی چیزوںکے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور در اصل یہ مادہٴ ” فتل“ سے ہے جس کے معنی ہیں ” بٹا ہوا“۔
سازشی لوگ گناہوں کی بخشش کے اسباب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma