معاشرے کی سلامتی کا دارو مدار اقتصادی سلامتی پر ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
گناہان کبیرہ و صغیرہ یہ پابندیاں کس بناپر ہیں

معاشرے کی سلامتی کا دارو مدار اقتصادی سلامتی پر ہے

یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَاٴْکُلُوا اٴَمْوالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْباطِلِ

در حقیقت یہ آیت قوانین ِ اسلام کی بنیاد کو مالی معاملات اور مبادلات سے تعلق رکھنے والے مسائل سے مربوط کرتی ہے ۔

اسی وجہ سے فقہائے اسلام لین دین اور معاملات کے تمام ابواب میں اسی سے استدلال کرتے ہیں ۔ آیت ایماندار لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے : ایک دوسررے کے اموال غلط اور باطل طریقوں سے نہ کھاوٴ ۔ یعنی دوسروں کے مال میں ہر قسم کا تصرف جو منطقی اور عقلی جواز کے بغیر ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ان سب کو ایک لفظ ” باطل“ کے تحت بیان کر دیا گیا ہے ۔ جو ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ باطل حق کے مقابلے میں ہے اور وہ ہر اس چیز کو جو بری ، بے مقصد اور بے بنیاد ہو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی مندرجہ بالاعبارت کے مشابہ عبارتوں کے ذریعے اس امر کی تاکید کی گئی ہے مثلاً قوم یہود کی مذمت اور ان کی بد کرداری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :

و اکلھم اموال الناس بالباطل (نساء۱۶۱)

وہ لوگوں کے مال میں جواز کے بغیر غلط تصرف کرتے تھے ۔

اور سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۸۸ میں ہے :

لا تاٴکلوا اموالکم بینکم بالباطل

اس میںبھی لوگوں کی بلا وجہ اور بے بنیاد دعوں کے ذریعے مال ہڑپ کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔


اس بنا پر ہر قسم کی زیادتی ، دھوکا ، فریب، سود لین دین ، اور ایسے معاملے جن کی حدیں مکمل طور سے معین و مقرر نہیں ہیں ، ایسی اجناس کی خرید و فروخت جن میں منطقی اور عقلی طور پر فائدہ نہیں ہے اور فساد و گناہ کے وسائل کی خرید و فروخت سے کے سب اسی کلی قانون کے تحت ہیں ۔ اگر چہ بہت سی روایتوں میں لفظ باطل کی تفسیر قمار بازی اور سود وغیرہ کی گئی ہے لیکن یہ در اصل ان چیزوں کا تعارف کرایا گیاہے جو واضح طور پر اس لفظ میں شامل ہیں نہ یہ کہ باطل انہی تک محدود ہے ۔ شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ (اکل ّ) ( کھانا) سے تعبیر کرنا ہر قسم کے تصرف کی طرف اشارہ ہے ۔ چاہے وہ معمول کے مطابق کھانے سے ہو یا پہننے اور رہائش وغیرہ سے اور یہی معنی عربی زبان کے علاوہ آج کل کی فارسی میں بھی مکمل طور پر رائج ہے ۔ ۱ .


استثناء منقطع اکثر و بیشتر حکم کی عمومیت کی تاکید کے لئے آتا ہے اور یہی معنی آیت مندرجہ بالا پر صادق آتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس حقیقت کا بھی پتہ دیتا ہے کہ تصرفاتِ باطل کی حرمت کے باوجود زندگی کی راہیں تمہارے لئے بند نہیں ہیں اور تم جائز تجارت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہو۔

یہ جملہ گذشتہ قانونِ کلی کی استثنائی صورت بیان کر رہا ہے لیکن اصطلاحی طور پر استثنائے منقطع ہے ۔ ۲

الا ان تکون تجارة عن تراض

میں آیا ہے وہ پہلے قانون میں شروع ہی سے داخل نہ تھا اور صرف ایک تاکید اور یاد دہانی کے طور پر ذکر ہوا ہے اور یہ اپنے مقام پر خود ایک کلی قانون ہے کیونکہ خدا تعالےٰ فرماتا ہے :فرماتا ہے : مگر یہ کہ تمہارا دوسروں کے مالوں میں تصرف عدل و انصاف کے مطابق ہو جو طرفین کی باہمی رضا و رغبت سے ہو ۔ اس لئے اس بیان کے مطابق تمام مالی مبادلات اور لوگوں میں مروج مختلف طرح کی تجارت اگر طرفین کی رضامندی سے ہو اور عقل و منطق کے مطابق ہوتو اسلام میں جائز ہے ۔ مگر وہ امور اس میں داخل نہیں ہیں جن سے بر بنائے مصلحت صریحاً ممانعت کی گئی ہو ۔

وَ لا تَقْتُلُوا اٴَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّہَ کانَ بِکُمْ رَحیماً

اس کے بعد اس آیت کے ذیل میں لوگوں کو قتل نفس سے منع کیا گیاہے ۔ اگر قرآن کا یہ جملہ سامنے رکھا جائے : ان اللہ بکم رحیماً یعنی خد اوندعالم تمہاری نسبت زیادہ مہر بان ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے مندرجہ بالاجملہ خود کشی سے نہی کے بارے میں ہے ۔ یعنی مہر بان خدا نہ صرف اس پر راضی نہیں کہ کو ئی دوسرا تمہیں قتل کرے بلکہ تمہیں یہ بھی جازت نہیں دیتا کہ تم خود سے اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دو ۔ روایات اہل بیت (ع) میں بھی زیر نظر آیت کا مفہوم خود کشی سے امتناع ہی بیان کیا گیا ہے ۔ ۱

۱اب یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ قتل نفس اور لوگوں کے مال میں باطل و ناحق تصرف میںکیا تعلق ہے ؟ اس سوال کا جواب واضح ہے اور حقیقت میں قرآن نے ان دونوں احکام کا ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کرکے ایک اہم اجتماعی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر لوگوں کے مالی مسائل صحیح بنیادوں پر استوار نہ ہوں اور معاشرے کے اقتصادی معاملات خوشگوار طریقہ سے آگے نہ بڑھیں ۔ وہ ایک دوسرے کے اموال میں ناحق تصرف کریں تو سماج ایک قسم کی خود کشی میں گرفتار ہو جائے گا ۔ اس کے علاوہ کہ شخصی خود کشی میں اضافہ ہو گا اجتماعی اور معاشرتی خودکشی بھی اس کے ضمنی اثرات میں سے ہوگی ۔ اس سے دور حاضر کے مختلف معاشروں میں آنے والے حوادث و انقلاب اس حقیقت کے شاہد عادل ہیں ۔ چونکہ خدا وند عالم اپنے بندوں پر مہر بان ہے لہٰذا انہیں خطر ے خبر دار کرتا ہے تاکہ وہ ہوشیار اور چوکنے رہیں ۔ کہیں غلط قسم کے مبادلاتِ مال اور غیر صحیح اقتصادی نظام ان کے معاشرے کو نیست و نابود کرکے نہ رکھ دے ۔


وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ عُدْواناً وَ ظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلیہِ ناراً ۔

اور جو شخص اس حکم کو نہ مانے اور لوگوں کو ناحق مال کھاکر گناہگار ہو یا خود کشی کی طرف بڑھے تو نہ صرف یہ کہ وہ اس جہان کی آگ میں جلے گا بلکہ وہ قہر و غضب پروردگار کی آگ میں بھی جلے گا اور یہ کام خدا کے لئے آسان ہے (وَ کانَ ذلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسیراً )۲

۲صلی ( بروزن سرو) اصلی آگ کے قریب جانے کے معنی میں ہے ۔ تاکہ آگ سے گرم ہونے ، جھلسنے اور جلنے کو بھی صلی کہتے ہیں زیر بحث آیت میں یہ لفظ آگ میں داخل ہونے اور جلنے کے معنی میں ہے۔

۳۱۔إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبائِرَ ما تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُدْخَلاً کَریماً ۔

ترجمہ

۳۱۔ اگر تم ان گناہوں ِ کبیرہ سے جن سے تمہیں منع کیاگیا ہے بچو گے تو ہم تمہارے چھوٹے موٹے گناہوں کی پردہ پوشی کریں گے اور تمہیں نہایت عمدہ اور اچھی جگہ عنایت فرمائیں گے ۔

 


۱.ار دو میں بھی ’کھانا ‘ اس وسیع معنی میں مستعمل ہے۔( مترجم )
۲تفسیر مجمع البیان آیہٴ مذکور کے ذیل میں ، نور الثقلین جلد اول صفحہ ۴۷۲ پرملاحظہ فرمائیے۔
گناہان کبیرہ و صغیرہ یہ پابندیاں کس بناپر ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma