محارم سے نکاح کی حرمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
محارم رضاعی کی حرمت کا فلسفہ ۔تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں ،

اس آیت میں محار ( وہ عورتیں جن سے رشتہ زوجیت منع ہے ) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اس آیت کی بنیاد پر تین طریقوں سے محرمیت پیدا ہو۔
۱۔ ولادت ، جسے نسبی تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
۲۔ طریق ازدواج سے ، جسے سببی ارطباط کہتے ہیں۔
۳۔ رضاعت (دودھ پلانے ) سے ، جسے ارتباط رضاعی بولتے ہیں۔
سب سے پہلے نسبی محارم کی طرف جو سات طرح کے ہیں ، اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّہاتُکُمْ وَ بَناتُکُمْ وَ اٴَخَواتُکُمْ وَ عَمَّاتُکُمْ وَ خالاتُکُمْ وَ بَناتُ الْاٴَخِ وَ بَناتُ الْاٴُخْتِ ۔۔۔
تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں ، تمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، تمہاری خالائیں ، تمہاری بھتیجیاںاور تمہاری بھانجیاں تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
یاد رکھئے کہ ماں سے مراد وہ عورت نہیں ہے جس سے انسان بلا واسطہ پیدا ہوا ہو بلکہ دادی پر دادی اور باپ کی ماں اور اس قسم کی دوسری عورتیں مراد ہیں ۔ جس طرح بیٹی سے مراد صرف بلا واسطہ بیٹی نہیں ہے بلکہ بیٹی ، پوتی ، نواسی، اور ان کی اولاد بھی ہے اسی طرح دوسرے پانچ مواقع پر بھی ایسا ہی ہے ۔ امر واضح ہے کہ تمام لوگ فطری طور پر اس قسم کی شادیوں سے نفرت کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے سب قومیں ( چند افراد کو چھوڑ کر ) محارم سے نکاح حرام سمجھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مجوسی جو اپنے منابع اور کتب کی بنا پر اس قسم کی شادیوں کو جائز سمجھتے تھے آج اس کا انکار کرتے ہیں ۔ اگر چہ بعض لوگ اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اس امر کو ایک پرانی عادت اور رسم قرار دیں ۔ لیکن یہ مسلمہ امر ہے کہ ایک قانون کی عمومیت تمام لوگوں ، زمانوں ، سالوں اور شہروں میں عملی طور پر اس کے فطری ہونے کی ترجمانی کرتی ہے ۔ کیانکہ ایک عام رسم و عادات میں دائمی اور عالمگیر بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ اس سے قطع نظر بھی آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہم خون افرادکی ایک دوسرے سے شادیاں بے شمار خطراط کی حمال ہوتی ہیں یعنی چھپی ہوئی اور وراثتی بیماریاںشدت اختیار کر لیتی ہے اور آشکار ہوجاتی ہیں ( اس سے یہ مراد نہیں کہ اس طرح بیماری پیدا ہوتی ہے ) ۔یہاں تک کہ بعض لوگ تو محارم سے گزر کر قوم و قبیلے میں بھی جو نسبتاً نزدیکی ہیں مثلاً چچا زاد کا ایک دوسرے شادی کرنا بھی اچھا نہیں سمجھتے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ بھی وراثتی بیماریوں کے خطرات میں شدت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مسئلہ اگر دور کے رشتہ داروں میں کوئی مشکل پیدا نہ بھی کرے ( جیسا کہ عام طور پر نہیں کرتا ) تب بھی نزدیک کے رشتہ داروں میں جو کہ زیادہ ہم خون ہیں یقینا خرابی اور بیماری میں شدت پیدا کردیتا ہے ۔ ۱
علاوہ ازیں عام طور پر محارم میں جنسی جذب و کشش کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ کیونکہ وہ زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ

 

( پلتے بڑھتے ، پھلتے پھولتے اور ) پروان چڑھتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے لئے ایک عام اور دائمی وجود ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہ استثنائی اور غیر معمولی قوانین کی عمومی اور کلی حالت کے لئے میزان نہیں بن سکتے ۔
نیز ہمیں معلوم ہے کہ جنسی کشش ہی ازدواجی زندگی کے رشتے کے استحکام کے لئے شرط اول ہے ۔ اس بنا پر اگر محارم کے درمیان ازدواج ہو تو وہ نا پائیدار اور گرم جوشی سے عاری ثابت ہوگا ۔
اس کے بعد رضاعی محارم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ِ وَ اٴُمَّہاتُکُمُ اللاَّتی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَ اٴَخَواتُکُمْ مِنَ الرَّضاعَةِ ۔ یعنی اور تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلاتی ہیں اور تمہاری رضاعی بہنیں تم پر حرام ہیں ۔
اگر چہ قرآ ن نے آیت کے اس میں صرف دو گروہوں یعنی رضاعی بہنوں اور ماوٴں کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن بے شمار موجود روایات کی بنا پر رضاعی محارم انہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ مشہور حدیث کے مطابق جو حضرت پیغمبر سے منقول ہے : یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب ۔ یعنی تمام افراد جو نسبی جو نسبی رشتہ کے لحاظ سے حرام ہیں وہ رضاعت ( دودھ پلائی ) کی رو سے بھی حرام ہیں البتہ دودھ پلانے کی مقدار جو محرمیت پر اثر ڈالتی ہے ، یہ اور اس طرح کی دیگر شرائط کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔

 

 
۱ ۔ البتہ اسلام میں چچا زاد کاایک دوسرے سے شادی کرنا اور اس قسم کے دوسرے رشتہ دار حرام نہیں ہوئے کیونکہ یہ محارم کی طرح نہیں ہیں اور اس قسم کے رشتوں میں کسی حادثہ کا احتمال بہت کم ہے ۔ ہم خود بہت سے مواقع کے عینی شاہد ہیں کہ اس قسم کی شادیاں ہوئیں اور ان کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوئے وہ صحت مند اور ذہنی طور پر لائق ہیں ۔
محارم رضاعی کی حرمت کا فلسفہ ۔تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں ،
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma