چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
چند قابل توجہ نکاتحضرت موسیٰ (علیه السلام) سے بت سازی کی فرمائش

۱۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بت پرستی کا اصل سبب بشر کا جہل اور نادانی ہے، اس کا ایک جہل تو اپنے خالق حقیقی سے ہے یعنی اس کی ذات پاک کو نہ جانا اور یہ نہ جاننا کہ اس کی شبیہ ونظیر ہرگز ممکن نہیں ہے ۔
دوسری طرف اس جہان کی اصل علت سے جہل ہے اور اس کے حوادث کی علت سے بے خبر ی ہے اس جہل کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن ہر حادثے کی ایک خیالی علت تراش لیتاہے یہاں تک کہ بتوں کو بھی علت مان لیتا ہے ۔
اس کا تیسرا جہل عالم ماوراء طبیعت سے ہے جس کے نتیجہ میں سوائے حسی اشیاء کہ جن کو وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور حواس پنجگانہ سے محسوس کرتا ہے، اور کسی چیز کو نہیں مانتا، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان تین طرح کے جہلوں کی آمیزش سے بت پرستی کا مادہ پیدا ہوتا ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا انسان جو آگاہ وفہمیدہ ہو، خدا اور اس کی صفات ذاتی سے باخبر ہو، علل حوادث کا بھی اسے علم ہو، جہان طبیعت اور ماواء طبیعت کی بھی اطلاع رکھتا ہو پھر اپنے ہاتھوں سے پہاڑ میں سے پتھر کے ایک ٹکڑے کو جدا کرے، اس کے ایک حصہ کو اپنے مکان کے کسی حصے مثلاً سیڑھی وغیرہ کے لئے استعمال کرے اور اسی پتھر کے دوسرے حصے سے ایک بت تراشے اور اسے اپنا معبود قرار دے کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے اور اسے اپنی تقدیر کا مالک ومختار سمجھ بیٹھے؟!۔
جالب توجہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالامیں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ تم وہ گروہ ہو جو ہمیشہ جاہلیت کے اندر غوطہ زن رہا کرتا ہے (کیوں کہ ”تجھلون“ فعل مضارع ہے جو زیادہ تر استمرار پر دلالت کرتا ہے) خصوصاً یہ کہ اس میں جاہلیت کے متعلق بیان نہیں کیا گیا ہے اور یہ خود عموم پر دلالت کرتا ہے ۔
سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے ”اجعل لنا الٰھا“ (ہمارے لئے ایک معبود بنا دو)کہہ کر یہ ثابت کردیا کہ یہ بات ممکن ہے کہ ایک ایسی چیز جو کبھی بھی صاحب اثر وفعال نہ تھی، نہ اس میں کوئی ضرر تھا نہ فائدہ انتخاب اور قرار داد کے ذریعے اور کسی بت یا خدا کا نام رکھنے کے ذریعے اچانک وہ طرح طرح کے آثار سرچشمہ قرار پاجائے اور اس کی پرستش انسان کو اس کے رب سے نزدیک کردے ، اس کی بے احترامی سے بندہ خدا سے دور ہوجائے ، اس کی عبادت سرچشمہٴ خیروبرکت اور اس کی تحقیر نقصان و خسران کا سبب بن جائے ، یہ انتہائی درجے کی جاہلیت اور بے خبری کی بات ہے ۔
یہ درست ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ منشا نہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) ان کے لئے ایک ایسا معبود بنا دیں جو پورے جہان کا خالق ہو بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کے لئے ایک ایسا معبود بنادیں جس کی پرستش کی وجہ سے وہ خدا کے نزدیک ہوجائیں اور وہ خیرو برکت کا سرچشمہ بنے، لیکن یہ سوال یہ ہے کہ صرف ایک نام رکھنے کی وجہ سے یا مجسمہ بنادینے سے کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک بے روح اوربے خاصیت ہستی یک بیک ان خواص وآثار کا سرچشمہ بن جائے اس سے زیادہ بھی کوئی بات خرافات ، جاہلیت اور بے بنیاد توہمات پر مبنی ہوسکتی ہے؟!(۱)
۲۔ اس میں شک نہیں کہ بنی اسرائیل قبل اس کے کہ اس بت پرست قوم کو دیکھیں مصریوں کے ساتھ طولانی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے، خود بھی بت پرستی کی طرف میلان رکھتے تھے لیکن یہ بات ان کے دلوں میں چنگاری کی طرح دبی ہوئی تھی، لہٰذا جونہی انھوں نے راستے میں بت پرستی کا منظر دیکھا تو یہ دبی ہوئی چنگاری یک بیک سلگ اٹھی، اس سے معلوم ہوا کہ ایک انسان جیسا بھی ہو، وہ کس قدر ماحول کا تابع ہوتا ہے اور اس کا ماحول اس پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے، یہ ماحول ہے چاہے تو اسے خدا پرستی سے نزدیک کردے اور چاہے تو صنم کے دروازے تک لے جائے ، ماحول ہی بہت سی برائیوں اور بدبختیوں کا سبب بنتا ہے اور وہی نیکی وپارسائی کی طرف لے جاتا ہے (اگرچہ ماحول کا انتخاب ہی اصلی علت ہوتا ہے) یہی وجہ ہے کہ ماحول کی اصلاح کو اسلام میں بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔
۳۔ایک اور جالب نظر بات جو آیت مذکورہ سے معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ناشکر گزار افراد کی کثرت تھی، باوجود یہ کہ انھوں نے حضرت موسیٰ (علیه السلام) سے اتنے معجزے دیکھے، قدرت کے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان کا دشمن فرعون نابود ہوا ابھی کافی عرصہ بھی نہیں گزرا تھا، وہ غرق کردیا گیا اور وہ سلامتی کے ساتھ دریا کو عبور کرگئے لیکن انھوں نے ان تمام باتوں کو یکسر بھلا دیا اور حضرت موسیٰ (علیه السلام) سے بت سازی کا سوال کربیٹھے ۔
نہج البلاغہ میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے مسلمانوں پر اعتراض کیا ؛ابھی تمھارے بنی دفن بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ تم لوگوں نے اختلاف کردیا ۔(2)
حضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا؛
”انما اختلفا عنہ لا فیہ ولکنکم ماجفت ارجلکم من البحر حتیٰ قلتم لنبیکم اجْعَل لَنَا إِلَھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَة فقَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُونَ“ ۔
ہم نے ان فرامین واقوال کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو پیغمبر سے ہم تک پہنچے ہیں، پیغمبر یا ان کی نبوت سے متعلق ہم نے کوئی اختلاف نہیں کیا(چہ جائیکہ الوہیت کے متعلق ہم نے کوئی بات کہی ہو) لیکن تم(یہودی) ابھی تمھارے پیر دریا کے پانی سے خشک نہیں ہونے پائے تھے کہ تم نے نبی(حضرت موسیٰ (علیه السلام)) سے یہ کہہ دیا کہ ہمارے لئے ایک ایسا ہی معبود بنادو جس طرح کہ ان کے متعدد معبود ہیں، اور اس نبی نے تمھارے جواب میں تم سے کہا تھا کہ تم ایک ایسا گروہ ہو جو جہل کے بارے میں غوطہ زن ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے اپنی بات کی تکمیل کے لئے بنی اسرائیل سے کہا: اس بت پرست گروہ کو جو تم دیکھ رہے ہو ان کا انجام ہلاکت ہے اور ان کا ہر کام باطل و بے بنیاد ہے (إِنَّ ہَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا ھُمْ فِیہِ وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔
یعنی ان کا عمل بھی عبث ہے اور ان کی زحمتیں بھی سب بے نتیجہ ہیں اور آخر میں جو ہر بت پرست قوم کا انجام بد (ہلاکت) ہے وہی ان کا بھی انجام ہونا ہے (کیوں کہ ”متبر“ کا مادہ ”تبار“ ہے جس کے معنی ہیں”ہلاکت“) ۔
اس کے بعد مزید تاکید کے لے فرمایا گیا ہے: آیا خدائے برحق کے علاوہ تمھارے لئے کوئی دوسرا معبود بنالوں، وہی خدا جس نے اہل جہان(ہمعصر لوگوں) پر تم کو فضیلت دی( قَالَ اٴَغَیْرَ اللهِ اٴَبْغِیکُمْ إِلَھًا وَھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ ) ۔
مطلب یہ ہے کہ اگر خدا کی پرستش کا اصل محرک شکر گزاری کا جذبہ ہوتو تمھیں یہ سوچنا چاہئے کہ تمھاری ساری نعمتیں خدا کی دی ہوئی ہیں، اور اگر اس کی پرستش اس وجہ سے ہے کہ وہ علة العلل اور منشاء اثر ہے، تب بھی اس کا تعلق خدائے وحدہ لاشریک سے ہے، بنابریں جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے صرف اسی کی عبادت وپرستش کرنا چاہئے اس کے غیر کی نہیں ۔
اس کے بعد کی آیت میں خدا وند کریم اپنی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت کا ذکر فرماتا ہے جو اس نے بنی اسرائیل کو عطا فرمائی تھی، تاکہ اس عظیم نعمت کا تصور کرکے اس میں شکر گزاری کا جذبہ بیدار ہو اور انھیں یہ احساس ہو پرستش اور سجدے کے کا مستحق صرف خدائے یکتا ویگانہ ہے، اور ا س بات کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی کہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ہیں ان کے سامنے سرتعظیم جھکایاجائے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے :”یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تمھیں فرعون کے گروہ کی شر سے نجات دے دی وہ لوگ تم کو مسلسل عذاب دیتے چلے آرہے تھے

 

(وَإِذْ اٴَنجَیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ) ۔
”یسومون“ کی اصل ”سوم“ ہے جس کے معنی جیسا کہ راغب نے مفردات میں لکھا ہے کسی چیز کے پیچھے چلنے کے ہیں اور قاموس میں ہے کہ اس لفظ میں ایک طرح کا تسلسل واستمرار بھی پایا جاتا ہے، بنابریں ”یسومون کم سوء العذاب“ کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ لوگ برابر اور مسلسل تم کو عذاب دیتے چلے آرہے تھے ۔
اس کے بعد جیسا کہ قرآنی قائدہ ہے کہ اجمال کے بعد تفصیل سے کام لےتا ہے، اس عذاب و ایذا رسانی کی تفصیل یوں بیان فرماتا ہے: وہ تمھارے بیٹوں کو تو قتل کردیتے تھے اور تمھاری عورتوں لڑکیوں کو (خدمت اور کنیزی کے لئے ) زندہ چھوڑ دیتے تھے (یُقَتِّلُونَ اٴَبْنَائَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَائَکُمْ ) ۔
”اور اس مصیبت میں تمھارے رب کی طرف سے تمھاری بڑی آزمائش تھی(وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ) ۔
گذشتہ اور آئندہ آیات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے یہ جملہ بنی اسرائیل سے اس وقت کہا جب وہ دریا کو عبور کرنے کے بعد بت پرستی کی خواہش میں گرفتار ہوگئے تھے ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس جملہ کے مخاطب وہ یہودی ہیں جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں موجود تھے ، کیوں کہ پہلی تفسیر کے مطابق اس میں ایک جملہ ”قال ربکم“ مقدر ماننا پڑے گا (یعنی موسیٰ (علیه السلام) نے کہا کہ تمھارا رب کہتا ہے ) اور یہ ظاہر کے خلاف ہے ۔
لیکن اگر اسے زمانہٴ پیغمبر کی بات مانا جائے تو یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ اس طرح ماقبل اور مابعد

 

142- وَوَاعَدْنَا مُوسیٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَةً وَاٴَتْمَمْنَاھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ اٴَرْبَعِینَ لَیْلَةً وَقَالَ مُوسیٰ لِاٴَخِیہِ ھَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَاٴَصْلِحْ وَلَاتَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ -
ترجمہ
تفسیر
صفحہ ۲۹۳
پہلے فرمایا گیا ہے: ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں (پورے ایک مہینہ)کا وعدی کیا، اس کے بعد مزید دس راتیں بڑھا کر اس وعدہ کی تکمیل کی، چنانچہ موسیٰ (علیه السلام) سے خدا کا وعدی چالیس راتوں میں پورا ہوا ( وَوَاعَدْنَا مُوسیٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَةً وَاٴَتْمَمْنَاھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ اٴَرْبَعِینَ لَیْلَةً) ۔
”میقات“ کی اصل ”وقت“ ہے جس کے معنی اس ”وقت“ کے ہیں جو کسی کام کے کرنے کے لئے پہلے سے طے کیا جائے، اس کا اطلاق عام طور سے ”زمانہ“ کے لئے ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس مقام کو بھی میقات کہتے ہیں جہاں کوئی خاص کام انجام پائے، جیسے ”میقات حج“ یعنی وہ جگہ جہاں سے کسی شخص کو بغیر احرام کے آگے بڑھنے اجازت نہیں ہے ۔
اس کے بعد اس طرھ بیان کیا گیا ہے:موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا : میری قوم میں تم میرے جانشین بن جاؤ اور ان کی اصلاح کی کوشش کرو اور کبھی مفسدوں کی پیروی نہ کرو ( وَقَالَ مُوسیٰ لِاٴَخِیہِ ھَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَاٴَصْلِحْ وَلَاتَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

 

 

 

 
۱۔ بت پرستی کی تاریخ کے بارے میں مزید معلومات کے لئے تفسیر نمونہ جلد دوم (ص ۱۶۸ اردو ترجمہ)کی طرف رجوع کریں ۔
2۔ اس سے مراد خلافت کے بارے میں اختلاف ہے ۔(مترجم)
 
چند قابل توجہ نکاتحضرت موسیٰ (علیه السلام) سے بت سازی کی فرمائش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma