فال نیک و بد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
مختلف اور پیہم بلاؤں کا نزولبیدار کرنے والی سزائیں

مختلف قوموں میں فال نیک و بد کا رواج شاید پہلے سے چلا آرہا ہے، لوگ کچھ چیزوں سے ”فال نیک“ لیا کرتے تھے اور ان کو اپنی فتحیابی کی دلیل خیال کرتے تھے اور کچھ چیزوں کو ”فال بد“ سمجھتے تھے اور ان کو اپنی شکست کی دلیل سمجھتے تھے حالانکہ کامیابی یا ناکامی کوان چیزوں سے دور کا لگاؤ بھی نہ تھا خصوصاً فال بد میں تو سراسر خرافاتی پہلو اور حد درجہ کی نامعقولیت تھی اور اب بھی ہے ۔
ان دونوں طرح کی فالوں کا اگرچہ کوئی اثر طبیعی(NATURAL RESULT) حقیقت میں نہیں ہوتا تاکہ بلاشبہ ان کا نفسیاتی اثر مرتب ہوسکتا ہے، فال نیک بالعموم پر امید بناتی ہے اور سرگرم عمل ہونے کا سبب بنتی جب کہ ”فال بد“ ناامیدی ،سستی اور ناتوانی پیدا کرتی ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ روایات اسلامی میں فال نیک سے نہیں روکاگیا ہے لیکن ”فال بد“ سے شدت سے منع کیا گیا ہے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا:
تفاٴلوا بالخیر تجدوہ۔
کاموں میں فال نیک سے کام لیا کرو (اور پُر امید رہو)تاکہ مقصد تک پہنچ جاؤ۔
اس میں اس کا اثباتی پہلو نمایا ہے ، بلکہ خود پیغمبر اسلام صلی ا للهعلیہ وآلہ وسلم اور پیشوایان عالی مقام علیہم السلام کے واقعات میں ہے کہ وہ بعض اوقات مسائل میں فال نیک سے کام لیا کرتے تھے، مثلاً جب مسلمان واقعہ حدیبیہ میں کفار مکہ کے سامنے آئے تو اس میں سہیل بن عمرو کفار کا نمائندہ بن کر پیغمبر اسلام کے پاس آیا اور حضرت سے کسی نے کہا کہ سہل آیا ہے تو آپ نے فوراً فرمایا :
”قد سہل علیکم وامرکم “۔
یعنی اس کانام ”سہل“ س ے میں یہ فال لیتا ہوں کہ تمھارے اوپر یہ کام سہل وآسان ہوجائے گا(1)
مشہور تاریخ نویس ”دمیری“ جو آٹھویں صدی کا مورخ ہے وہ بھی اپنی ایک کتاب میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: پیغمبر اسلام فال نیک کو اس لئے پسند فرماتے تھے کہ انسان جب بھی فضل الٰہی کا امید وار ہوگا تو نیکی کی راہ میں اپنے قدم آگے بڑھائے گا اور جب اس سے اپنی امید کو توڑ لے گا تو شر سے راستے پر چل پڑے گا فال بد لینا سبب ہے سوء ظن ، انتظار بلا اور امید بد بختی کا (2) ۔
بہرحال ان وجوہ کی بنا پر ”فال بد“ جس کو عرب ”تطیر“ اور ”طیرہ“ کہتے تھے، جیسا کہ سابقا اشارہ ہوا ہے روایات اسلامی میں ان کی شدید مذمت کی گئی ہے ، قرآن مجید میں بھی بہ تکرار اس مطلب کا ذکر آیا ہے اور اس کی مذمت کی گئی ہے (3)، ایک حدیث پیغمبر اسلام کی یہ ہے، آپ نے فرمایا:
”الطیرة شرک “
فال بد نکالنا (اور اس کو انسانی تقدیر میں موثر جاننا)ایک طرح کا شرک ہے ۔(4)
یہ بھی ہے کہ اگر فال بد کا برا اثر مرتب ہو بھی تو یہ اسی نفسیاتی کشمکش کا نتیجہ ہے جو فال لیتے وقت پیدا ہوئی ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”الطیرة علی ما تجعلھا ان ھونتھا تھونت، وان شددتھا تشددت، وان لم تجلعلھا شیئا لم تکن شیئا“۔
فال بد کا اثر اسی قدر ہے جتنا تم قبول کرو، اگر اس کو سبک سمجھو تو اس کا اثر بھی سبک وآسان ہوگا اور اگر اس کو سخت سمجھو تو نتیجہ بھی سخت نکلے گا اور اگر اس کی طرف اعتنا نہ کرو اور اس کی پروا نہ کرو تو اس کا کوئی اثر برآمد نہ ہوگا ۔(5)
اسلامی روایات میں رسول اللہ صلی ا للهعلیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
”فال بد“ سے مقابلے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی پروا نہ کی جائے ۔
نیز آنحضرت صلی ا للهعلیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ فرمایا:
”ثلات لا یسلم منھا احد، الطیرة، والحسد، والظن، قیل فما نصنع؟ قال: اذا تطیرت فامض، واذا حسدت فلاتبغ، واذا ظننت فلاتحقق“۔
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے کوئی شخص محفوظ نہیں ہے (ان تین چیزوں کی وجہ سے عام لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے) فال بد، حسد اور بدگمانی، لوگوں نے پوچھا تو پھر ہم کیا کریں؟ فرمایا: جب فال بد کا سامنا ہو تو اس کی پروا نہ کرو اور اپنا کام کر گزرو، اور جب دل میں حسد پیدا ہوتو اس کو عملی طور سے بجالاؤ اور جب کسی سے بدگمانی ہو تو تحقیق نہ کرو ۔
عجیب بات یہ ہے کہ فال بد اور فال نیک کا رواج ترقی یافتہ اور صنعتی ملکوں میں بھی پایا جاتا ہے اور مشہور ومعروف تاریخی شخصیتوں میں بھی یہ عادت موجود تھی اور ہے، جیسے مغربی ممالک میں ان چیزوں سے فال بد لی جاتی ہے :کسی سیڑھی کے نیچے سے گزرنا، نمکدان گرجانا، چاقو کا ہدیہ دینا ۔
البتہ فال نیک کا مسئلہ کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ جیسا کہ ہم کہا اکثر اس کا اثر مثبت نکلتا ہے لیکن فال بد کے رسم ورواج سے ہمیشہ مقابلہ کرنا چاہئے اور اس بری رسم کو لوگوں کے ذہنوں سے خارج کرنا چاہئے، اس مقابلے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ روح ایمانی کی تقویت کی جائے، دلوں میں خدا پر توکل و اعتماد کیا جائے، یہی رویات اسلامی میں بھی وارد ہوا ہے ۔

 

۱۳۲ وَقَالُوا مَھْمَا تَاٴْتِنَا بِہِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِھَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ۔
۱۳۳فَاٴَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِینَ ۔
ترجمہ
۱۳۲۔اور انھوں نے کہا کہ(اے موسیٰ) جب تم کوئی ایسی آیت ہمارے پاس لاؤ کہ اس سے تم ہم پر جادو کردو ہم پھر بھی تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔
۱۳۳۔پس ہم نے ان پر ( لگاتاربلائیں نازل کیں )طوفان، ٹڈیاں، زراعتی آفت مینڈک اور خون جو الگ الگ نشانیاں تھیں ، بھیجیں (لیکن وہ پھر بھی بیدار نہ ہوئے )اور انھوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے ۔


1۔ المیزان، جلد۱۹،صفحہ ۸۶-
2۔سفینة البحار،جلد۲، صفحہ ۱۰۲-
3۔جیسے سورہٴ یٰسین آیت ۱۹، سورہٴ نحل آیت ۴۷، سورہٴ اعراف آیت مورد بحث-
4۔المیزان در ذیل آیہ مورد بحث-
5۔المیزان در ذیل آیت مورد بحث-
مختلف اور پیہم بلاؤں کا نزولبیدار کرنے والی سزائیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma