ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
موسی اور فرعون کی لڑائی کا ایک منظرایک سوال اور اس کا جواب

ان دونوں آیتوں میں بھی انہی عبرتوں کو پیش کیا گیا ہے جو گذشتہ اقوام کے واقعات میں پوشیدہ ہیںلیکن یہاں روئے سخن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے اگرچہ سب کو سنانا مقصود ہے،پہلے ارشاد ہوتا ہے: یہ آبادیاں، شہر اور قومیں ہیں جن کے واقعات اور سرگذشتیں ہم تم سے بیان کرتے ہیں (تِلْکَ الْقُریٰ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اٴَنْبَائِھَا ) ۔(۱)
اس کے بعد قرآن فرماتا ہے: ایسا نہ تھا کہ وہ بغیر کسی اتمام حجت کے ہلاک کردئے گئے بلکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کے پیغمبر ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے، انھوں نے ان کی ہدایت کے لئے اپنی پوری کوششیں صرف کیں (وَلَقَدْ جَائَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ) ۔
لیکن انھوں نے پیغمبروں کی مسلسل تبلیغات اور ہمہ گیر دعوتوں کا اپنے عناد سے مقابلہ کیا اور وہ اس بات پر آمادہ نہ ہوئے کہ انھوں نے جس بات کی سابق میں تکذیب کردی تھی اسے قبول کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں ( فَمَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا کَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ) ۔
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبران الٰہی نے دین الٰہی کی طرف بلانے کے لئے بارہا قیام کیاتھا لیکن وہ اس طرح اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے تھے کہ بہت سے حقائق کے روشن ہوجانے کے باوجود کسی حقیقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے ۔
بعد کے جملے میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا سبب یوں بیان کیا گیا ہے: خدا اس طرح کافروں کے دلوں پر بے ایمانی اور گمراہی کا نقش ثبت کردیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے ( کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللهُ عَلیٰ قُلُوبِ الْکَافِرِین) ۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ غلط راہ پر اپنا قدم اٹھاتے ہیں، تو ان کا انجام یہ ہوتا ہے کہ تکرار اور پیہم غلط کاریوں کی وجہ سے اور ناپاکی اورکفر مسلسل کے سبب ان کے دلوں پر ایک ایسا نقش بن جاتا ہے جیسا کسی سکہ کا انمٹ نقش ہوتا ہے (اتفاقا لفظ ”طبع“ کے لغت میں یہی معنی ہیں یعنی کسی شکل کو کسی چیز پر سکہ کی طرح نقش کردینا) اور یہ درحقیقت از قبیل اثر وخاصیت عمل کے ہے جس کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے کیوں کہ وہی ہے جس نے ”تکرار عمل“ کو یہ خاصیت بخشی ہے کہ وہ ایک ”ملکہ“ کی صورت اختیار کرلے ۔
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہے کہ اس طرح کی گمراہی کوئی اجباری پہلو نہیں رکھتی بلکہ اس کے اسباب پیدا کرنے والے خود افراد بشر ہوتے ہیں، اگر چہ اسباب میں تاثیر اللہ کے حکم سے ہوتی ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ان لوگوں کی اخلاقی کمزوری کے ان دو پہلوؤں کو بیان کیا گی ہے، جو ان کی گمراہی ونابودی کا سبب بن گئے ۔
پہلے قرآن فرماتا ہے:یہ لوگ پیمان شکن افراد تھے” اور ہم نے ان کی اکثریت میں پائیدار عہدوپیمان نہ پایا(وَمَا وَجَدْنَا لِاٴَکْثَرِھِمْ مِنْ عَھْدٍ) ۔
ہوسکتا ہے اس عہدوپیمان سے ”فطری عہدوپیمان“ مراد ہو جو خدا وند کریم نے بمقتضائے آفرینش وفطرت اپنے بندوں سے لیا ہے، کیونکہ جس وقت اللہ نے اپنے بندون کو ہوش، ادراک اور استعداد عطا کی اس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے اس بات کا عہد لیا کہ وہ اپنے کانوں اور آنکھوں کو کھولیں رکھیں، حق کی آواز سنیں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں، یہ وہی بات ہے جو اسی سورہ کے آخر میں آیت ۱۷۲ کی تفسیر میں بہ عنوان ”عالم ذر“ آئے گی اور اس کی شرح ہم انشاء اللہ اپنے مقام پر کریں گے ۔
نیز ممکن ہے اس سے مراد وہ عہدوپیمان ہو جو پیغمبران وقت اپنے دور کے لوگوں سے لیا کرتے تھے کیوں کہ بہت سے لوگ پہلے تو قبول کرلیتے تھے بعد ازاں اس سے پھر جاتے تھے ۔
یا یہ کہ اس سے تمام عہدوں کی طرف اشارہ مقصود ہے چاہے وہ ”فطری“ ہوں یا ”تشریعی“۔
بہرحال ان کی پیمان شکنی کی عادت ایک بہت بری عادت تھی جو درحقیقت پیغمبروں کی نافرمانی، کفر نفاق کی راہ پر چلنے پر اصرار، پھر اس کے نتائج بد میں مبتلا ہونے کے اسباب وعلل میںسے ایک بڑا سبب تھی ۔
بعد ازاں ایک اور سبب کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے: ہم نے ان میں سے اکثر کو اپنے فرمان کی اطاعت سے خارج پایا( وَإِنْ وَجَدْنَا اٴَکْثَرَھُمْ لَفَاسِقِین) ۔
مقصد یہ ہے کہ ان میں سرکشی، قانون شکنی، نظام آفرینش سے باہر نکلنے اور قوانین الٰہی کو توڑنے کا جو جذبہ پایا جاتا تھا، یہ ان کے کفر وبے ایمانی میں ثابت قدم رہنے کا ایک اور سبب تھا ۔
اس بات کی طرف توجہ رہنا توجہ رہنا چاہئے کہ ” اکثرھم“ میں جو ضمیر ہے وہ تمام پچھلی اقوام کی جانب پلٹ رہی ہے، اور یہ جو کہا ہے کہ ان میں سے اکثر عہد شکن اور فاسد تھے وہ اقلیتوں کی رعایت سے کہا گیا جنھوں نے انبیائے سابقین کی تصدیق کی تھی اور وہ ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ااکر تک ان کے وفادار رہے تھے، اگرچہ ایسے لوگ بعض اوقات اتنے محدود اورکم ہوتے تھے کہ وہ ایک خاندان سے تجاوز نہ کرتے تھے، لیکن روح حق طلبی جو پورے قرآن حکمران نظر آتی ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ ایک خاندان یا معدودے چند افراد کے حق کا بھی پاس ولحاظ کیا جائے اور ان تمام افراد کو منحرف ، گمراہ اور پیمان شکن نہ بتایاجائے، یہ ایک پر کشش بات جو قرآن کریم میں جابجا نظر آتی ہے ۔

 

۱۰۳ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُوسیٰ بِآیَاتِنَا إِلیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ فَظَلَمُوا بِھَا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ۔
۱۰۴ وَقَالَ مُوسیٰ یَافِرْعَوْنُ إِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔
۱۰۵ حَقِیقٌ عَلیٰ اٴَنْ لَااٴَقُولَ عَلَی اللهِ إِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ فَاٴَرْسِلْ مَعِی بَنِی إِسْرَائِیلَ۔
۱۰۶قَالَ إِنْ کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَاٴْتِ بِھَا إِنْ کُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ۔
۱۰۷ فَاٴَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُبِینٌ ۔
۱۰۸ وَنَزَعَ یَدَہُ فَإِذَا ھِیَ بَیْضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ ۔
ترجمہ
۱۰۳۔اس کے بعد ان کے پیچھے ( یعنی گذشتہ انبیاء کے بعد) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے گروہ کی طرف بھیجا، لیکن ان لوگوں نے (ان نشانیوں کو قبول نہ کرکے) ان کے ساتھ ظلم کیا، دیکھو مفسدوں کا انجام کیا ہوا ؟۔
۱۰۴۔اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں سارے جہانوں کا فرستادہ ہوں ۔
۱۰۵۔میرے لئے یہی مناسب ہے کہ میں خدا کی طرف سوائے حق کے کسی بات کو نسبت نہ دوں، میں تمھارے لئے تمھارے خدا کی طرف سے روشن دلیل لایا ہوں، لہٰذا تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو ۔
۱۰۶۔فروعون نے کہا کہ اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو اس کو پیش کرو اگر تم سچے ہو ۔
۱۰۷۔اس پر انھوں نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک نمایا اژدہا بن گیا ۔
۱۰۸۔اور اپنے ہاتھ کو (گریبان سے) باہر نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے لئے سفید(اور درخشاں)ہوگیا ۔


 
۱۔ ”نقص“ کی اصل ”قص“ ہے جس کی شرح اسی سورہ کی آیت ۷ کے ذیل میں بیان ہوچکی ہے ۔
 
موسی اور فرعون کی لڑائی کا ایک منظرایک سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma