تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
قیامت کے روز مشرکوں کو پتہ چلے گا چند اہم نکات

پہلی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کفار کی محرومیت اور ان کا انجامِ بَد، خود انہی کی کوتاہیوں اور ان کی فلطیوں کا نتیجہ ہے، ورنہ خداوندکریم کی جانب سے ان کی ہدایت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، اس بناپر خدا فرماتا ہے: ہم نے ان کی ہدایت کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، ان کے لئے ایک ایسی کتاب بھیجی جس کے تمام اسرار و رموز کی پوری آگاہی کے ساتھ تشریح کردی (وَلَقَدْ جِئْنَاھُمْ بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاہُ عَلیٰ عِلْمٍ) ۔
ایسی کتاب جو ”سرمایہ ہدایت اور جوجب رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے، اگرچہ ہٹ دھرم اور ضدی انسان اس سے بے بہرہ رہ گئے

 (ھُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ) ۔
اس کے بعد کی آیت میں تباہ کاروں اور بے راہ رووں کی ہدایت الٰہی کے بارے میں غلط طرزِفکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: گویا ان لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ خدا کے دعووں اور تہدیدوں کو اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں (جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں) تاکہ اس وقت ایمان قبول کریں (ھَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ تَاٴْوِیلَہُ) ۔
لیکن یہ کیسا غلط انتظار اور کیسی بے جا توقع ہے کیونکہ جب وہ وقت آپہنچے گا کہ وہ اپنی آنکھوں سے ان الٰہی وعدوںکے نتیجوں کو دیکھیں گے تو فرصت کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوگا اور پلٹنے کا راستہ بند ہوچکا ہوگا، یہ وہ وقت ہوگا کہوہ لوگ جنھوں نے کتاب خدا اور آسمانی قوانین کو دُنیا میں پس پشت ڈال دیا تھا اعتراف کریں گے ک خدا کے تمام فرستادہ بندے (رسول) حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور ان کی تمام باتیں بھی برحق تھیں

(یَوْمَ یَاٴْتِی تَاٴْوِیلُہُ یَقُولُ الَّذِینَ نَسُوہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَائَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ) ۔
لیکن اس وقت وہ خوف اور اضطراب کے دریا میں ڈوب جائیں گے اور اپنی نجات کی فکر میں پڑھائیں گے اور کہیں گے: آیا کچھ شفاعت کرنے والے ہیں جو ہماری شفاعت کریں (فَھَلْ لَنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَیَشْفَعُوا لَنَا) ۔
یا اگر ہماری قسمت میں شفیع (بخشوانے والے ) نہیں اور اصولی طور سے ہم قابل شفاعت نہیں ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دنیا میں دوبارہ پلٹ دیئے جائیں اور جو اعمال ہم بجالائے ہیں ان سے مختلف دوسرے اعمال بجالائیں اور حق وحقیقت کے سامنے سرِتسلیم خم کرلیں

(اٴَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ) ۔
لیکن افسوس کہ یہ بیداری دیر میں اور بعد از وقت ہوگی ، نہ تواس وقت کوئی لوٹ آنے کی راہ ہوگی اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنی ہستی کا سرمایہ اپنے ہاتھ کھودیا ہوگا اور وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوںگے، ایسا گھاٹا جو ان کے وجود کو ہر طرف سے گھیرلے گا (قَدْ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ) ۔
اس وقت انھیں پتہ چلے گا کہ بُت اور ان کے خود ساختہ معبود اس عالم میں ان کے کچھ کام نہ آئیں گے اور درحقیقت ”سب کے سب ان کی نظروں سے گم ہوجائیں گے“ (وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ) ۔
گویا آخر آیت کے دوجملے ان کی درخواست کا جواب ہے، یعنی اگر وہ شفاعت چاہتے ہیں تو انہی بتوں کے دامن کو تھامیں جن کے آگے دنیا سجدہ کرتے تھے
یہ اس صورت میں دُنیا میں پلٹ سکتے تھے کہ ان کے سرمایہ وجود ہو لیکن اسے تو انھوں نے دنیا میں تلف کردیا ۔
اس آیت سے پہلے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں ازاد وخود مختار ہے ورنہ دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنّا نہ کرتا تاکہ اپنے اعمالِ بَد کی تلافی اور تدارک کرے ۔
دوسری یہ بات معلوم ہوئی کہ جہانِ آخرت جائے عمل اور فضیلت حاصل کرنے کا مقام نہیں ہے ۔

۵۴ إِنَّ رَبَّکُمْ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ فِی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِاٴَمْرِہِ اٴَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاٴَمْرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ-
ترجمہ
۵۴۔ تمھارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو جو کچھ (چھ دروں)میں پیدا کیا، اس کے بعد وہ جہان کے انتظام کی طرف متوجہ ہوا، وہ رات (کے تاریک پردہ) سے دن کو ڈھانپ لیتا ہے اور رات دن کے پیچھے پیچھے رواں دواں ہے اور اس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا اس حال میں کہ یہ سب اس کے تابع فرمان ہیں، آگاہ ہوجاؤکہ (جہان کا) پیدا کرنا اور اس کا انتظام کرنا الله کے لئے اور اسی کے حکم سے ہے، برکت والا (اور لازوال) ہے، وہ خدا جو اسارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔

قیامت کے روز مشرکوں کو پتہ چلے گا چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma