سکون کامل وسعادتِ جاودانی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ارث کیوں کہا گیا؟وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا

جیسا کہ ہم نے سابقاً بھی اشارہ کیا ہے روش قرآنی یہ ہے کہ کسی مطلب کی تاکید کے لئے وہ مختلف گروہوں اور ان کے انجاموں کا برابر سے ذکر کرتا ہے اور ان کا آپس میں موازنہ کرکے ان کی وضعیت وحیثیت کی تشریح کرتا ہے، گذشتہ آیات میں منکرینِ آیات خدا متکبّر وظالم افراد کے انجام کو دکھایا گیا تھا، اب ان آیات میں باایمان لوگوں کے تابناک انجام کی اس طرح شرح کرتا ہے: اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہ اہلِ بہشت ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے (وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ---اٴُوْلٰئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ ھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ)
لیکن اس جملہ کے درمیان میں (یعنی مبتداء وخبر کے درمیان) ایک جملہ معترضہ(۱) آیا ہے، جو فی الحقیقت بہت سے سوالات کا جواب ہے اور وہ یہ ہے: ہم کسی شخص پر اس کی قوّت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتے(لَانُکَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ باایمان اور صالح افراد کی صف میں داخل ہونا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے، سوائے گنے چُنے افراد کے اور کوئی ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ پروردگار عالم کی طرف کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریاں (احکام) افراد کی قوت وصلاحیّت کے لحاظ سے ہوتی ہیں اور اس طرح وہ عالم وجاہل، چھوٹے بڑے اور ہر عمر کے انسانوں کے لئے راستہ کھول دیتا ہے اور ہر ایک کو صالحین کی سف میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ خدا کو ہر شخص سے اتنی توقع ہے جتنی اس کی ذہنی وجسمانی صلاحیت ہے ۔
یہ آیت کی دیگر آیات کے بیان کرتی ہے کہ نجات وسعادت ابدی کا ذریعہ صرف ایمان وعملِ صالح ہے، اسی طرح عیسائیوں کے اس خرافاتی عقیدہ کی رد ہوجاتی ہے جس کے مطابق آج کل کے مسیحی لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قربانی بشر کے تمام گناہوں کے مقابلے میں وسیلہٴ نجات ہے، آیہٴ مذکورہ اس عقیدہ پر خط نتسیخ کھینچتی ہے ۔ قرآن کریم نے جو باربار ایمان وعمل صالح پر زور دیا ہے وہ اسی قسم کے عقیدوں کو باطل کرنے لئے ہے ۔
اس کے بعد کی آیت میں ایک انتہائی اہم نعمت جو الله جنت والوں کو عطا کرے گا اور وہ نعمت ان کی روح کے آرام کا باعث ہوگی اسے اس طرح بیان فرمایا ہے: ان کے دلوں سے ہم ہر طرح کے کینے، حسد اور دشمنی کو دُور کردیں گے (وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِھِمْ مِنْ غِلٍّ) ۔
”غل“ کے اصلی معنی یہ ہیں کہ کوئی چیز کسی چیز میں مخفی طور سے اُتر جائے ۔ اسی وجہ سے حسد، کینہ اور دشمنی کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ جذبے چپکے سے انسان میں نفوذ کرجاتے ہیں اور کبھی رشوت کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی کسی خیانت کے لئے خفیہ طور سے دی جاتی ہے(2)
حقیقت یہ ہے کہ دُنیا کی زندگی میں انسان کی ناراضی وپریشانی کا ایک بڑا سبب جس کی وجہ سے عالمی جنگیں بھی پھیل چکی ہیں، جانی ومالی نقصانات مرتب ہوتے ہیں اور انسانی سکون رخصت ہوگیا ہے، وہ یہی کینہ وحسد ہے ۔
ہم بہت سے ایسے افراد کو جانتے ہیں جن کی اپنی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دوسروں سے حسد ان کے لئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے، یہ کینہ پروری ہے جو اُن کی راحت وآرام کی زندگی کو تارج کردیتی ہے اور تھکادینے والی بیکار کردو کاوش میں مبتلا کردیتی ہے ۔
اہلِ بہشت اس طرح کی بدبختیوں سے بالکل آسودہ ہوں گے، ان کے دلوں میں نہ کینہ ہوگا نہ حسد ہوگا اور نہ ان کے بُرے نتائج ہوں گے، وہ لوگ آپس میں نہای دوستی اور مہر ومحبت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے اور سب کے سب اپنی حالت پر راضی ہوں گے، حتّیٰ کہ جن کا مرتبہ نیچا ہوگا وہ بھی اہل درجہ والوں پر حسد نہیں کریں گے، اس طرح ان کی باہم زندگی کی سب سے بڑی مشکل حل ہوجائے گی ۔
بعض مفسرین نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس وقت اہلِ بہشت، بہشت کی طرف روانہ ہوں گے تو جنت کے دروازہ پر ایک درخت دیکھیں گے جس کے نیچے سے دو چشمے جاری ہوں گے، اہلِ بہشت ان میں سے جب ایک چشمے سے پانی پئیں گے تو ان کے دلوں سے ہر قسم کے کینے اور حسد دُھل جائیں گے، یہ وہی ”شراب طہور“ ہے جس کا ذکر سورہٴ دہر میں کیا گیا ہے، اس کے بعد دوسرے چشمے میں جب وہ نہائیں گے تو جسم کے تمام عیوب اور تھکاوٹ سُستی وغیرہ زائل ہوجائے گی اس کے بدلے ان کے بدن میں تازگی اور خوبصورتی آجائے گی اس طرح کہ اس کے بعد پھر وہ کبھی نہ بوڑھے ہوں گے نہ متغیّر(3)
اس حدیث کی سند اگرچہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم یا آئمہ(علیه السلام) تک نہیں پہنچی ہے کیونکہ یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جن سے ”سدی“ یا ان کی طرح دوسرے افراد مطلع ہوں، بہرحال اس میں اس بات کی طرف لطیف اشارہ موجودہ ہے کہ اہلِ بہشت اندر اور باہر دونوں طرف سے دُھل جانے کے بعد جنّت میں داخل ہوں گےٹ خدائے تعالیٰ انھیں حُسنِ ظاہری عطا فرمائے گا اور جمال باطنی بھی، اُس عالم میں وہ کینہ اور حسد سے بچے رہیں گے ۔
کیا کہنا ان لوگوں کا جو اس دنیا میں بھی اپنے لئے جنت بنالیں اور اپنے سینوں کو کینہ اور حسد سے پاک کرلیں اور اس کے نتیجہ میں جو تکلیفیں پیدا ہوتی ہیں ان سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچالیں ۔
قرآن کریم اس روحانی نعمت کات ذکر کرنے کے بعد، ان کی مادّی اور جسمانی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے: ان کے محلوں کے نیچے پانی کی نہریں جاری ہوں گی (تَجْرِی مِنْ تَحْتِھِمْ الْاٴَنْھَارُ) ۔
اس کے بعد اہلِ بہشت کی پوری رضا مندی اور کامل خوشنودی کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: جبکہ وہ یہ کہیں گے، ساری تعریفیں اور شکرانے اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جس نے ان تمام نعمتوں کی طرف ہماری ہدایت کی، اگر وہ ہماری ہدایت نہ کرتا ہو تم ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے، یہ اس کی توفیق تھی جس نے ہمارا ہاتھ تھام کی زندگی کی سخت گذرگاہوں میں سے ہمیں گزاردیا اور سعادت کی منزل تک پہنچادیا (وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ھَدَانَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَااٴَنْ ھَدَانَا اللهُ) ۔
بے شک ہمارے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول سچ کہتے تھے اور ہم اب اپنی آنکھوں سے ان کی سچائی کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں(لَقَدْجَائَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ) ۔
اسی اثناء میں خدا کی طرف سے ایک ندا بلند ہوگی جو ان کے دل وجان میں سما جائے گی اوروہ اسے سُن کر خوش ہوجائیں اور وہ ندا یہ ہوگی: یہ جنت تم نے اپنے پاک اور نیک اعمال کے بدلے میراث میں پائی ہے (وَنُودُوا اٴَنْ تِلْکُمْ الْجَنَّةُ اٴُورِثْتُمُوھَا بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ) ۔
ہم ایک مرتبہ پھر اس حقیقت سے دوچار ہوتے ہیں کہ نجاتِ ابدی عمل صالح کے سایہ میں ہے، نہ کہ بے بنیاد توہمات وعزعومات کی بناپر۔
”ارث“ کے معنی یہ ہیں کہ کوئی مال وثروت ایک شخص سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے بغیر اس کے کہ ان کے درمیان کوئی قرارداد یا معاہدہ طے پائے (یعنی ایک طبیعی طریقے سے، نہ کہ خریدوفروخت وغیرہ کے ذریعے سے) میت سے اس کے اعزاء کو جو مال پہنچتا ہے اسے بھی ”ارث“ اسی وجہ سے کہاجاتا ہے ۔

 


۱۔ یہ اشتباہ نہ ہو کہ ”جملہ معترضہ“ کے یہ معنی ہیں کہ وہ مطلب سے بالکل بے ربط بلکہ وہ بھی مطلب سے ایک طرح کا ربط رکھتا ہے، اگرچہ جملہ بندی کے رُو سے دوسری عبارت کے درمیان اسے جگہ دی جاتی ہے، بنابریں ”جملہ معترضہ“ صرف جملہ بندی کے لحاظ سے الگ دکھائی دیتا ہے نہ کہ معنی کے لحاظ سے ۔
2۔ مزیدتوضیح کے لئے تفسیر نمونہ جلد سوم، ص۱۱۷ ملاحظہ ہو (اردو ترجمہ)
3۔ تفسیر المنار، ج۸، ص۴۲۱-
 
ارث کیوں کہا گیا؟وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma