اردو
”وسوس الہ“ (کہ جس میں کلمہ لام بھی استعمال ہوا ہے جو عام طور سے فائدے اور نفع کے لئے آتا ہے ) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے وسوسہ ڈالنے میں آدم کی خیر خواہی اور دوستی کا روپ بھرا تھا، جبکہ ”وسوس الیہ“ سے یہ معنی برآمد نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنی صرف کسی کے دل میں مخفی طور سے اثر ڈالنے کے ہیں ۔ لیکن ہر حال میں، یہ تصوّر نہ ہو کہ شیطانی وسوسے چاہے وہ جتنے بھی قوی اورمضبوط کیوں نہ ہوں انسان سے اس کی خود مختاری اور ارادہ سلب کرلیتے ہیں، بلکہ اس کے بعد بھی انسان اپنی عقل اور ایمان کی طاقت سے اس کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھنا چاہیے کہ شیطانی وسوسے کو بُرے کاموں پر مجبور نہیں کر دیتے بلکہ اختیار و ارادہ کی قوت اپنے حال پر باقی رہتی ہے، تا ہم ان کا مقابلہ کرنے کے لئے پامردی و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس میں کبھی بڑے رنج و الم کا بھی سامنا ہوتا ہے لیکن ان تمام حالات میں اس طرح کے وسوسے کسی کی ذمہ داری اور مسئولیت ختم نہیں کردیتے، جس طرح آدم سے نہیں کی جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ان تمام تحریکوں اور ترغیبوں کے باوجود جو آدم کے بہکانے کے لئے شیطان نے انجام دیں، خدا تعالیٰ نے آدم کو ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسی بناء پر جیسا کہ آگے آئے گا انھیں اس کی پاداش بھی دی ۔