یتیموں کے مال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
شان نزولطبقاتی تقسیم اور گروہ بندی کے خلاف جہاد

۲۔وَ آتُوا الْیَتامی اٴَمْوالَہُمْ وَ لا تَتَبَدَّلُوا الْخَبیثَ بِالطَّیِّبِ وَ لا تَاٴْکُلُوا اٴَمْوالَہُمْ إِلی اٴَمْوالِکُمْ إِنَّہُ کانَ حُوباً کَبیراً ۔
ترجمہ
یتیموں کے مال ( جب وہ بالغ ہو جائیں ) انہیں دے دو اور ( اپنے ) برے مال ( یتیموں کے ) اچھے مال سے تبدیل نہ کرو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر یا تبدیل کر کے نہ کھاوٴ کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔

شان نزول

بنی غطفان قبیلہ کے ایک شخص کا بھائی بہت دولت مند تھا ۔ وہ دنیا سے چل بسا تو اس کے بھائی نے اپنے یتیم بھتیجوں کی سرپرستی کے نام اس کے مال میں تصرف کیا ۔ جس وقت اس کا بھتیجا بالغ ہو گیا تو اس نے اس یتیم کا حق دینے سے انکار کر دیا ۔ جب یہ مقدمہ حضرت رسول کریم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور اس غاصب نے آیت سننے کے بعد توبہ کر لی اور مال اس کے مالک کو واپس کرتے ہوئے کہا : اعوذ با للہ من الحوب الکبیر ۔
میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں بڑے گناہ میں آلودہ نہ ہو جاوٴں۔
تفسیر
یتیموں کے مال میں خیانت حرام ہے ۔ ہر معاشرے میں نئے نئے حوادچ کی وجہ سے باپ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے رہ جاتے ہیں ۔
البتہ برے معاشرے جو داخلی جنگ میں پھنسے رہتے ہیں ۔ جیسے زمانہ جاہلیت کا عرب معاشرہ تھا ان میں یتیم بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ، جنہیں حکومت اسلامی اور ہر ایک مسلمان کی حمایت اور سر پرستی میں رہنا چاہیے ۔
آیت مذکورہ بالا میں یتیموں کے مال کے بارے میں تین اہم حکم دئے گئے ہیں ۔
۱۔و اتواالیتامیٰ اموالھم۔ اس جملہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب یتیم بالغ ہو جائیں تو ان کے مال ان کے سپرد کر دئے جائیں ۔ یعنی ان کے اموال میں تمہارا تصرف صرف امین ، ناظر اور وکیل کی حیثیت سے ہے نہ کہ مالک کے طور پر ۔
۲۔ ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب۔اورکبھی ان کے اعلیٰ اور پاکیزہ مال کو اپنے گھٹیا اور نا پاک مال سے تبدیل نہ کرو ۔ یہ حکم تو صل میں ظلم و ستم سے بچنے کے لئے ہے کیونکہ بعض اوقات یتیم کے سر پرست اس بہانے سے کہ مال کی تبدیلی یتیم کے فائدہ میں ہے یا اس میں کوئی فرق نہیں پڑرہا ہے تو صحیح ہو جائے گا یہ کہہ کر یتیموں کے اچھے اور خالص مال لے لیتے اور اپنے برے اور نا پسند یدہ مال کی جگہ رکھ دیتے تھے۔
۳۔ولا تاکلوا اموالھم الیٰ اموالکم۔ اور ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ نہ کھاوٴ ۔ یعنی یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ خلط ملط نہ کرو کہیں اس طریقہ سے مقصد سب کو اپنی ملک بنانا ہو یا یہ کہ اپنے برے مال کو ان کے اچھے مال میں نہ ملاوٴکہ جس کا نتیجہ یتیموں کے حق کی پائمالی ہو ۔
جملہ بالا میں لفظ ”الیٰ “ در اصل ”مع “ کے معنی میں ہے ۔
انہ کان حوبا کبیرا ۔
آیت کے آخر میں اس امر کی اہمیت ثابت کرنے کے لئے تاکیداً فرماتا ہے کہ یتیموں کے مال میں اس قسم کی ہیرا پھیری بہت بڑا گناہ ہے ۔ راغب کتاب مفردات میں کہتا ہے : در اصل ”الحوبة “ایسی ضرورت کے معنی میں ہے جو انسان کو گناہ کی طرف کھینچتی ہے ۔
چونکہ سر پرستوں کے ظلم و ستم یتیموں کے مال پر زیادہ تر ضرورت و احتیاج کی وجہ سے یا اس بہانے سے ہوتے ہیں ،
اس لئے آیت مذکورہ میں لفظ ” اثم“ (گناہ) کی بجائے لفظ ”حوب “ استعمال کیا گیا ہے تا کہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو جائے ۔
قرآن کریم کی مختلف روایا ت کا مطالعی بتاتا ہے کہ اس ام ر کی بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے ۔ چنانچہ وہ یتیموں کے مال میں خیانت کرنے والو کو بڑی شدت کے ساتھ سزا کی دھمکیاں دیتا ہے ۔وہ قطعی ، واضح اور محکم عبارتوں کے ساتھ سرپرستوں کو یتیموں کے اموال کی کڑی دیکھ بھال کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ جس کی تفصیل چند آیتوں کے بعد اسی سورت میں اور سورہٴ انعام کی آیت ۱۵۲/ اور سورہٴ اسراء کی آیت ۳۴/ کے ذیل میں آئے گی ۔
ان آیتوں کے سخت لب و لہجہ نے مسلمانوں کے دلوں پر اتنا اثر کیا کہ وہ اس سے بھی ڈرنے لگے کہ اپنے اور یتیموں کے لئے مشترکہ کھانا پکائیں ۔اس وجہ سے ان کا کھانا اپنے اور اپنے بچوں سے الگ پکواتے تھے اور یہ امر دونوں کی تکلیف کا سبب بنتا تھا ۔ اس لئے سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۰ میں انہیں یہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر ان کا مقصد اپنے مال یا کھانے کے ساتھ یتیموں کے مال اور کھانے کو مخلوط کرنے سے خیر خواہی اور اصلاح ہو تو اس صورت میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔ مزید توضیح کے لئے سورہٴ بقرہ کی اسی آیت کے ذیل میں تفسیر نمونہ کی دوسری جلد ملاحظہ فرمائیے۔

 

شان نزولطبقاتی تقسیم اور گروہ بندی کے خلاف جہاد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma