ججن پر بھاری بوجھ ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک سوال اور اس کا جواب پیغمبر کے لئے تسلی

ججن پر بھاری بوجھ ہے

وَ لا یَحْسَبَنَّ الَّذینَ کَفَرُوا اٴَنَّما نُمْلی لَہُمْ ۱
گذشتہ آیت میں دشمنان حق کی بہت زیادہ سعی و کاوش کے ضمن میں رسول اکرم کو تسلی دی گئی ہے اور ان کی دل جوئی کی گئی ہے ۔اب اس آیت میں روئے سخن دشمنوں کی طرف ہے ۔ اس میں انہیں در پیش بدبختی کے بارے میں گفتگو ہے ۔ یہ آیت در حقیقت واقعہ احد اور اس کے بعد کے واقعات سے مربوط مباحث کی تکمیل کرتی ہے کیونکہ ایک جگہ روئے سخن نبی کریم کی طرف تھا ، دوسرے مقام پر مومنین کی طرف اور اب اس جگہ مشرکین مخاطب ہیں ۔
مندرجہ بالا آیت مشرکین کو تنبیہ کرتی ہے اور انہیں ڈراتی ہے کہ وہ خدا کے عطا کردہ وسائل کبھی کبھار مل جانے والی کامیابیوں اور آزادیٴ عمل کو اس بات کی دلیل قرار نہ دیں کہ وہ صالح افرادہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں صحیح یا یہ ان کے لئے خوشنودی ٴ خدا کی نشانی ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ گناہوں سے کم آلودہ گناہ کاروں کو جرس بیداری کے ذریعہ متوجہ کرتا ہے ، کبھی ان اعمال کے عکس العمل کے ذریعہ بیدار کرتا ہے ، اور کبھی ان سے سرزد ہونے والے اعمال کی مناسب سزاوٴں کے ذریعہ بیدار کرتا ہے اور اس طرح انہیں راہ حق کی طرف واپس لاتا ہے ۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ابھی ہدایت کی اہلیت رکھتے ہیں اور لطف الہی کے حامل ہیں ۔ حقیقت دین ، مجازات عمل اور تکالیف و زحمات ایسے لوگوں کے لئے نعمت شمار ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون ۔
خشکی پر اور دریاوٴں میں تباہی و طغیانی لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے تا کہ خدا ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھائے شاید اس طرح یہ لوگ پلٹ جائیں ۔ (روم ۔ ۴۱ )
لیکن وہ لوگ جو گناہ و عصیان میں غرق ہو جائیں اور طغیان ، سر کشی اور نا فرمانی کے آخری مرحلے تک جا پہنچیں ، خدا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔ اصطلاح میں یو ں کہا جاتا ہے کہ انہیں موقع دیتا ہے کہ ان کی کمر بار گناہ سے بوجھل ہو جائے اور وہ زیادہ سے زیادہ سزا کے مستحق ہو جائیں ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پیچھے کے تمام پل تباہ کر دیے ہیں ، واپس لوٹنے کے لئے ان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہا ، حیا و شرم کا پردہ چاک کر چکے ہیں اور ہدایت خدا وندی کی اہلیت بالکل کھو چکے ہیں ۔
مندرجہ بالا آیت اس مفہوم کی تاکید کرتے ہوئے کہتی ہے: جو کافر ہو گئے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے جو انہیں مہلت دی ہے وہ ان کے فائدے میں ہے بلکہ انہیں مہلت تو اس لئے دی جاتی ہے تا کہ وہ گناہ و سرکشی میں اضافہ کریں اور ان کے لئے رسوا کر دینے والا عذاب ہے ۔
دنیائے اسلام کی شیر دل خاتون حضرت زینب کبریٰ علیھا السلام نے شام کی جابر و خود سر حکومت کے دربار میں سرکش یزید کے سامنے اپنے خطبے میں اسی آیت سے استدلال پیش فرمایا کیونکہ یزید نا قابل بر گشت گنہ گار کا واضح مصداق تھا ۔ خطبے میں آپ (علیه السلام) نے فرمایا : تو آج خوش ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ تو نے وسیع وعریض دنیا ہم پر تنگ کر رکھی ہے اور آسمان کے کناروں کو ہم پر بند کر دیا ہے اور قیدیوں کی طرح ہمیں دیار بدیارپھرا رہا ہے اس لئے یہ تیری قدرت و طاقت کی نشانی ہے اور یاخدا کے یہاں تیری قدر و منزلت ہے اور ہمارے لئے اسکے ہاں کوئی راہ نہیں ۔یہ سب تیرا اشتباہ ہے ۔ یہ موقع اور آزادی خدا نے تجھے اس لئے دی ہے تا کہ تیری پشت بار گناہ سے بھاری ہو جائے اور درد ناک عذاب تیرے انتظار میں ہے ۔ خدا کی قسم اگر حوادث زمانہ مجھے ایک قیدی عورت کی شکل میں تیرے پائے تخت میں لے آئے ہیں تو اس سے یہ خیال نہ کر کہ میری نظر تمہاری کوئی تھوڑی سی بھی حیثیت یا قدرو وقعت ہے ۔ میں تجھے چھوٹا ، پست ،ہر لحاظ سے حقیر اور ملامت ، سر زنش اور پھٹکار کا مستحق سمجھتی ہوں ۔ جو کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے کر لے ۔ خدا کی قسم تو ہمارے نور کو خاموش نہیں کر سکتا ۔ تو وحی جاوداں اور ہمارے آئین حق کو محو نہیں کر سکتا ۔ تو نا بود ہو جائے گا اور یہ تابناک ستارہ یونہی چمکتا رہے گا ۔

ایک سوال اور اس کا جواب پیغمبر کے لئے تسلی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma