جنگ احد کے نتائج

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
پرورش وتربیت کا میدان جہاں گردی

وَ لا تَہِنُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ اٴَنْتُمُ الْاٴَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ۔
” تہنو“ ”وہن “
کے مادے سے لیا گیا ہے ۔ وہن لغت میں ہر قسم کی سستی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔خواہ اس کا تعلق جسم سے ہویا ارادہ ایمان سے ۔ اس آیت میں پہلے تو مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک جنگ میں شکست کی وجہ سے تم میں سستی اور کمزوری پیدا ہو اور تم محزون ہو کر آخری کامیابی سے مایوس ہو جاوٴ ۔ کیونکہ بیدار مغز افراد جس طرح کا میابیوں سے استفادہ کرتے ہیں اسی طرح شکست سے بھی درس حاصل کرتے ہیں اور اس کے سائے میں کمزوری کے نقاط اور شکست کی وجوہات تلاش کرتے ہیں اور انہیں دور کر کے آخری کامیابی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں
”اٴَنْتُمُ الْاٴَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ۔“
(تم ہی بر ترہو اگر تم میں ایمان ہو ) ایک بہت ہی پر معنی جملہ ہے ۔ یعنی تمہاری شکست در حقیقت روح ایمان اور اس کے آثار کھو بیٹھنے کی وجہ تھی ۔ اگر تم فرمان خدا اور رسول کو پائے نا فرمانی سے نہ روندتے تو اس قسم کی مصیبت میں گرفتار نہ ہوتے ۔ تا ہم تمہیں رنج و ملال نہیں ہونا چاہئے اگر راہ ایمان پر ثابت قدم رہے تو آخری فتحہ تمہاری ہوگی اور ایک میدان میں شکست سے دوچار ہو نے کا معنی حتمی شکست نہیں ہے ۔
إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ۔
”قرح “کا معنی ایسا زخم ہے جو بدن میں کسی خارجی عامل کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ اس آیت میں ایک دوسرا درس آخری کامیابی تک پہنچنے کے لئے مسلمانوں کو دیا جا رہا ہے کہ تمہیں دشمن سے کمتر تو نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ سخت سنگین شکست سے دوچار ہوئے تھے ۔ ان کے ستر آدمیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بہت سے لوگ زخمی اور قید ہوئے تھے ۔با ایں ہمہ وہ ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھے نہیں رہے بلکہ میدان احد میں تمہاری غفلت کی وجہ سے انہوں نے اپنی شکست کی تلافی کی ہے ۔ اب اگر تم اس میدان میں شکست کھا گئے ہو تو تم بھی نقصان کی تلافی کئے بغیر نہ جاوٴ اسی لئے ارشاد ہوا ہے کہ اگر تمہیں زخم لگے ہیں ۔ بنا بر ایں تمہاری سستی اور غم اندوہ کی وجہ کیا ہے ۔ بعض مفسرین اس آیت میں زخموں سے مراد کفار کے وہ زخم لیتے ہیں جو انہیں جنگ احد میں لگے تھے ۔ لیکن پہلے تو یہ زخم مسلمانوں کے زخموں جیسے نہیں تھے ۔ لہٰذا یہ لفظ مثلہ کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے اور دوسرا یہ کہ یہ بعد کے جملہ کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتے جس کی تفسیر عنقریب آجائے گی۔
وَ تِلْکَ الْاٴَیَّامُ نُداوِلُہا بَیْنَ النَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللَّہُ الَّذینَ آمَنُوا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَداء َ
اس حصہ میں پہلے ایک سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ انسانی زندگی میں تلخ و شیریں حوادث وٴتے رہتے ہیں کہ جن میں سے کسی کے لئے پائداری نہیں ہے ۔ فتوحات و نا کامیاں ، قدرتیںاور نا توانیاں سب کی اطاعت بدلتی رہتی ہے ۔لہٰذا ایک میدان کی شکست اور اس کے آثار کو پائدار نہیں سمجھنا چاہیےےبلکہ شکست کے عوامل اور اسباب کا مطالعہ کرکے ان میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں سے استفادہ کیا جائے اور اسے کامیابی سے بدلا جائے دنیا میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔ اور زندگی اپنے اصول کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے اور خدا ان ایام کو لوگوں کے درمیان گردش دیتا رہتا ہے تا کہ ان حواث و واقعات میں سے سنت تکامل آشکار ہو جائے ۔ ۱ #
بعد از اں ان ناگوار واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ”ولیعم اللہ الذین اٰمنوا “ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ صاحبان ایمان افراد ایمان کے دعویداروں سے الگ ہو جائیں ۔ دوسرے لفظوں میں جب تک درد ناک واقعات کسی قوم میں واقع ہوں تو ان کی صفیں ایک دوسرے سے مشخص نہیں ہوں گی کیونکہ کامیابیاں لوگوں کو غفلت کی نیند سلا دیتی ہےں جبکہ شکستیں تیار افراد کے لئے بیدار کرنے والی ہوتی ہیں اور ان کی قدرو قیمت کی نشاندہی کرتی ہےں ”ویتخذ منکم شہداء “ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اس شکست کے نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ تم راہ اسلام میں شہادتیں اور قربانیاں پیش کرو اور جان لو کہ یہ پاک دین وآئین تمہیں مفت میں نہیں مل گیا مبادا آئندہ اسے تھوڑی سی قیمت پر دے بیٹھو۔جو قوم مقدس مقاصد اور اہداف کے لئے قربانی نہ دے ،وہ انہیں کم تر سمجھتی ہے لیکن جب ان کے لئے قربانیاں دے آئندہ نسلیں بھی انہیں عظمت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ لفظ شہدا سے مراد یہاں گواہ ہوں یعنی خدا چاہتا ہے کہ اس حادثہ سے تم میں سے کچھ گواہ لے لے کہ کس طرح نا فرمانیوں کا انجام شکست ہوا کرتا ہے اور آئندہ جب کبھی انہیں اس قسم کے حادثوں کا سامنا ہو یہ گواہ ان کے لئے معلم کا کردار ادا کریں گے۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ اس لئے ان کی حمایت بھی نہیں کریگا ۔

 


۱ # ”ایام “ ”یوم “ کی جمع ہے ۔” یوم “ کا معنی ہے” دن “۔ لوگوں کی کامیابی کے زمانے کو بھی ایام کہا جاتا ہے ۔ ”ندا و لھا “ ”معاولہ “ سے ہے اس کا معنی ہے ایک چیز کو مختلف لوگوں کے درمیا ن گردش دینا ۔
 
پرورش وتربیت کا میدان جہاں گردی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma