تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
ان کے شرکاء (یعنی بتوں) نے ان کی اولاد کے قتل کو اتمام حجت

پہلی آیت درحقیقت اس پر ایک استدلال ہے جو گذشتہ آیات میں پروردگار کے ظلم نہ کرنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ آیت کہتی ہے: تیرا پروردگار بے نیاز بھی ہ اور رحیم ومہربان بھی ہے ، اس بنا پر کوئی وجہ نہیں کہ کسی پر چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی روا رکھے کیوں کہ ظلم تو وہ کرتا ہے کہ جو نیازمند ہو یا سخت مزاج اور سنگدل ہو ( وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ)۔
علاوہ ازایں اسے نہ تو تمھاری اطاعت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تمھارے گناہوں کا خوف ہے کیوں کہ” اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمھاری جگہ پر دوسرے لوگوں کو جنھیں وہ چاہے تمھارا جانشین بنادے جیسا کہ اس نے تمھیں ایسے انسانوں کی نسل میں پیدا کیا ہے جو تم سے بہت سی صفات میں مختلف تھے ( إِنْ یَشَاٴْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ )۔
اس بنا پر وہ بے نیاز بھی ہے اور مہربان بھی اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے، اس حالت میں اس کے بارے میں ظلم کا تصور ممکن نہیں ہے۔
اور اس کی لامتناہی قدرت پر توجہ رکھتے ہوئے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ” اس نے تم سے جو قیامت اور جزا وسزا کے بارے مین وعدہ کیا ہے وہ ہوکے رہے گا اور اس کی تھوڑی سی بھی خلاف ورزی نہیں ہو گی“ (إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ )۔
”اورتم اس کی حکومت سے ہرگز باہر نہیں نکل سکتے اور اس کے پنجہٴ عدالت سے فرار نہیں کرسکتے“(وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )۔(۱)
اس کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے: انھیں تہدید کرتے اور دھمکی دیتے ہوئے کہو کہ اے قوم! تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرگزرو، میں بھی وہ کام جس کا خدانے مجھے حکم دیاہے انجام دوں گا۔ مگر تمھیں بہت ہی جلد معلوم ہوجائے گا کہ نیک انجام اور آخری کامیابی کسے نصیب ہوتی ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ ظالم وستمگار کامیاب نہیں ہوں گے اور سعادت ونیک بختی کا منہ نہیں دیکھیں گے(قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَہُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّہُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )۔
یہاں ہم دوبارہ دیکھ رہے ہیں کہ ”کفر“ کی بجائے”ظلم“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کفر اور انکار حق ایک قسم کا واضح وآشکار ظلم ہے، اپنے اوپر بھی ظلم ہے اور معاشرے پر بھی ظلم ہے اور چونکہ ظلم جہان آفرینش کی عمومی عدالت کے برخلاف ہے لہٰذا آخر کار اسے شکست ہو گی۔

 

۱۳۶ وَجَعَلُوا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاٴَ مِنْ الْحَرْثِ وَالْاٴَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہَذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہَذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلاَیَصِلُ إِلَی اللهِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَائِہِمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ۔
ترجمہ
۱۳۶۔ اور (مشرکین نے ) ان چیزوں میں سے جو خدان پیدا کی ہیں( یعنی ) زراعت اور چوپایوں میں سے کچھ حصہ خدا کے لئے( بھی ) قرار دیا ہے اور انھوں نے یہ کہا کہ (ان کے گمان کے مطابق) یہ خدا کا مال ہے اور یہ ہمارے شرکاء (یعنی بتوں ) کا مال ہے، جو ان کے شرکاء کا مال تھا وہ تو خدا تک نہیں پہنچتا تھا لیکن جو خداکا مال تھا وہ ان کے شرکاء تک پہنچ جاتا تھا، (اور اگر بتوں کا حصہ کم ہوجاتا تھا تو خدا کامال انھیں دے دیتے تھے لیکن اس کے برعکس کو جائز نہیں سمجھتے تھے، یعنی خدا کا حصہ کم ہوجانے کی صورت میں بتوں کے مال میں سے خدا کو نہیں دیتے تھے)وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں (کہ شرک کے علاوہ خدا کو بتوں سے بھی کم تر سمجھتے تھے)۔

 


۱۔ ”معجزین“ ”اعجاز“ کے مادہ سے ہے ، یعنی دوسرے کو ناتوان اور عاجز کردینا ۔ آیت کہتی ہے کہ تم خدا کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے اور عدالت کے جاری کرنے سے عاجز نہیں کرسکتے۔ دوسرے لفظوں میں تم اس کی قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
 
ان کے شرکاء (یعنی بتوں) نے ان کی اولاد کے قتل کو اتمام حجت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma