گمشدہ لوگ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
طلوعِ صبح کرنے والاایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے

گذشتہ آیت میں موت کے آستانے پر ظالموں کے کچھ حالات کی طرف اشارہ ہوا تھا۔ اس آیت میں میں وہ گفتگو جو خدا موت کے وقت یا میدانِ قیامت میں ورود کے وقت اُن سے کرے گا منعکس کی گئی ہے۔
ابتداء میں ارشاد ہوتا ہے: آج سب اکیلے ہی اسی طرح جیسا کہ ہم نے تمھیں پہلے دن پیدا کیا تھا ہماری طرف لوٹ رہے ہو ( وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ )۔
”اور جو مال ہم نے تمھیں (دنیا میں) بخشا تھا اور وہ زندگی میں تمہارا سہارا تھا، سب کا سب پس پشت ڈال کر خالی ہاتھ آئے ہو“(وَتَرَکْتُمْ مَا خَوَّلْنَاکُمْ وَرَاءَ ظُہُورِکُمْ )۔(۱)
اسی طرح ”وہ بت کہ جنھیں تم اپنے شفیع خیال کرتے تھے، اور انھیں اپنی سرنوشت میں شریک سمجھتے تھے ان میں سے کسی کو ہم تمہارے ساتھ نہیں دیکھ رہے“ (وَمَا نَرَی مَعَکُمْ شُفَعَائَکُمْ الَّذِینَ زَعَمْتُمْ اٴَنَّہُمْ فِیکُمْ شُرَکَاءُ)۔
حقیقت میں تمہارا اجتماع پر اگندگی سے دوچار ہوگیا اور تمام رشتے تم سے ٹوٹ گئے ( لَقَدْ تَقَطَّعَ بَیْنَکُمْ ) اور وہ تمام سہارے جن پر تم بھروسہ کیے ہوئے تھے نابود ہوگئے اور کھوگئے (وَضَلَّ عَنکُمْ مَا کُنتُمْ تَزْعُمُونَ)۔
عرب کے مشرک اور بت پرست تین چیزوں پر تکیہ کرتے تھے۔
۱۔ وہ قبیلہ وعشیرہ کہ جس کے ساتھ وہ وابستہ ہوتے تھے۔
۲۔ وہ مال و دولت کہ جو انھوں نے اپنے لیے اکٹھا کر رکھا تھا اور
۳۔ وہ بت کہ جنھیں وہ انسان کی سرنوشت کے تعین میں خدا کی بارگاہ میں شفیع سمجھتے تھے۔ آیت کے تینوں جملوں میں سے ہر ایک میں ان تینوں میں سے ایک ایک بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کہ وہ سب موت کے وقت کس طرح انسان سے الوداع ہوتے ہیں اور اُسے تن تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔

 

دو اہم نکات

 

۱۔ اِس آیت کا اُس آیت کے بعد کہ جس میں موت کے وقت روح قبض کرنے والے فرشتوں کی گفتگو بیان کی گئی تھی قرار پانا اور اسی طرح ”تم نے اپنے اموال پسِ پشت ڈال دیئے“ کے جملہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب بھی موت کے وقت ان سے ہوگا لیکن یہ خطاب خدا کی طرف سے ہوگا۔ البتہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب میدان قیامت میں وارد ہونے کے بعد ہوگا۔ تاہم (اس سے) آیت کے مقصد اور ہدف اصلی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
۲۔ یہ آیت اگر چہ مشرکین عرب کے بارے نازل ہوئی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ان کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتی۔
اس دن تمام رشتے ، مادی تعلقات، تمام خیالی اور بناوٹی معبود، تمام سہارے جو انسان اس جہاں میں اپنے لیے بنائے ہوئے تھا اور انھیں اپنی بدبختی کے دن کے لیے دوست اور مددگار خیال کرتا تھا کلی طور پر اس سے جدا ہوجائیں گے، وہ خود رہ جائیں گے اور اس کے اعمال، وہ ہوگا اور اس کا خدا، اور باقی سب درمیان سے چلے جائیں گے اور قرآن کی تعبیر کے مطابق وہ سب کے سب گم ہوجائیں گے۔ یعنی وہ اس طرح سے حقیر و پست اور ناشناس ہوجائیں گے کہ نگاہ میں ہی نہیں آئیں گے۔ 

 
۹۵ إِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنْ الْحَیِّ ذَلِکُمْ اللَّہُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُونَ-
۹۶ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ-
ترجمہ
۹۵۔خدا دانے اور گٹھلی کو چیز نے والا ہے اور زندہ کو مردہ سے پیدا کرتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے ۔ یہ ہے تمھارا خدا، پس تم حق سے کیسے منحرف ہوتے ہو۔
۹۶۔ وہ صبح کو شگافتہ کرنے والا ہے، اور اُس نے رات کو سکون کا باعث اور آفتاب و ماہتاب کو حساب کا ذریعہ قرار دیا ہے، یہ دانا و توانا خدا کی تقدیر ہے۔
تفسیر


 
۱۔ خولناکم ”خول“ (برزون ”عمل“) کے مادہ سے اصل میں ایسی چیز کے معنی میں ہے جو سرپرستی، تدبیر اور ادارت کی محتاج ہو اور عام طور پر اموال اور ایسی مختلف نعمتوں کے لیے لولا جاتا ہے جو خدا انسان کو بخشتا ہے۔
طلوعِ صبح کرنے والاایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma