یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
حضرت ابراہیم - کا توحید پر استدلال آسمانوں میں توحید کی دلیلیں
اس آیت کی تفسیر اور بعد والی آیات کی تفسیر میں اور یہ کہ ابراہیم- جیسے موحد و یکتا پرست نے کس طرح آسمان کے ستارے کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہا کہ یہ میرا خدا ہے مفسرّین نے بہت بحث کی ہے۔ ان تمام تفاسیر میں سے دو تفسیریں زیادہ قابلِ ملاحظہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کو بعض بزرگ مفسرین نے اختیار کیا ہے اور ان پر منابعِ حدیث میں بھی شواہد موجود ہیں۔
پہلی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم - ذاتی طور پر یہ چاہتے تھے کہ خداشناسی کے بارے میں غور و فکر کریں اور اُس معبود کو جسے وہ اپنی پاک فطرت کی بناء پر اپنی روح و جان کی گہرائیوں میں پاتے تھے تلاش کریں۔ وہ خدا کو نورِ فطرت اور عقلی احمالی دلیل سے تو پہنچان چکے تھے، اور ان کی تمام تعمیرات بتلاتی ہیں کہ انھیں اُس کے وجود میں کسی قسم کا شک و یعبہ نہیں تھا، لیکن وہ اس کے حقیقی مصداق کی تلاش میں تھے، بلکہ اُس کے حقیقی مصداق کو بھی جانتے تھے مگر چاہتے یہ تھے کہ زیادہ واضح عقلی اتدلالات کے ذریعہ ”حق الیقین“ کے مرحلہ تک پہنچ جائیں۔ اور یہ واقعہ دور ان نبوت سے پہلے کا ہے اور احتمال یہ ہے کہ ابتداء بلوغ یا قبل از بلوغ کا ہے۔
کچھ روایات اور تواریخ میں ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ابراہیم - کی نظر آسمان کے ستاروں پر پڑی تھی اور و رات کے نیلگوں صفحہ آسمان کو اس کے روشن اور چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ آپ کی والدہ اُن کے بچپنے سے ہی نمرود جبار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے خوف سے ایک غار کے اندر ان کی پرورش کررہی تھیں۔
لیکن یہ بات بہت ہی بعید نظر آتی ہے کہ کوئی انسان کئی سالوں تک غار کے اندر ہی زندگی گزارتا رہے یہاں تک ایک تاریک رات میں بھی اس سے باہر قدم نہ رکھا ہو۔ شاید بعض کی نظر میں اس احتمال کی تقویت (رای کو کبا) کے جملے کے سبب سے ہو کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت تک ستارہ نہیں دیکھا تھا۔
لیکن یہ تعبیر کسی لحاظ سے بھی یہ مفہوم اپنے اندر نہیں رکھتی، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر چہ اُنہوں نے اس وقت تک ستارے، چاند اور سورج کو دیکھا تو بہت دفعہ تھا لیکن ایک محقق توحید کے طور پر یہ پہلی دفعہ تھی کہ اُن پر نظر ڈالی اور ان کے طلوع و غروب کو مقام خدائی کی نفی کمے ساتھ مربوط ہونے پر غور کرنے لگے۔ در حقیقت ابراہیم - نے انھیں بار ہا دیکھا تھا لیکن اس نظر سے نہیں۔
اس بناپر جب ابراہیم - یہ کہتے ہیں کہ : ہٰذا ربی (یہ میرا خدا ہے) تو یہ ایک قطعی خبر کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فرض اور احتمال کے طور پر اور ہے اور غور وفکر کے لئے ہے۔ اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی حادثہ کی ملت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو تمام احتمالات اور فروض کو ایک ایک کرکے مطالعہ کے لیے فرض کرتے چلے ہیں اور ہر ایک کے لوازم کی تحقیق ملت کو پاسکیں اور اس قسم کی بات نہ ہی نفی ایمان پر دلالت کرتی ہے بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ تحقیق اور بہتر سے بہتر شناسائی کا ایک طریقہ ہے اور ایمان کے بلند مراتب تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے ۔ جیسا کہ” معاد“ کے سلسلہ میں بھی حضرت ابراہی-م مرحلہ شہود اور اس سے پیدا ہونے والے اطمینان تک پہنچنے کے لیے بیشتر تحقیق کے در پے ہوئے تھے۔ تفسیر عیاشی میں محمد بن مسلم کے واسطے سے امام باقر- یا امام صادق سے اس طرح منقول ہے :
”اِنَّمَا کَانَ اِبرَاھِیم طَالباً لِرَبِّہِ ولم یبلغ کفرًاو انّہ مِن النّاس فِی مِثلِ ذَالِکَ فَاِنَّہُ بِمَنزلتہ“۔
ابراہی-م نے یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھی اور لوگوں میں سے جو شخص بھی تفکرو تحقیق کے لیے یہ بات کہتے تو وہ ابراہیم- کی طرح ہوگا(1)
اس سلسلے میں دو روایات اور بھی تفسیرنور الثقلین سے نقل ہوئی ہے ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم - نے یہ بات ستارہ پرستوں اور سورج پرست لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کی اور احتمال یہ ہے کہ بابل میں بت پرستوں کے ساتھ سخت قسم کے مقابلے اور مبارزات کرنے اور اس زمین سے شام کی طرف نکلنے کے بعد جب ان اقوام سے ان کا آمناسامنا ہوا تو اس وقت یہ گفتگو کی تھی ۔حضرت ابراہیم - بابل میں نادان قوموں کی ہٹ وھرمی کو ان کی غلط راہ و رسم میں آزما چکے تھے لہٰذا اس بناپر کہ آفتاب و مہتاب کے پجاریوں اور ستارہ پرستوں کو اپنی طرف متوجہ کریں، پہلے ان کے ہم صدا ہوگئے اور ستارہ پرستوں سے کہنے لگے کہ تم یہ کہتے ہو کہ یہ زہرہ ستارہ میرا پروردگار ہے، بہت اچھا چلو اسے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ اس عقیدے کا انجام تمہارے سامنے پیش کروں۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس ستارے کا چمکدار چہرہ افق کے تاریک پردے کے پیچھے چھپ گیا، یہ وہ مقام تھا کہ ابراہیم - کے ہاتھ میں ایک محکم ہتھیار آگیا اور وہ کہنے لگے میں تو کبھی ایسے معبود کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس بناپر” ھذا ربی“کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے عقیدے کے مطابق یہ میرا خدا ہے، یا یہ کہ آپ نے بطور استفہام فرمایا: کیا یہ میرا خدا ہے؟ اس سلسلے میں بھی ایک حدیث تفسیر نور الثقلین اور دیگر تفاسیر میں عیون اخبار

 
1۔ تفسیر نور اثقلین جلد اوّل صفحہ ۷۳۸۔
حضرت ابراہیم - کا توحید پر استدلال آسمانوں میں توحید کی دلیلیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma