آسمانوں میں توحید کی دلیلیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھیکیا آزر حضرت ابرہیم (علیه السلام) کا باپ تھا
اس سرزنش اور ملامت کے بعد جو ابرہیم - بتوں کی کرتے تھے، اور اُس دعوت کے بعد جو آپ- نے آزر کو بت پرستی کے ترک کرنے کے لیے کی تھی ان آیات میں خدا ابراہیم کے بت پرستوں کے مختلف گرد ہوں کے ساتھ منطقی مقابلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن کے واضح عقلی استدلالات کے طریق سے اصل توحید کو ثابت کرنے کی کیفیت بیان کرتا ہے۔
پہلے کہتا ہے: جس طرح ہم نے ابرہیم کو بت پرستی کے نقصانات سے آگاہ کیا اسی طرح ہم نے اس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین پر پروردگار کی مالکیت مطلقہ اور تسلط کی نشاندہی کی (وَکَذٰلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ)۔(۱)
”ملکوت“اصل میں ”ملک“ (بروزن حکم) کے مادہ سے ہے جو حکومت و مالکیت کے معنی میں ہے اور”و“ اور ”ت“ کا اضافہ تاکید و مبالغہ کے لیے ہے، اس بناپر یہاں اس سے مراد تمام عالمِ ہستی پر خدا کی حکومت مطلقہ ہے۔
یہ آیت اصل میں اُس تفصیل کا ایک اجمال ہے کہ جو بعد کی آیات میں سورج، چاند اور ستاروں کی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کے بارے میں اور اُن کے غروب ہونے سے اُن کے مخلوق ہونے پر دلیل لانے کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے۔
یعنی قرآن نے پہلے ان مجموعی واقعات کا اجمالی بیان کیا ہے اس کے بعد ان کی تشریح شروع کی ہے اور اس طرح سے ابراہیم- کو ملکوتِ آسمان و زمین دکھانے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے۔
اور آیت کے آخر میں قرآن فرماتا ہے: ہمارا ہدف و مقصد یہ تھا کہ ابرہیم اہلِ یقین میں سے ہوجائے (وَلِیَکُونَ مِنْ الْمُوقِنِینَ)
اس میں شک نہیں ہے کہ ابراہیم - خدا کی یگانگت کا استدلالی و فطری یقین رکھتے تھے، لیکن اسرار آفرینش کے مطالبہ سے یہ یقین درجہ کمال کو پہنچ گیا، جیسا کہ وہ قیامت اور معاد کا یقین رکھتے تھے، لیکن سر بریدہ پرندوں کے زندہ ہونے کے مشاہدہ سے ان کا ایمان ”عین الیقین“ کے مرحلہ کو پہنچ گیا۔
بعد والی آیات میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے جو ستاروں اور آفتاب کے طلوع و غروب سے ابراہیم - کے استدلال کو ان کے خدا نہ ہونے پر واضح کرتا ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب رات کے تاریک پردے نے سارے عالم کو چھپالیا تو اُن کی آنکھوں کے سامنے ایک ستارہ ظاہر ہوا۔ ابراہیم نے پکار کر کہا کہ کیا یہ میرا خدا ہے؟ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو اُنہوں نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ میں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انھیں عبودیت و ربوبیت کے لائق نہیں سمجھتا ( فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَاٴَی کَوْکَبًا قَالَ ہٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لاَاٴُحِبُّ الْآفِلِینَ )۔
انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں صفحہ آسمان پر گاڑدیں۔ اس دفعہ چاند کی چاندی جیسی ٹکیہ وسیع اور دل پذیر روشنائی کے ساتھ صفحہ آسمان پر ظاہر ہوئی۔ جب چاند کو دیکھا تو ابراہیم- نے پکار کر کہا کہ کیا یہ ہے میرا پروردگار ؟ لیکن آخر کار چاند کا انجام بھی اُس ستارے جیسا ہی ہوا اور اُس نے بھی اپنا چہرہ پر وہٴ افق میں چُھپالیا تو حقیقت کے متلاشی ابراہیم - نے کہا کہ اگر میرا پروردگار مجھے اپنی طرف رہنمائی نہ کرے تو میں گمراہوں کی صف میں جاکھڑا ہوں گا ( فَلَمَّا رَاٴَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَہْدِنِی رَبِّی لَاٴَکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ )۔
اُس وقت رات آخر کو پہنچ چکی تھی اور اپنے تاریک پردوں کو سمیٹ کو آسمان کے منظر سے بھاگ رہی تھی، آفتاب نے افق مشرق سے نکالا اور اپنے زیبا اور لطیف نور کو زربفت کے ایک ٹکڑے کی طرح دشت و کوہ و بیابان پر پھیلا دیا، جس وقت ابراہیم - کی حقیقت بین نظر اُس کے خیرہ کرنے والے نور پر پڑی تو پکار کر کہا: کیا میرا خدا یہ ہے؟ جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن ہے، لیکن سورج کے غروب ہوجانے اور آفتاب کی ٹکیہ کے ہیولائے شب کے منہ میں چلے جانے سے ابراہیم - نے اپنی آخری بات ادا کی، اور کہا: اے گروہِ (قوم) میں ان تمام بناوئی معبودوں سے جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے لیا ہے بری و بیزار ہوں ( فَلَمَّا رَاٴَی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ ہٰذَا رَبِّی ہٰذَا اٴَکْبَرُ فَلَمَّا اٴَفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ )۔
اب جب کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس متغیر و محدود اور قوانینِ طبیعت کے چنگل میں اسیر مخلوقات کے ماو اء ایک ایسا خدا ہے کہ جو اس سارے نظامِ کائنات پر قادر حاکم ہے تو میں تو اپنا رڑخ ایسی ذات کی طرف کرتا ہوں کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس عقیدے میں کم سے کم شرک کو بھی راہ نہیں دیتا، میں تو موحد خالص ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں ( إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ )۔

 
۱۔ اس بناپر آیت میں ایک حذف اور تقدیر موجود ہے جو آیات قبل سے واضح ہوتی ہے اور حقیقت میں آیت کا مضمون اس طرح ہے: (کما ارینا ابراہیم قبح ما کان علی علیہ قومہ من عبادة الاصنام کذلک نری ابراہیم ملکوت السمٰوٰت و الارض)۔
یہ گفتگو تحقیق کے طور پر کی تھیکیا آزر حضرت ابرہیم (علیه السلام) کا باپ تھا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma