دوسوال اور ان کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
دین حق کو کھیل بنانے والےاہل باطل کی مجالس سے دوری

پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شیطان پیغمبر پر تسلط پیدا کرے اور ان کے نسیان کا باعث بنے، دوسرے لفظوں میں کیا مقام عصمت اور خطا مصئونیت کے باوجود حتی کہ موضوعات میں یہ بات ممکن ہے کہ پیغمبر اشتباہ اور نسیان میں گرفتار ہوجائے ۔
اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر چہ روئے سخن آیت میں پیغمبر کی طرف سے ہے لیکن حقیقت میں ان کے پیروکار مراد ہیں کہ اگر وہ فراموش کاری میں گرفتار ہوجائیں اور کفار کے گناہ آمیز اجتماعات میں شرک ہوجائی تو جس وقت بھی انھیں یاد آجائے فورا وہاں سے اٹھ کھڑے ہو اور باہر نکل جائیں، اور قسم کی بحث ہماری روزمرہ کی گفتگو میں اور مختلف زبانوں کے ادبیات میں عام نظر آتی ہے کہ انسان روئے سخن تو کسی اور کی طرف کرتا ہے مگر اس کامقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے سن لیں، عربوں کی مشہور ضرب المثل کی طرح، جس میں کہتے ہیں:
ایاک اعنی واسمعی یاجارة
میری مراد تو تم ہو اور اے پڑوسن تو سن لے ۔
بعض مفسرین نے مثلا طبرسی نے مجمع البیان میں اور ابو الفتوح نے اپنی مشہور تفسیر میں ایک دوسرا جواب دیا ہے کہ جس کاماحصل یہ ہے انبیاء کے لئے خدا کی طرف سے احکام کے پہنچانے اور مقام رسالت میں سہو وفراموشی اور بھول چوک کا ہونا تو جائز نہیں ہے لیکن موضوعات خارجی میں اگر لوگوں کی گمراہی کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ جواب اس اصول کے ساتھ جو ہمارے متکلمین کے درمیان مشہور ہے کہ انبیاء وائمہ علیہم السلام احکام کے علاوہ عام موضوعات میں بھی غلطی سے معصوم ومصئون ہیں مناسبت نہیں رکھتا ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ بعض علمائے اہل سنت نے اس آیت کو رہبران دینی کے لئے تقیہ جائز نہ ہونے کی دلیل قرار دیا ہے کیوں کہ آیت صراحت کے ساتھ کہتی ہے:دشمنوں کے سامنے تقیہ نہ کرو یہاں تک کہ اگر تم ان کی مجلس میں بھی موجود ہوتو ان کی مجلس سے کھڑے ہوجاؤ،
اس اعتراض کا جواب بھی بالکل واضح اور روشن ہے، کیوں کہ شیعہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہرجگہ تقیہ ضروری ہے بلکہ تقیہ بعض مواقع پر تو قطعا حرام ہے اور اس کا وجوب صرف ایسے مواقع کے لئے ہے کہ جہاں تقیہ کرنے اور اظہار حق نہ کرنے میں کچھ ایسے فوائد ومنافع ہوں کہ جو اس کے اظہار سے زیادہ ہو یا یہ کہ تقیہ دفع ضرر اور خطر کلی کے دور ہونے کا موجب ہو ۔
بعد والی آیت میں ایک موقع کو مستثنیٰ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اگر صاحب تقوی لوگ نہی از منکر کی غرض سے ان کے جلسوں میں شرکت کریں اور پرہزگاری کی امید اور ان کے گناہ سے پلٹ آنے کی امید پر انھیں نصیحت کریں تو کوئی مانع نہیں ہے اور ہم ان کے گناہ کو ایسے افراد کے حسا میں نہیں لکھے گ، کیوں کہ ہر حالت میں ان کا ارادہ تو خدامت اور اپنے فرض کی بجاآوری تھا
(وَمَا عَلَی الَّذِینَ یَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِنْ شَیْءٍ وَلَکِنْ ذِکْرَی لَعَلَّھُمْ یَتَّقُونَ) ۔
اس آیت کے لئے ایک دوسری تفسیر بھی بیان ہوئی ہے لیکن ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ ظاہر آیت اور اس کی شان نزول کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔
ضمنا اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ صرف وہ افراد استثنیٰ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ جو آیت کی تعبیر کے مطابق تقوی اور پرہیزگاری کے مقام کے حامل ہوں اور نہ صرف یہ کہ وہ خود ان سے متاثر ہوں، بلکہ وہ انھیں خود اپنے سے متاثر کرسکیں ۔
سورہٴ نساء کی آیت۱۴۰ کے ذیل میں بھی مذکورہ آیت کے مشابہ ایک مضمون آیاہے اور وہاں پر دوسرے مطالب بیان ہوئے ہیں ۔ (1)
۷۰ وَذَرِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَھُمْ لَعِبًا وَلَھْوًا وَغَرَّتْھُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِہِ اٴَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُونِ اللَّہِ وَلِیٌّ وَلا َشَفِیعٌ وَإِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لاَیُؤْخَذْ مِنْھَا اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اٴُبْسِلُوا بِمَا کَسَبُوا لَھُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ ۔
ترجمہ
۷۰۔ تم ایسے لوگوں کہ جنھوں نے اپنے فطری دین کو کھیل تماشہ (اور استہزاء) بنا لیا ہے اور دنیاوی زندگی نے انھیں مغرور کردیا ہے، چھوڑ دو اور انھیں نصیحت کرو تاکہ وہ اپنے اعمال کے (برے نتائج ) میں گرفتار نہ ہوں، (اس دن ) خدا کے سوا نہ ان کا کوئی یارویاور ہوگا اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا اور (ایسے شخص سے) خواہ وہ کسی بھی قسم کا عوض کیوں نہ دے اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو ان اعمال میں گرفتار ہوئے ہیں کہ جو انھوں نے انجام دئے ہیں، ان کے پینے کے لئے گرم پانی ہے اور دردناک عذاب ہے، یہ اس سبب سے ہوگا کیوں کہ انھوں نے کفر اختیار کیا ہے ۔


1۔تفسیر نمونہ جلد چہارم صفحہ ۱۴۲۔
 
دین حق کو کھیل بنانے والےاہل باطل کی مجالس سے دوری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma