چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
جس وقت تم ان لوگوں کو دیکھو کہ رنگ رنگ کے عذاب

۱۔ اس بارے میں کہ ”اوپر“ کی طرف سے ”عذاب“ اور ”نیچے“ کی طرف عذاب سے کیا مراد ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ دونوں لفظ (فوق وتحت) بہت ہی وسیع معنی رکھتے ہیں، ان میں حسی طور پر اوپر اور نیچے کا مفہوم بھی شام ہے یعنی ایسی سزائیں جو اوپر کی طرف سے آتی ہیں ،مثلا بجلیاں، خطرناک بارشیں اور طوفان اور ایسی سزائیں جو نیچے کی طرف سے آتی ہیں مثلا زلزلے اور زمین کو ویران وبرباد کرنے والے شگاف اور دریاؤں اور سمندروں کے طوفان، سب اس میں داخل ہیں ۔
وہ دردناک عذاب بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں کہ جو حکام کے طبقہ اور معاشرے کے اوپر والے حصے کی طرف سے بعض قوموں کے سروں پر آتے ہیں اور وہ پریشانیاں اور سختیاں جو مزدوروں اور نافہم اور فرض ناشناس افراد کی طرف سے لوگوں کودامنگیرہوجاتی ہیں جو بعض اوقات پہلے گروہ کے عذاب سے کم تر نہیں ہوتی، سبھی اس کے معنی میں داخل ہیں ۔
اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے زمانے کے خوفناک جنگی ہتھیار کہ جو فضا اور زمین سے وحشتناک صورت میں انسانی زندگی کو تباہ کردیتے ہیں اور تھوڑی سی دیر میں آباد ترین شہروں کو ہوائی بمباری اور زمینی حملوں سے، میزائیلوں اور آبدوزوںسے خاکستری ٹیلوں میں بدل جاتے ہیں وہ بھی آیت کے وسیع مفہوم میں داخل ہیں ۔
۲۔
”یلبسکم“ ”لبس“ (بروزن حبس) مڈھ بھیڑ کرانے اور ایک دوسرے سے ٹکرانے کے معنی میں ہے نہ کہ مادہ ”لبس“ (بروزن قرض) لباس پہننے کے معنی میں، اس بنا پر جملہ کے معنی یوں ہوگا کہ وہ تمھیں مختلف گروہ اور دستوں کی شکل میں ایک دوسرے سے ٹکرابھی سکتا ہے ۔ (۱)
اور یہ تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی کہ اختلاف کلمہ (تفرقہ بازی یاپھوٹ )اور جمعیت کی پراگندگی کا مسئلہ اس قدر خطرناک ہے کہ وہ آسمانی عذاب اور بجلیوں اور زلزلوں کا ہم پلہ اور ہم پایہ قرار پایا ہے، حقیقتا ہے بھی ایسا ہی بلکہ بعض اوقات اختلاف و پراگندگی سے پیدا ہونے والی ویرانیاں ان ویرانیوں سے کئی درجے زیادہ ہوتی ہے جو بجلیوں اور زلزلوں سے آتی ہے، بارہا دیکھا گیا ہے کہ آباد ملک نفاق اور تفرقہ بازی کے منحوس سائے متعلق تباہی کی نظر ہوجاتے ہیں اور یہ جملہ تمام مسلمانان عالم کے لئے ایک تنبیہ اور صدائے ہوشیار باش ہے ۔
یہ احتمال بھی اس جملہ کی تفسیر میں موجود ہے کہ خدا نے آسمانی اورزمینی عذاب کے مقابلہ میں دو دوسرے عذاب بیان کئے ہیں، ایک عقیدہ اور فکرونظر میں اختلاف کا عذاب (جو حقیقت میں اوپر کے عذابوں کی مانند ہے) اور دوسرے عمل اور اجتماعی طور طریقوں میں اختلاف کا عذاب جس کا نتیجہ جنگ اور خونریزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جو نیچے کی طرف کے عذاب کے مشابہ ہے، اس بنا پر آیت میں چار قسم کے طبیعی عذابوں اور دو قسم کے اجتماعی عذابوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
۳۔ اس بات کا اشتباہ نہ ہونے پائے کہ زیر بحث آیت کہتی ہے کہ خدا تمھارے درمیان تفرقہ ڈال دے گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا بلا وجہ لوگوں کو نفاق واختلاف میں گرفتار کردے گا بلکہ یہ لوگوں کے برے اعمال، خودخواہیوں، خودپرستیوں اور شخصی نفع خوریوں کا نتیجہ ہے کہ جس کا اثر نفاق اور تفرقہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور خدا کی طرف اس کی نسبت اس سبب سے ہے کہ اس نے اس قسم کا اثر ان برے اعمال میں قرار دے دیا ہے ۔
۴۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان آیات میں روئے سخن مشرکین اور بت پرستوں کی طرف ہے، ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایک مشرک معاشرہ جو توحید اور یکتا پرستی کے راستے سے منحرف ہوچکا ہے، وہ طبقات بالا کے ظلم وستم میں بھی گرفتار ہوتا ہے اور نچلے طبقہ کی فرض نا شناسی کی مصیبت میں بھی گرفتار ہوتا ہے، اختلاف عقیدہ کی خرابیون سے بھی دوچار ہوتا ہے اور اجتماعی خونیں کشمکشوں میںہی گرفتارہوتا ہے، جیسا کہ آج کی مادی دنیا میں معاشرے ، جو صرط صنعت وثروت کے بتوں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ان تمام عظیم بلاؤں میں مبتلا ہیں اور ان کے درمیان ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ۔
ہمیں اسے مذاہب کا بھی علم ہے کہ جو توحید وخدا پرستی کا دم بھرتے ہیں لیکن عملی طور پر مشرک اور بت پرست ہیں، ایسے مذاہب واقوام بھی انھیں مشرکین کے سے انجام میں گرفتار ہوں گے اور یہ جو ہم بعض احادیث میں پڑھتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ :
قل ھذا فی اھل القبلة۔
یہ سب سزائیں مسلمانوں میںہی واقع ہوں گی۔
ممکن ہے کہ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ جب مسلمان توحید کے راستے سے منحرف ہوجائیں، خود خواہی اور خود پرستی اخوت اسلامی کی جگہ لے لے، شخصی مفاد عمومی مفاد پر مقدم سمجھا جانے لگے اور ہر شخص اپنی ہی فکر میں لگ جائے اور خدائی احکام بھلا دئے جائیں ، تو وہ بھی ایسے انجام میں گرفتار ہوجائیں گے ۔
۶۶ وَکَذَّبَ بِہِ قَوْمُکَ وَھُوَ الْحَقُّ قُلْ لَسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیلٍ ۔
۶۷ لِکُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ۔
ترجمہ
۶۶۔تیری قوم نے اس کی تکذیب اور انکار کیا حالانکہ وہ حق ہیں( ان سے ) کہہ دو کہ میں تمھارے بارے میں(قبول کرنے اور ایمان لانے کا) جوابدہ ہوں

( میرا فریضہ صرف ابلاغ رسالت ہے نہ کہ تمھیں ایمان پر مجبور کرنا) ۔
۶۷۔ہر خبر (جوخدا نے تمھیں دی ہے آخر کار اس) کی ایک قرار گاہ ہے (اور وہ اپنی وعدہ گاہ میں انجام پائی گی) اور تم جلدی ہی جان لوگے ۔


 
۱۔” شیعا“ جمع ہے شیعہ کی جس کا معنی گروہ ہے ۔
جس وقت تم ان لوگوں کو دیکھو کہ رنگ رنگ کے عذاب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma