سلام بر مؤمنان!

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
بے جا اصرار اور ہٹ دھرمی اسلام کا ایک عظیم امتیاز

بعض کا نظریہ تو یہ ہے کہ پہلی آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی یے کہ جن کے متعلق گذشتہ آیات میں پیغمبر کو حکم دیا گیا تھا کہ انھیں اپنے پاس سے دھتکارے نہیں اور انھیں اپنے پاس سے جدا نہ کرےں، اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت کچھ گنہگاروں کے بارے میں ہے جو پیغمبر کے پاس آئے تھے اور انھوں نے یہ اظہار کیا تھا کہ ہم نے بہت گناہ کئے ہیں اس پر رسول اللہ نے سکوت اختیار کیا تو زیر نظر آیت نازل ہوئی ۔
بہرحال اس کی شان نزول خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اس میں شک نہیں کہ آیت کا مفہوم کلی اور وسیع ہے اور سب پر محیط ہے، کیوں کہ پہلے ایک قانون کلی کے طور پر پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ تما م اہل ایمان کو خواہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو ، نہ صرف یہ کہ اپنے پاس سے دھتکارےں نہیں بلکہ انھیں گلے لگائیں اور قبول کریں، اور فرمایا گیا کہ : جب وہ لوگ کہ جو ہماری آیات پر ایمان لا چکے ہیں تیرے پاس آئیں تو ان سے کہو تم پر سلام ہو

 

(وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ) ۔
یہ سلام ممکن ہے کہ خدا کی طرف سے اور پیغمبر کے وسیلہ سے ہو اور یا براہ راست خود پیغبر کی طرف سے ہو، اور یہ ہرحال میں ان کی پذیرائی اور استقبال کرنے اور ان سے افہام وتفہیم اور دوستی کرنے کی دلیل ہے ۔
دوسرے جملہ میں مزید فرمایا گیا ہے: تمھارے پروردگار نے رحمت کو اپنے اوپر فرض کرلیا ہے
( کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ ) ۔
”کتب“ جو مادہ کتابت سے ہے لکھنے کے معنی میں ہیں اور بہت سے موقع پر لازم ہونے، قبول کرنے اور ذمہ لینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیوں کہ لکھنے کے آثار میں سے ایک اثر کسی چیز کا مسلم ہونا ااور ثابت رہ جانا ہے ۔
تیسرے جملہ میں جو درحقیقت رحمت الٰہی کی توضیح وتفسیر ہے، ایک محبت آمیز تعبیر کے ساتھ یوں فرمایا گیا ہے : تم میں سے جو شخص کوئی کام ازروئے جہالت انجام دے ، اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح اور تلافی کرے تو خدا بخشنے والا اور مہربان ہے

 

(اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوئًا بِجَھَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں (۱)، ایسے موقع پر ”جہالت“ سے مراد وہی شہوت اور خواہش نفسانی اور غلبہ اور طغیان وسرکشی ہے، جس میں انسان دشمنی اور عداوت کی بنا پر نہیں بلکہ ہویٰ وہوس کے غلبہ کی خاطر اس طرح ہوجاتا ہے کہ فروغ عقل اور خواہش کا کنٹرول ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے، ایسا شخص اگرچہ گناہ اور حرام کا علم رکھتا ہے مگرچونکہ اس کا علم ہویٰ وہوس کے پردے میں آگیا ہے اس لئے اس پر ”جہالت“ کا اطلاق ہوا ہے، مسلمہ طور پر ایسا شخص اپنے گناہ کے لئے جوابدہ ہے، لیکن چوںکہ وہ گناہ عداوت اور دشمنی کی بنا پر نہیں تھا لہٰذا وہ سعی وکوشش کرتا ہے کہ اس کی اصلاح اور تلافی ہوجائے ۔
حقیقت میں یہ آیت پیغمبر اسلام کو حکم دے رہی ہے کہ تم کسی بھی صاحب ایمان فرد کو خواہ وہ کسی طبقہ سے ہو، کسی نسل سے ہو اور کیسے ہی حالات سے دوچار ہو نہ صرف یہ کہ اپنے پاس سے نہ دھتکارو بلکہ اپنے دامن کو یکساں طور پر سب کے لئے کھول، یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ بہت سے گناہوں میں آلودہ بھی ہو تو انھیں بھی قبول کرلو اور ان کی اصلاح کرو ۔
بعد والی آیت میں اس مطلب کی تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: ہم اپنی آیات ، نشانیاں اور احکام اس روشن اور مشخص کرتے ہیں کہ حق کے متلاشیوں اور اطاعت گزاروں کا راستہ بھی واضح وآشکار ہوجائے اور ہٹ دھر م گنہگاروں اور حق کے دشمنوں کی راہ بھی معلوم وروشن ہوجائے

 

(وکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ)(2) ۔
واضح ہے کہ اوپر والی آیت میں ” مجرم“ سے مراد ہر گنہگار نہیں ہے، کیوں کہ اس آیت میں پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب گنہگار ان کے پاس آئیں ،خواہ انھوں نے نادا نی کی بنا پر کتنے ہی غلط اعمال انجام دئے ہوں ، انھیں قبول کرلیں، اس بنا پر یہاں مجرم سے مراد ہی ہٹ دھرم اور سخت قسم کے گنہگار ہیں جو جو کسی ذریعہ سے بھی حق کے سامنے سرتسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے ہوں ، یعنی حق کی طرف اس عمومی اور ہمہ گیر دعوت کے بعد، یہاں تک کہ ان گنہگاروں کو دعوت دینے کے بعد کہ جو اپنے کام سے پشیمان ہیں ، اب ہٹ دھرم اور ناقابل توجہ ہیں مجرموں کے طرز عمل کو مکمل طور پر واضح کیا جارہا ہے ۔
۵۶قُلْ إِنِّی نُھِیتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ قُلْ لاَاٴَتَّبِعُ اٴَھْوَائَکُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُھْتَدِینَ۔
۵۷ قُلْ إِنِّی عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَکَذَّبْتُمْ بِہِ مَا عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِین۔
۵۸ قُلْ لَوْ اٴَنَّ عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَاللَّہُ اٴَعْلَمُ بِالظَّالِمِینَ ۔
ترجمہ
۵۶۔ تم کہہ دو کہ مجھے ان کی پرستش سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو، کہہ دو کہ میں تمھاری ہویٰ وہوس کی پیروی نہیں کرتا، اگر میں ایسا کروں گا توگمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت پانے والوں میں سے نہ ہوں گا ۔
۵۷۔ تم کہہ دو کہ میں اپنے پرور دگار کی طرف سے ایک واضح اور روشن دلیل رکھتا ہوں اور تم نے اس کی تکذیب کی ہے( اور اسے قبول نہیں کیا) وہ چیز کہ جس کے بارے میں تمھیں زیادہ جلدی ہے وہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے، حکم اور فرمان جاری کرنا صرف خدا ہی کے اختیار میں ہے جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور وہ (حق کو باطل سے) بہترین (طریقے پر) جدا کرنے والا ہے ۔
۵۸۔ تم کہہ دو کہ اگر وہ چیز جس کے بارے میں تمھیں جلدی میرے پاس ہوتی (اور میں تمھاری درخواست پر عمل کرتا تو عذاب الٰہی تم پر نازل ہوجاتا اور ) میرا اورتمھارا کام انجام کو پہنچ جاتا اور خدا ظالموں کو اچھی طرح سے پہچانتا ہے ۔

 

 
۱۔ تفسیر نمونہ جلد ۳، ص۳۲۸(اردو ترجمہ) ۔
2۔ حقیقت میں جملہ ” وَلِتَسْتَبِینَ “ عطف ہے ایک محزوف جملہ پر جو مقابلہ کے کے قرینہ سے سمجھا جاتا ہے یعنی” وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِین“تاکہ اطاعت کرنے والے مومنین کا راستہ اور گنہگاروں کا راسہ الگ الگ واضح اور روشن ہوجائے ۔
 
بے جا اصرار اور ہٹ دھرمی اسلام کا ایک عظیم امتیاز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma