قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈراؤ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
طبقاتی تقسیم کے خلاف جنگغیب سے آگاہی

گذشتہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا تھا کہ نابینا اور بینا یکساں نہیں ہےں اور اس کے میں بعد اس آیت میں پیغمبر کو حکم دیا جارہا ہے :قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈراؤ اور بیدرا کرو جو قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں، یعنی کم از کم ان کی آنکھیں انتی ضرور کھلی ہوئی ہیں کہ وہ یہ احتمال رکھتے ہیں کہ حساب وکتاب ہوگا اور اس احتمال کے زیر سایہ اور جوابدہی کے خوف سے قبول کرنے کے لئے آمادگی کریں (وَاٴَنذِرْ بِہِ الَّذِینَ یَخَافُونَ اٴَنْ یُحْشَرُوا إِلَی رَبِّھِمْ) ۔
شاید ہم کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ افراد کی ہدایت کے لئے صرف ایک لائق رہبر اور ایک جامع تربیتی پروگرام ہی کافی نہیں ہے بلکہ خود افراد میں بھی ایک قسم کی آمادگی ضروری ہے ، جیسا کہ آفتاب کی روشنی چاہ سے راہ کو تلاش کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، بلکہ چشم بینا کی بھی ضرورت ہے اور مستعد وآمادہ بیج بھی بار آونہیں ہوسکتا جب تک کہ زمین آمادہ وتیار نہ ہو ۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ”بہ“کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اگر چہ قبل کی آیات میں قرآن کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ہو، لیکن یہ بات قرائن سے واضح ہے ۔
اسی طرح
”یخافون“(ڈرتے ہیں) سے مراد وہی نقصان وضرر کا احتمال ہے کہ جو ہر عقلمند کے ذہن میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انبیاء اور رہبران خدا کی دعوت پر غور کرتا ہے کہ شاید ان کی دعوت حق ہو، اور اس کی مخالفت زیان اور خسارے کا سبب بنے لہٰذا کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ان کی دعوت کا مطالعہ کریں اور ان کے دلائل پر غور کریں ؟۔
یہ ہدایت کی اولین شرائط میں سے ایک ہے، اور یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے علماء عقائدلزوم”دفع ضرر محتمل“ کے عنوان سے مدعی نبوت کی دعوت کے مطالعہ کے وجوب اور خدا کی شناسائی کے بارے میں مطالعہ کے لزوم کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ اس قسم کے بیدار دل افراد اس دن سے ڈرتے ہیں کہ جب سوائے خدا کے اور کوئی پناہ گا ہ اور شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا

 

( لَیْسَ لَھُمْ مِنْ دُونِہِ وَلِیٌّ وَلاَشَفِیعٌ) ۔
ہاں ایسے افراد کو ڈراؤ اور انھیں خدا کی طرف دعوت دو کیوں کہ ان کے بارے میں تقوی اور پرہیزگاری کی امید ہے
( لَعَلَّھُمْ یَتَّقُون) ۔
البتہ اس آیت میں غیر خدا کی ولایت و شفاعت کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی، کیوں کہ جیسا کہ ہم پہلے ارشاد کرچکے ہیں کہ یہاں بالذات شفاعت وولایت کی نفی مراد ہے، یعنی دومقام ذاتی طور پر خدا کے ساتھ مخصوص ہیں، اب اگر اس کا غیر مقام ولایت وشفاعت رکھتا ہے تو وہ اس کے اذن و اجازت اور فرمان کے ساتھ ہے جیسا کہ قرآن صراحت کے ساتھ کہتا ہے:
من ذاالذی یشفع عندہ اِلَّا باذنہ
کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کے حکم کے بغیر شفاعت کرے(سورہٴ بقرہ،۲۵۵) ۔
اس کی مزید توضیح اور شفاعت کی مکمل بحث کے بارے میں تفسیر نمونہ کی جلد اول ،صفحہ ۱۹۸(اردو ترجمہ) اور جلد دوم، صفحہ ۱۵۵(اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۵۲ وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْھَہُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِنْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ۔
۵۳ وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْض لِیَقُولُوا اٴَھَؤُلاَءِ مَنَّ اللَّہُ عَلَیْھِمْ مِنْ بَیْنِنَا اٴَلَیْسَ اللَّہُ بِاٴَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ ۔
ترجمہ
۵۲۔ ان لوگوں کو جو صبح شام خدا کو پکارتے ہیں اور اس کی ذات پاک کے علاوہ کسی پر نگاہ نہیں رکھتے اپنے سے دور نہ کر ۔نہ ان کا حساب تجھ پر ہے اور نہ تیرا حساب ان پر ہے، اگر تو ان کو دھتکارے گا تو ظالموں میں سے ہوجائے گا ۔
۵۳۔ اور اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض کے ساتھ آزمایا ہے (تونگروں کو فقیروں کے ذریعے) تاکہ وہ یہ کہیں کہ کیا یہ ہے وہ جنھیں خدا نے ہمارے درمیان سے (چنا ہے اور) ان پر احسان کیا ہے (اور انھیں نعمت ایمان سے نوازا ہے)تو کیا خدا شکر کرنے والوں کو بہتر طور پر پہچانتا نہیں ہے؟۔

 



شان نزول

 

اوپر والی آیات کی شان نزول میں بہت سے روایات نقل ہوئی ہیں کہ جو سب کی سب ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہیں، منجملہ ان کے ایک وہ ہے جو تفسیر ”در المنثور “ میں اس طرح نقل ہوئی ہے کہ قریش کی ایک جماعت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے پاس سے گزری جب کہ صہیب ، عمار ،بلال اور خباب اور ان ہی جیسے دوسرے فقیر اور مزدور قسم کے مسلمان پیغمبر کی خدمت میں حاضر تھے ،انھوں نے یہ منظر دیکھ کر تعجب کیا( اور چونکہ وہ شخصیت کو مال وثروت اور مقام ومنصب میں منحصر سمجھتے تھے لہٰذا وہ ان مردان بزرگ کے مقام روحانی کی عظمت اور آئندہ کے عظیم اسلامی اور انسانی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں ان کے کار ناموں کے نقوش کو سمجھ نہ سکے )اور کہنے لگے کہ اے محمد ! کیا آپ نے ساری جمعیت میں سے بس ان ہی افراد پر قناعت کرلی ہے؟ کیا یہی ہے وہ کہ جنھیں خدا نے ہمارے درمیان میں سے منتخب کیا ہے؟ کیاہم ان کے پیرو ہوجائیں؟ جتنا جلدی ہو سکے آپ انھیں اپنے سے دور کردیجئے تو شاید ہم آپ کے قرایب آجائیں اور آپ کی پیروی کرلیں،اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور ان کے اس تقاضے اورمطالبے کو شدت کے ساتھ رد کردیا گیا ۔
بعض مفسرین اہل سنت نے اسی جیسی ایک حدیث نقل کی ہے، مثلا”المنار“ کے مولف نے اسی کے مانند روایت کرتے ہوئے مزید اضافہ کیا ہے کہ عمر بن خطاب وہاں حاضر تھے اور انھوں نے پیغمبر اکرم سے یہ تقاضا کیا کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہم ان کے مطالبہ کو مان لیں اور یہ دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیںتو ان پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئی اور ان کے اس تقاضے کو بھی رد کردیا گیا ۔
اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ اس سورہ کی بعض آیات کی شان نزول کا ذکر کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ یہ پوری صورت ایک سورة ایک ہی جگہ نازل ہوئی ہو، کیوں کہ جیسا کہ ہم پہلے بھی ارشا د کرچکے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس سورت کے نزول سے پہلے طرح طرح کے حوادث مختلف فاصلوں میں رونما ہوچکے ہوں اور یہ سورت ان سب حوادث کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہو ۔
اس مقام پر اس نکتہ کاذکر کرنا بھی ضروری نظر آتا ہے کہ کچھ روایات میں یہ نقل ہوا ہے کہ جس وقت پیغمبر نے ان کی پیش کش قبول نہ کی تو انھوں نے یہ درخواست کی کہ اشراف قریش اور فقیر صحابہ کے درمیان باری مقرر کرلیں ، یعنی ایک روزان کے لئے اور ایک دن ان کے لئے مقرر کردیںتاکہ وہ اکھٹے میں ایک ہی جلسہ میں نہ بیٹھیں تو پیغمبر اکرم نے (پہلے ) ان کی یہ تجویز قبول کرلی تاکہ شاید یہ بات ان کے ایمان لانے کا ذریعہ بن جائے تو انھوں نے کہا کہ یہ مطلب ایک قرار داد کے عنوان سے تحریر میں لایا جائے پیغمبر نے حضرت علی (علیه السلام) کو مذکورہ قرار داد لکھنے پر مامور ہی کیا تھا کہ اوپر والی آیت نازل ہوئی اور اس کام سے روک دیا گیا ۔
لیکن یہ روایت علاوہ اس کے کہ تعلیمات اسلامی کی روح کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور آپ نے کبھی اس قسم کے امتیازی سلوک کی طرف جھکاؤ کا مظاہرنہیں کیا بلکہ ہر جگہ معاشرہ اسلامی کی وحدت کی بات کی ہے، قبل کی آیت ساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتی جس میں کہا گیا ہے” ان اتبع الا مایوحی الی“(میں تو صرف وحی الہی کی پیروی کرتا ہوں)، یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر نے وحی کا انتظار کئے بغیر اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا ہو ۔ علاوہ ازیں ”لا تطرد“کا جملہ جو زیر بحث آیت کی ابتدا میں ہے اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ان کا مطالبہ اصحاب پیغمبر کے اس گروہ کو مطلقا ہمیشہ کے لئے اپنے سے دور کرنے کے لئے تھا نہ کہ نبوت اور باری مقرر کرنے کا مطالبہ تھا، کیوں کہ”تناوب“ اور ”طرد“ میں بہت فرق ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شان نزول وہی ہے جو ہم ابتدا میں بیان کرچکے ہیں ۔

طبقاتی تقسیم کے خلاف جنگغیب سے آگاہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma