سب سے بڑا گواہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
سب سے بڑا ظلم پروردگار کی قدرت قاہرہ

سب سے بڑا گواہ

جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ مشرکین مکہ کا ایک گروہ پیغمبر اکرم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تو کیسا پیغمبر ہے کہ تیرا کوئی بھی موافق اور حامی نہیں ،یہاں تک کہ ہم نے یہود ونصاریٰ سے بھی تیرے بارے میں تحقیق کی ہے، وہ بھی توریت وانجیل کی بنیاد پر تیری حقانیت کی گواہی نہیں دیتے کم از کم کوئی تم ہمیں کہ جو تمھاری ررسالت کی گواہی دے ۔مندرجہ بالا آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔
پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ ان سب ہٹ دھرم مخالفین کے مقابلے میں کہ جنھوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور آپ کی حقانیت کی ان کی سب نشانیوں کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور پھر بھی گواہ اور شاہد کا مطالبہ کرتے ہیں ،کہہ دیجئے ،تمھارے عقیدہ اور نظریہ کے مطابق سب سے بڑا گواہ کون ہے

(قُلْ اٴَیُّ شَیْءٍ اٴَکْبَرُ شَھَادَةً ) ۔
کیا اس کے سوا بھی کچھ ہے کہ سب سے بڑی شہادت پروردگار کی شہادت ہے؟ تو کہہ دو کہ خدائے بزرگ وبرتر میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے

(قُلْ اللّٰہُ شَھِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ ) ۔
اور اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ اس نے اس قرآن کو مجھ پر وحی کیاہے(وَاٴُوحِیَ إِلَیَّ ھَذَا الْقُرْآنُ)
وہ قرآن جو ممکن نہیں ہے کہ فکر انسانی کا گھڑا ہوا ہو، وہ بھی اس زمانے اور اس ماحول میں اور مقام میں، وہ قرآن کہ جو کئے قسم کے شواہد اعجاز پر مشتمل ہے، اس کے الفاظ اعجاز آمیز ہیں اور اس کے معانی اس سے بھی زیادہ اعجاز آمیز ہیں ، کیا یہی ایک عظیم شاہدخدا وند عالم کی طرف سے میری دعوت کی حقانیت کی گواہی کی دلیل نہیں ہے؟۔
ضمنی طور پر اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سب سے بڑا معجزہ ہے اور پیغمبر اکرم کے دعوے کی صداقت کا سب سے بڑا گواہ ہے ۔
اس کے بعد نزول قرآن کا ہدف ومقصد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ قرآن اس مقصد کے لئے مجھ پر نازل ہوا ہے کہ میں تمھیں اور ان تمام لوگوں کو جن کے کانوں تک پوری تاریخ بشر میں اور وسعت زمانے میں اور تمام نقاط جہان میں ،میری باتیں پہنچیں انھیں خدا کے حکم کی مخالفت سے ڈراؤں اور اس کی مخالفت کے دردناک عواقب وانجام کی طرف متوجہ کروں( لِاٴُنذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغ) ۔
اگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں گفتگو صرف ”انذار“ اورڈرانے کے بارے میں ہے حالانکہ عام طور پر ہر جگہ بشارت بھی ساتھ ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گفتگو ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے مقابلہ میں تھی جو مخالفت پر اصرار کرتے رہے ہیں ۔
ضمنی طور پر ”ومن بلغ “ (وہ تمام لوگ کہ جن تک یہ بات پہنچ جائے) کے الفاظ کا ذکر قرآن کی رسالت جہانی اور دعوت عمومی اور پیام عالمی کا پتہ دیتا ہے
حقیقت میں اس سے زیادہ مختصر اور اس سے زیادہ جامع تعبیر اس مقصد کے ادا کرنے کے لئے اور متصور ہو یہ نہیں سکتی، اس کی وسعت میں غور کرنے سے قرآن کی دعوت کے نسل عرب یا خاص زمانے یا علاقے سے مخصوص نہ ہونے کے بارے میں ہر قسم کا ابہام اور شک وشبہ دور ہوجاتا ہے علماء کے ایک گروہ نے ایسی تعبیرات سے مسئلہ ختم نبوت کے لئے بھی استفادہ کیا ہے، کیوںکہ اوپروالی تعبیر کے مطابق پیغمبر ان تمام لوگوں پر مبعوث تھے کہ جن تک آپ کی باتیں پہنچتی ہیں اور یہ ان تمام افراد کے لئے ہے کہ جو اس جہاں کے آخر تک اس دنیا می قدم رکھیں گے ۔
اہل بیت علیہم السلام کے طریق سے منقول احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابلاغ و تبلیغ قرآن سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ان کامتعین دوسری اقوام تک پہنچے حتی کہ اس کے ترجموں اور مفاہیم کا دوسری زبانوں میں پہنچانا بھی آیت کے معنی میں داخل ہے ۔
ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) سے اوپر والی آیت کے بارے میں سوال ہوا تو حضرت (علیه السلام) نے فرمایا:
”بکل لسان“(۱)
یعنی ہر زبان میں ہو ۔
ضمنی طور پر مسئلہ اصول فقہ کے قوانین میں سے ایک قاعدہ ”قبح عقاب بلا بیان“ ہے وہ بھی اوپر والی آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔
اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اصول فقہ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب تک کوئی حکم کسی شخص تک نہ پہنچے وہ شخص اس حکم کے لئے جواب دہ نہیں ہوسکتا( مگر یہ کہ حکم حاصل کرنے میں اس نے خود کوتاہی کی ہو) مندرجہ بالا آیت بھی یہی کہتی ہے کہ وہ لوگ کہ جن تک میری بات پہنچ جائے وہ اس کے لئے جوابدہ ہے اور اس طرح سے وہ لوگ کہ جنھیں احکام کے اصول میں کوتاہی نہ کرنے کے باوجود اصل حکم نہ پہنچا ہو کوئی مسوٴلیت نہیں رکھتے ۔
تفسیر”المنار“ میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے اس طرح نقل ہوا ہے :
قیدیوں کا ایک گروہ آپ کے پاس لایا گیا، حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے تمھیں اسلام کی دعوت دی تھی؟ انھوں نے کہا کہ نہیں! آپ نے حکم دیا کہ انھیں رہاکردو، اس کے بعد آپ نے اوپر والی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی جگہ پر واپس چلے جائیں انھیں حقیقت اسلام کی تبلیغ نہیں ہوئی اور اس کی طرف انھیں دعوت نہیں دی گئی (۲)
نیز اس اایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ”شیٴ“ کا اطلاق کے جو فارسی کے لفظ ”چیز“ کا ہم معنی ہے، خدا پر کرنا جائز ہے لیکن وہ ایسی چیز ہے کہ دوسری چیزوں کے مانند نہیں ہے کہ جو مخلوق محدودہیں بلکہ وہ خالق ونامحدود ہے ۔
پھر اس کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ ان سے پوچھو”کیا واقعا تم گواہی دیتے ہو کہ خدا کے ساتھ اور خدا بھی ہیں؟(اٴَئِنَّکُمْ لَتَشْھَدُونَ اٴَنَّ مَعَ اللّٰہِ آلِھَةً اٴُخْرَی)اس کے بعد کہتا ہے کہ انھیں صراحت کے ساتھ کہہ دو کہ میں کبھی ایسی گواہی نہیں دیتا، کہہ دو کہ وہ خدا یکتا ویگانہ ہے اور جنھیں تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے بری وبیزار ہوں( قُلْ لاَاٴَشْھَدُ قُلْ إِنَّمَا ھُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ) ۔
در حقیقت آیت کے آخر میں ان چند جملوں کا ذکر ایک نفسیاتی نکتے کے لئے کیا گیا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ مشرکین اس قسم کا تصور کرلیں کہ شاید ان کی گفتگو نے روح پیغمبر میں کچھ تزلزل پیدا کردیا ہواور وہ یہ امید لئے ہوئے مجلس سے جدا ہوں اور اپنے دوستوں کو بشارت دیں کہ شاید محمد اس کے بعد اپنی دعوت میں نظر ثانی کرلیں یہ جملے کہ جو صراحت اور قاطعیت سے سرشار ہیں اس امید کو کلی طور پر نا امیدی میں بدل رہے ہیں اور انھیں نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بات ان کے خیال وگمان سے بالکل باہر ہے اور معمولی سے معمولی تزلزل بھی آپ کی دعوت میں پیدا نہیں ہوگا اور تجربہ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کسی بحث کے آخر میں اس قسم کے قطعی الفاظ کا ذکر آخری نتیجے تک پہنچنے کے لئے گہرا اثر رکھتا ہے ۔
اور اس آیت کے بعد والی آیت میں ان لوگوں کو کہ جو اس بات کے مدعی تھے کہ اہل کتاب کسی قسم کی گواہی پیغمبر اسلام کے بارے میں نہیں دیتے صراحت کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: وہ لوگ کہ جن پر ہم نے کتاب نازل کی ہے وہ پیغمبر کو خوب اچھی طرح پہچانتے ہیں بالکل اسی طرح سے جس طرح سے کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں ( الَّذِینَ آتَیْنَاھُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَائَھُمْ) ۔
یعنی وہ نہ صرف پیغمبر کے اصل ظہور اور اس کی دعوت سے آگاہ ہیں بلکہ وہ تو اس کی جزئےات و خصوصیات اور دقیق نشانیوں کو بھی جانتے ہیں ،اس بنا پر کچھ اہل مکہ کہتے تھے کہ ہم نے اہل کتاب کی طرف رجوع کیا ہے لیکن انھیں بھی پیغمبر کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے ، تو یا تو واقعا وہ جھوٹ بولتے تھے اور انھوں نے (اہل کتاب سے) تحقیق ہی نہیں کی تھی، اور یا پھر اہل کتاب نے حقائق کو چھپا لیا اور ان کے سامنے بیان نہ کیا، جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات ان کے حق کو پوشیدہ رکھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
اس بات کی بیشتر وضاحت تفسیر نمونہ کی جلد اول میں سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں گزر چکی ہے( دیکھئے اردو ترجمہ صفحہ ۳۶۰) ۔
آیت کے آخر میں ایک آخری نتیجہ کے طور پر بتا تا ہے ،صرف وہی لوگ اس پیغمبر پر (ان واضح نشانیوں کے باوجود) ایمان نہیں لاتے کہ جو زندگی کے بازار تجارت میں اپنا سب کچھ گوا بیٹھے ہیں اور اپنے وجود کی تمام پونجی ہرا بیٹھے ہیں( الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ فَھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ )
۲۱ وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اٴَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ إِنَّہُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ۔
۲۲وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا اٴَیْنَ شُرَکَاؤُکُمْ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ۔
۲۳ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ ۔
۲۴انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلَی اٴَنفُسِھِمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ۔
ترجمہ
۲۱۔ اس شخص سے زیادہ وہ اور کون ظالم ہوگا کہ جس نے خدا پر جھوٹ باندھا (اور اس کے لئے شریک قائل ہوا) یا اس کی آیات کو جھٹلایا، یقینا ظالم نجات کا منہ نہ دیکھ پائیں گے ۔
۲۲۔ وہ دن کہ جس میں ہم ان سب کو محشور کریں گے تو مشرکین سے کہیں گے کہ تمھارے وہ معبود کہاں ہیں کہ جنھیں تم خدا کا شریک خیال کیا کرتے تھے( وہ تمھاری مدد کو کیوں نہیں آتے) ۔
۲۳۔ پھر ان کا جواب اور عذر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ کہیں گے کہ اس خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم مشرک نہیں تھے ۔
۲۴۔ دیکھو وہ کس طرح خود اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور جسے جھوٹ موٹ خدا کا شریک سمجھتے تھے اسے چھوڑ بیٹھیں گے ۔


۱۔ تفسیر برہان، نورالثقلین جلد ۱، صفحہ ۷۰۷ آیہ ”ہذا“ کے ذیل میں ۔
۲۔المنار ،جلد ۷، صفحہ ۳۴۱۔
سب سے بڑا ظلم پروردگار کی قدرت قاہرہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma