بہانہ تراشیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ،ہٹ دھرمی کا آخری درجہ

بہانہ تراشیاں

کفر اور انکار کے اسباب میں سے ایک اور سبب بہانہ جوئی ہے ، اگر چہ بہانہ جوئی کی علامت بھی دوسرے عوامل مثلا تکبر وخود خواہی وغیرہ ہی ہے، لیکن یہ آہستہ آہستہ ایک منفی فکر کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور یہ خود حق کے مقابلہ میں سرتسلیم خم نہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے ۔
ان بہانہ تراشیوں میں سے کہ جو مشرکین پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مقابلہ میں کیا کرتے تھے اور قرآن مجید کی کئی آیات میں ان کی طرف اشارہ بھی ہوا ہے اور زیر بحث آیت میں بھی ان کا بیان ہوا ہے ،ایک یہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ پیغمبر اتنے عظیم کام کو اکیلے ہی اپنے ہاتھ میں کیوں لے لیا ہے ،اس ماموریت میں کوئی اور موجود ،جو نوع بشر میں سے نہ ہو بلکہ فرشتوں کی جنس سے ہو، ان کی ہمراہی کیوں نہیں کرتا، کیا ایسا نسان کہ جو ہماری ہی جنس سے ہو تنہا بار رسالت کا اپنے کندھے پر اٹھا سکتا ہے؟ ( وَقَالُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ اٴَنزَلْنَا مَلَکًا) ۔
حالانکہ آپ کی نبوت کے ثبوت میں واضح نشانیوں اور روشن دلائل کے ہوتے ہوئے ان بہانہ تراشیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، علاوہ ازیں نہ تو فرشتہ انسان سے زیادہ قدرت رکھتا ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ رسالت کے لئے استعداد بلکہ انسان اس سے کئی درجے زیادہ اہل ہے، قرآن دو جملوں کے ساتھ کہ جن میں سے ہرایک اپنے اندر ایک استدلال رکھتا ہے انھیں جواب دیتا ہے ۔
پہلا یہ کہ اگر فرشتہ نازل ہوجائے اور پھر وہ ایمان نہ لائےں،تو ان سب کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا( ٌ وَلَوْ اٴَنزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ ثُمَّ لاَیُنظَرُون) ۔
لیکن یہ بات کہ فرشتے کے آنے اور اس کی پیغمبر کی ہمراہی سے منکرین کیوں موت اور ہلاکت میں گرفتار ہوں گے، اس کی دلیل وہی ہے کہ جس کی طرف قبل کی چند آیات میں اشارہ ہوچکا ہے کہ اگر نبوت کا محسوس طور پر مشاہدہ ہوجائے، یعنی فرشتے کے آنے سے غیب شہود میں بدل جائے اور تمام چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو پھر تو اتمام حجت کا آخری مرحلہ بھی پورا ہوجائے گا کیوںکہ اس سے بڑھ کر اور کسی دلیل کا تصور ہو ہی نہیں سکتا، تو ان حالات میں اگر کوئی مخالفت کرے گا تو اس کی سزا اور عذاب یقینی ہوجائے گا ۔
لیکن خدوند تعالیٰ انپے لطف مرحمت کی وجہ سے اور اس غرض سے ان کے پاس نظر ثانی کے لئے موقع باقی رہے یہ کام نہیں کرتا، مگر خاص موقع پر کہ جہاں وہ یہ جانتا ہے کہ مدمقابل اسے قبول کرنے کی مکمل استعداد رکھتا ہے یا ایسے موقع پر جہاں جانب مخالف نابود ہونے کا مستحق ہے، یعنی اس نے ایسے عمل انجام دئے ہوں کہ وہ خدائی سزا کا مستحق بن گیا ہو، تو اس موقع پر اس کے تقاضے کے مطابق ترتیب اثر دیا جاتا ہے، اور جب وہ قبول نہیں کرتا تو اس کی نابودی کا حکم صادر ہوجاتا ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مقام رہبری اور لوگوں کی تربیت کے ذمہ دار ہونے اور ان کے لئے عملی نمونہ پیش کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ لازما نوع بشر میں سے ہوں اور ان کے ہمرنگ اور ہم صفات ہوں اور تمام غرائض وصفات انسانی ان میں موجود ہوں کیوں کہ فرشتہ، علاوہ اس کے کہ وہ انسان کے لئے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ انسان کے لئے نمونہ عمل بن سکے کیونکہ نہ وہ انسان کی ضروریات اور تکالیف سے آگاہ ہے اور نہ ہی وہ اس کے غرائض وخواہشات سے آشنا ہے ، اسی دلیل سے اس کی رہبری ایسے موجود کے لئے کہ جو ہر لحاظ سے اس سے مختلف ہے بالکل ناکارہ ہوگی۔
لہٰذا قرآن دوسرے جواب میں کہتا ہے: اگر ہم اسے فرشتہ قرار دیتے اور ان کے مطالبے پر عمل کرتے تو پھر بھی ہمارے لئے یہ لازم تھا کہ ہم انسان کی تمام صفات کو اس میں پیدا کرتے اور اسے صورت و سیرت میںمرد بناتے ( وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا)(۱)
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ” لجعلناہ رجلا“ سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ہم اسے صرف انسانی شکل دیں گے، جیسا کہ بعض مفسرین نے خیال کرلیا ہے، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اسے ظاہر وباطن کے لحاظ سے صفت انسانی سے متصف کریں گے ۔
اس کے بعد اس کا نتیجہ پیش کرتا ہے کہ اس حالت میں وہ ہم پر پھر انھیں سابقہ اعتراضات کو دہراتے کہ کسی انسان کو رہبر کے طور پر کیوں مامور کیا گیا اور حقیقت کو ہم پر پوشیدہ رکھا ہے( وَلَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَا یَلْبِسُونَ) ۔
”لبس“ (بروزن ”درس“)پردہ پوشی اور اشتباہ کاری کے معنی میں ہے اور”لبس“(بروزن قفل) لباس پہننے کے معنی میں ہے پہلے کے ماضی لبس (بروزن ضرب )ہے اور دوسرے کی ماضی لبس(بروزن حسب ہے) اور یہ بات واضح ہے کہ پہلا والا مفہوم یعنی اگر ہم فرشتہ کو بھیجتے تو ضروری تھا کہ وہ انسانی صورت وسیرت میں ہو، اس حالت میں ان کے عقیدے کے مطابق ہم نے لوگوں کو اشتباہ اور خطا میں ڈالا ہوتا اور پھر وہ ہمارے لئے انھیں سابقہ نسبتوں کو دہراتے جس طرح کہ وہ خود نادان اور بے خبر لوگوں کو اشتباہ اور خطا میں ڈالتے ہیں اور حقیقت کا چہرہ ان سے چھپاتے ہیں، اس بنا پر ”لبس“اور پردہ پوشی کی خدا کی طرف نسبت ان کے زاویہٴ نگاہ سے ہے ۔
آخر میں خداوند تعالیٰ پیغمبر کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: ان کی مخالفت، ہٹ دھرمی اور سخت گیری سے پریشان نہ ہو کیوں کہ آپ سے پہلے کہ پیغبروں میں سے بھی بہت سے پیغمبر وں کا مذاق اڑایا گیا، لیکن آخر کا رجس چیز کا وہ تمسخر کیا کرتے تھے اسی نے ان کے دامن کو پکڑ لیا اور ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا( وَلَقَدْ اسْتُھْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْھُمْ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَھْزِئُون)
در حقیقت یہ آیت پیغمبر کے دل کی تسلی کا سبب بھی ہے کہ اس کی راہ میں ذرا سا تزلزل بھی ان کے ارادہ میں نہ آئے اور ہٹ دھرم مخالفین کے لئے دھمکی بھی ہے کہ وہ اپنے کام کے برے اور دردناک انجام کا سوچ لیں(2)
۱۱ قُلْ سِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِینَ۔
ترجمہ
۱۱۔ (اے رسول ) کہہ دو کہ تم زمین میں چلو پھرو، اس کے بعد (دیکھو اور) غور کرو جو لوگ آیات خدا وندی کو جھٹلاتے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟۔


۱۔ ”جعلناہ“ کی ضمیر پیغمبر کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے، اور اس کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے کہ جو پیغمبر کے ساتھ اس کی نبوت کو مستحکم کرنے کے لئے مبعوث ہو، دوسری صورت میں تو ان کے مطالبے پر عمل ہوگا اور پہلی صورت میں ان کے مطالبے سے بھی بڑھ کر صورت ہوگی۔
2۔ اس بات پر توجہ رکھنی چاہےے کہ لفظ”حاق“ کا معنی نازل ہو اور ”وارد ہوا“ ہے اور مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَھْزِئُونسے مراد انبیاء کا عذاب الٰہی کی خبر دینا ہے، کہ جنھیں ہٹ دھرم ،دشمن ٹھٹھے میں اڑا دیا کرتے تھے مثلا حضرت نوح (علیه السلام) کا بار بار طوفان کی دھمکی دینا کہ جو بت پرست قوم کے لئے ایک مذاق کا ذریعہ بن گی تھا، اس بنا پر آیت میں کلمہ ”جزاء“ مقدر ماننے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بعض نے کہا ہے، بلکہ اس کا معنی اس طرح ہے جن سزا ؤں کا وہ مذاق اڑا تے تھے وہ ان پر نازل ہوگئیں ۔

 

 

وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ،ہٹ دھرمی کا آخری درجہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma