ایک سوال کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق ہر شخص اپنے کام کا جواب دہ ہے

اس آیت کے بارے میں بہت زیادہ آوازیں بلند ہوئی ہیں، بعض نے یہ خیال کرلیا ہے کہ اس آیت کے درمیان اور ”امربمعروف“، ”و نہی از منکر“ کے حکم کے درمیان کہ جو اسلام کا ایک قطعی اور مسلّم حکم ہے ایک قسم کا تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ آیت کہتی ہے کہ تم اپنے حالات کی طرف توجہ کرو (اور اپنے ہی متعلق سوچ بچار کرو اور اپنی حالت میں مگن رہو) دوسروں کا انحراف اور کجروی تمھاری حالت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔
اتفاقاًروایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا اشتباہ آیت کے نزول کے زمانے میں بھی بعض کم علم لوگوں میں پایا جاتا تھا ۔
”جبیر ابن نفیل“ کہتے ہیں:
میں چند اصحاب پیغمبر کے حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا اور میں اُن میں سب سے زیادہ کم سن تھا ۔ اُنہوں نے امربمعروف اور نہی از منکر کے متعلق گفتگو شروع کردی، میں ان کی باتوں کے درمیان بول پڑا اور میں نے کہا کہ کیا خدا قرآن میں یہ نہیں کہتا:
(یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ اٴَنفُسَکُمْ لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اھْتَدَیْتُم) اس بناپر امر بمعروف اور نہی از منکر کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ اچانک اُن سب نے مجھے سرزنش کی اور کہنے لگے: تم قرآن کی ایک آیت کو اس کا معنی سمجھے بغیر الگ کررہے ہو ۔ میں اپنی گفتگو سے بہت ہی شرمندہ ہوااور انھوںنے اپنا مباحثہ جاری رکھا، جب وہ وہاں سے مجلس برخاست کرکے اُٹھنے لگے تومیری طرف رخ کرکے کہنے لگے: تُو کمسن جوان ہے اور تم نے قرآن کی ایک آیت کو اس کا معنی سمجھے بغیر اُسے باقی سے الگ کرلیا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ تم ایسے زمانے کوپاؤ کہ تم یہ دیکھو کہ بخل لوگوں پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اس کی فرمانروائی ہے، ہواہوس لوگوں کا پیشوا ہے اور ہر شخص صرف اپنی ہی رائے پسند کرتا ہے، ایسے زمانے میں تم صرف اپنی ہی خیر مناؤ، دوسروں کی گمراہی تمھیں کوئی نقصان نہیں پہچائے گی (یعنی آیت ایسے زمانے کے ساتھ مربوط ہے) ۔
ہمارے زمانے کے بعض آرام پرست بھی جب دو عظیم خدائی فرائض امر بمعروف اور نہی از منکر کی انجام دہی کی گفتگوہوتی ہے تو جوابدہی سے اپنے کندھوں کو خالی رکھنے کے لئے اس آیت کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے معنی میں تحریف کرتے ہیں حالانکہ تھوڑے غور وفکر کے بعد یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان دو احکام کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے؛
کیونکہ:
پہلی بات تو یہ ہے کہ محل بحث آیت کہتی ہے کہ ہر شخض کا حساب کتاب الگ الگ ہے اور دوسروں کی گمراہی، مثلاً اپنے گزرے ہوئے بزرگوں یا غیروں کی گمراہی ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت پر کوئی ضرب نہیں لگاتی، یہاں تک کہ اگر وہ بھائی بھائی بھی ہوں، یا باپ بیٹا ہوں لہٰذا تم ان لوگوں کی پیروی نہ کرو اور خود اپنے آپ کو بچاؤ(غور کیجئے) ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ آیت اس موقع کی طرف اشارہ کرتی ہے جس وقت امربمعروف اور نہی از منکر کارگر نہ ہوں، یا ان کی تاثیر کے حالات موجود نہ ہوں، بعض اوقات کچھ لوگ ایسے موقع پر پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان حالات میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ تمھارے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ تم نے اپنے فرض کی انجام دہی کردی ہے اور انھوں نے قبول نہیں کیا، یا ان میں قبول کرنے والوںکی اہلیت اور اسباب موجود نہیں تھے، اس بناپر کوئی نقصان تمھیں نہیں پہنچے گا ۔
یہی مفہوم اُس حدیث میں جو ہم اُوپر نقل کرچکے ہیں موجود ہے، اسی طرح بعض دوسری احادیث میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم سے اس آیت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
”اٴ یتمروا بالمعروف وتناہو عن المنکر فاذا راٴیت دنیاً موٴثرة وشحاً مطاعاً وہوی متبعاً واعجاب کل راٴی برایہ فعلیک بخویصة نفسک وذر عوامہم“
”امر بمعروف ونہی از منکر کرو، لیکن جب دیکھو کہ لوگ دنیا پسند کو ترجیح دیتے اور مقدم سمجھتے ہیں، بخل اور ہواوہوس ان پر حکمران ہے اور ہر شخص صرف اپنی ہی رائے پسند کرتا ہے(اور ا س کے کان کسی دوسرے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں) تو اپنے آپ میں لگ جاؤ اور لوگوں کو چھوڑدو“(۱)
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ امر بمعروف اور نہی از منکر ارکانِ اسلام میں سے اہم ترین مسئلہ ہے، جس کی جوابدہی سے کسی طرح بھی سبکدوشی ممکن نہیں، صرف ان مواقع پر یہ دونوں فرائض ساقط ہوجاتے ہیں جب ان کے اثرانداز ہونے کی اُمید نہ ہو اور لازمی وضروری شرائط ان میں موجود نہ ہوں(۲)

۱۰۶ یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا شَھَادَةُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ اٴَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إِنْ اٴَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَاٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَھُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلاَةِ فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ إِنْ ارْتَبْتُمْ لاَنَشْتَرِی بِہِ ثَمَنًا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ وَلاَنَکْتُمُ شَھَادَةَ اللهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِینَ
۱۰۷ فَإِنْ عُثِرَ عَلیٰ اٴَنَّھُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَھُمَا مِنْ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمْ الْاٴَوْلَیَانِ فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ لَشَھَادَتُنَا اٴَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ
۱۰۸ ذٰلِکَ اٴَدْنَی اٴَنْ یَاٴْتُوا بِالشَّھَادَةِ عَلیٰ وَجْھِھَا اٴَوْ یَخَافُوا اٴَنْ تُرَدَّ اٴَیْمَانٌ بَعْدَ اٴَیْمَانِھِمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا وَاللهُ لاَیَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ
ترجمہ
۱۰۶۔اے ایمان لانے والو! جب تم سے کسی کی موت کا وقت آجائے تو وصیت کرتے وقت اپنے میں سے دوعادل افرادکو بلالو، اگر تم سفرمیں ہو اور تمھیں موت آپہنچے(اور راستے میں تمھیں کوئی مسلمان نہ ملے)تو اغیار میں سے دوفرد، اور اگر شہادت ادا کرتے وقت ان کے سچے ہونے میں شک کرو تو انھیں نماز کے بعد روک رکھو تاکہ وہ یہ قسم کھائیں کہ ہم حق کو کسی چیز کے بدلے فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اگر چہ ہمارے رشتہ داروں کے بارے میں ہو اور ہم خدائی شہادت کو نہیں چھپاتے کہ مبادا ہم گنہگاروں میں سے ہوجائیں ۔
۱۰۷۔اور اگر اطلاع حاصل ہوجائے کہ وہ دونوں گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں( اور انہوں نے حق کو چھپایا ہے) تو دو اور افراد کہ جن پر پہلے گواہوں نے ظلم کیا ہے ان کی جگہ قرار پائیں گے اور خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی کی نسبت حق کے زیادہ قریب ہے اور ہم تجاوز و زیارتی کے مرتکب نہیں ہوئے اور اگر ہم نے ایسا کیا ہو تو ہم ظالمین میں سے ہوں گے ۔
۱۰۸۔یہ کام زیادہ سبب بنے گا کہ وہ حق کی گواہی دیں( اور خدا سے ڈریں) اور یا( لوگوں سے )ڈریںکہ (ان کا جھوٹ فاش ہوجائے گا اور) ان کی قسموں کی جگہ دوسروں قسمیں لے لیں گی اور خدا (کی مخالفت) سے ڈرو اور کان دھر کر بات سنو اور خدا فاسقین کی ہدایت نہیں کرتا ۔

 

شان نزول

مجمع البیان اور بعض دوسری تفاسیر میں درج بالا آیات کی شان نزول کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ مسلمانوں میں سے ”ابن ابی ماریہ“ نامی ایک شخص دو عرب عیسائیوں کی ہمراہی میں جن کے نام ”تمیم“ اور ”عدی“ تھے اور وہ دونوں بھائی تھے، تجارت کے ارادے سے مدینہ سے نکلا ۔ اثنائے راہ میں ”ابن ابی ماریہ“ جو مسلمان تھا بیمار ہوگیا اس نے وصیت نامہ لکھا اور اُسے اپنے سامان میں چھپا دیا اور اپنا مال اپنے دو ہمسفر عیسائیوں کے سپرد کرتے ہوئے وصیت کی کہ وہ اسے اس کے رشتہ داروں تک پہنچادیں وہ مرگیا ۔ اُس کے ہمسفر دونوں افراد نے اس کا مال و اسباب کھولا اور اس میں سے گراں قیمت اور زیادہ اہم چیزیں اٹھالیں اور باقی مال وارثوں کو پہنچادیا ۔ وارثوں نے جب سامان کھولا تو انھیں اس میں اُن چیزوں میں سے جو ”ابن ابی ماریہ“ اپنے ساتھ لے گیا تھا، کچھ چیزیں نہ ملیں ۔ اچانک اُن کی نظر وصیت نامے پر پڑی ۔ انہوں نے دیکھا کہ تمام چوری شدہ مال کی تفصیل اس میں درج ہے ۔ انہوں نے اُن دو ہمسفر عیسائیوں کے سامنے ماجرا پیش کیا ۔ انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ اُس نے ہمیں دیا وہ ہم نے تمھارے سپرد کردیا ۔ مجبوراً انہوں نے پیغمبر سے شکایت کی توزیر نظر آیات نازل ہوئیں جن میں اس سلسلے میں حکم بیان کیا گیا ۔
لیکن اس شان نزول سے کہ جو کتاب کافی میں بیان ہوئی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے تو دوسرے مال و متاع کا انکار کیا اور معاملہ پیغمبر کی خدمت میں لایا گیا ۔ پیغمبر کے پاس چونکہ ان دو افراد کے خلاف کوئی دلیل موجود نہیں تھی تو اُنھیں قسم کھانے پر آمادہ کیا اور اُن سے قسم لینے کے بعد اُنھیں بَری کردیا، لیکن کچھ وقت نہیں گزرا تھا کہ اُن دونوں آدمیوں کے پاس سے مالِ متنازعہ میں سے کچھ مال مل گیا اور اس طرح سے اُن کا جھوٹ ثابت ہوگیا، ماجرا پیغمبر کی خدمت میں عرض کیا گیا، پیغمبر انتظار میں ہی تھے کہ درج بالا آیات نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ مرنے والے کے ورثا قسم کھائیں اور پھر آپ نے مال لے کر ان کے سپُرد کردیا ۔


۱۔تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۶۸۴-
۲۔اس سلسلے میں تفصیلی اسلامی احکام جاننے کے لئے امام خمینیۺ کی توضیح المسائل کے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے باب کی طرف رجوع فرمائیں، نیز دیگر متعلق اسلامی کتب کا مطالعہ کریں(مترجم) ۔

 

اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق ہر شخص اپنے کام کا جواب دہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma