حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
(لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داوٴد و عیسی ابن مریم)۔ مسیح اور تثلیت

اس بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں حضرت مسیح کے بارے میں عیسائیوں کے غلو اور ان کی الوہیت کے اعتقاد سے متعلق گزری ہیں ان آیات میں واضح دلائل سے چند مختصر جملوں میں ان کے اس عقیدے کو باطل کرتا ہے ۔
پہلے کہتا ہے کہ مسیح اور باقی انبیاء کے درمیان کیا فرق ہے کہ جس کی وجہ سے تم مسیح کی الو ہیت کا عقیدہ رکھتے ہو۔ مسیح ابن مریم بھی خدا کے ایک رسول ہی تھے اور اُن سے پہلے بھی خدا کی طرف سے رسول اور اس کے دیگر فرستادگان آتے رہے ہیں
(ما المسیح ابن مریم الارسول قد خلت من قبلہ الرسل )۔
اگر خدا کی طرف سے رسول ہونا الوہیت اور شرک کی دلیل ہے تو پھر باقی انبیاء کے متعلق بھی اسی چیز کے قائل کیوں نہیں ہوتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کجرو و عیسائی ہر گز اس بات پر قانع نہیں ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں بلکہ ان کا عام عقیدہ کہ جس پر وہ فعلاً قائم ہیں یہ ہے کہ وہ انھیں خدا کا بیٹا اور ایک معنی میں خود خدا سمجھتے ہیں کہ جو بشریت کے گناہوں کو خرید نے کے لئے (نہ کہ ان کی ہدایت و رہبری کے لیے) آیا ہے ۔ اسی لئے وہ اس کو ”فادی“ (نوع بشر کے گناہوں کا فدیہ ہونے والا) کا لقب دیتے ہیں ۔
اس کے بعد اس بات کی تائید کے لئے ارشاد ہوتا ہے: اس کی ماں بہت ہی سچی خاتون تھیں
(وَاُمّہ صدیقة)۔
بہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اولاً تو وہ شخص کہ جس کی کوئی ماں ہے اور وہ ایک عورت کے شکم میں پرورش پاتا ہے اور بہت سی حوائج و ضروریات رکھتا ہے وہ کس طرح خدا ہوسکتا ہے؛ اور دوسرے یہ کہ اگر اس کی ماں قابلِ احترام ہے تو وہ اس بناپر ہے کہ وہ بھی مسیح کی رسالت کے دوران اُن سے ہم آہنگ تھیں اور کار رسالت میں ان کی مددگار تھیں تو اس طرح سے وہ بھی خدا کی ایک خاص بندہ ہی تھیں لہٰذا ان کی ایک معبود کی طرح سے عبادت و پرستش نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ عیسائیوں میں رائج ہے کہ وہ اُن کے مجسمہ کے سامنے عبادت و پرستش کی حد تک خضوع کرتے ہیں ۔
اس کے بعد عیسیٰ  کی ربوبیت کی نفی کی ایک اور دلیل کی طرف اشارہ کرتے فرمایا: وہ اور ان کی ماں دونوں کھانا کھاتے تھے
(کانا یاٴ کلان الطعام ) تو جو شخص اتنا محتاج ہے کہ اگر چند دن اُسے کھانا نہ ملے تو اُس میں چلنے پھر نے کی بھی طاقت نہ رہے وہ کس طرح سے پروردگار یا خدا کے ہم پلہ ہوسکتا ہے ۔
آیت کے آخر میں ایک طرف تو اُن دلائل کے واضح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف ان واضح و آشکار دلائل کے مقابلہ میں ان کی ہٹ دھرمی ، سختی اور نادانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ذرا دیکھو تو سہی کہ ہم کس طرح ان دلائل کو وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
(انظر کیف نبین لھم الاٰیات ثم انظرانّٰی یوٴفکون)۔(۱)
بنابرین ان دوجملوں میں
”انظر“کی تکرار اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک طرف تو ان روشن و واضح دلائل پر غور کرو کہ جو ہر شخص کی توجہ کے لئے کافی ہیں اور دوسری طرف اُن کے حیرت انگیز اور منفی عکس العمل پر نظر کرو کہ جوہر شخص کے لئے تعجب خیز ہے ۔
بعد والی آیت میں گذشتہ استدلال کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا ہے: تمھیں معلوم ہے کہ مسیح خود سرتا پا احتیاجاتِ بشری رکھتے اور خود اپنے نفع و نقصان پر قادر نہیں تھے چہ جائیکہ وہ تمہارے نفع و نقصان پر قادر نہیں تھے چہ جائیکہ وہ تمہارے نفع و نقصان پر قادر ہوں
(قل اتعبد ون من دون مالا یملک لکم ضرًا ولا نفعاً )۔
اسی بناپر وہ بارہا دشمنوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہوئے ۔ یا ان کے دوست گرفتار ہوئے ۔ اگر لطف خدا ان کے شامل حال نہ ہوتا تو وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے تھے ۔
آخرین اُنہیں اس خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ خبردار کہیں یہ گمان نہ کرلینا کہ خدا تمہاری ناروا باتوں کو سنتا نہیں ہے یا وہ تمہارے باطن سے آگاہ نہیں ہے، خدا سننے والا بھی ہے اور عالم و دانا بھی
(و اللّٰہ ھو السمیع العلیم )۔
یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ مسیح کے بشر ہونے اور ان کی مادّی اور جسمانی ضروریات اور احتیاجات کا مسئلہ کہ جس کا قرآن نے ان آیات اور دوسری آیات میں تذکرہ کیا ہے حضرت عیسیٰ کی خدائی کا دعویٰ کرنے والے عیسائیوں کے لئے بہت بڑی مشکلات میں سے ایک ہے کہ جس کی توجیہ کے لئے وہ بہت ہی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بعض اوقات وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ مشکلات میں سے ایک ہے کہ جس کی توجیہ کے لئے وہ بہت ہی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بعض اوقات وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے لئے جنبوں کے قائل ہوں جنبہ لاہوت اور دوسرے جنبہ ناسوت ۔ جنبہ لاہوت کی نظر سے وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خود خدا ہیں اور ناسوت کی نظر سے جسم اور مخلوقِ خدا ہیں اور اسی قسم کی دوسری توجیہات کہ جوان کی منطق کے ضعف اور نادرستی کی بہترین مظہر ہیں ۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ آیت میں لفظ ”من“ کے بجائے ”ما“ استعمال ہوا ہے جو عام طور پر غیر ذوی العقول موجودات کے لئے ذکر ہوتا ہے یہ تعبیر شاید اسی بناپر ہو کہ باقی معبودوں اور بتوں کو بھی جو پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اس جملہ کی عمومیت میں داخل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اگر مخلوق کی پرستش جائز ہو تو پھر بت پرستوں کی بت پرستی بھی جائز شمار کی جائے ۔ کیونکہ مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں اور مساوی ہیں اور حقیقت میں حضرت مسیح کی الوہیت پر ایمان ایک طرح کی بت پرستی ہیں ہے نہ کہ خدا پرستی ۔
انبیاء کے بارے میں غلو کے سلسلے میں روشن دلائل سے اہلِ کتاب کا اشتباہ واضح ہوجانے کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ اُنہیں دعوت دو کہ وہ اس راستے سے عملی طور پر پلٹ آئیں ۔ فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں غلونہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو اور حق کے علاوہ کوئی بات نہ کہو
(قل یا اھن الکتاب لا تفلوافی دینکم غیر الحق )۔(2)
البتہ عیسائیوں کا غلو تو واضح ہے باقی رہا یہودیوں کا غلو کہ اہلِ کتاب کا خطاب ان کے بارے میں بھی ہے، تو بعید نہیں ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو جو وہ عزیر کے بارے میں کہتے تھے اور اُسے خدا کا بیٹا سمجھتے تھے ۔ چونکہ غلو کا سر چشمہ عموماً گمراہ لوگوں کی ہوا وہوس کی پیروی کرنا ہے اس لئے اس گفتگو کی تکمل کے لئے فرمایا گیا ہے کہ اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ جو تم سے پہلے گمراہ ہوئی اور انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور جو راہ مستقیم سے منحرف ہوگئے
(ولا تتبعوا اھوا ۔ قوم قد ضلوا من قبل و اضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل)۔
یہ جملہ حقیقت میں ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ ہے جو مسیحیت کی تاریخ میں بھی منعکس ہے کہ مسئلہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلو مسیحیت کی ابتدائی صدیوں میں ان کے درمیان وجود نہیں رکھتا تھا بلکہ جب ہندوستان کے بت پر ست اور ان کی مانند دوسرے لوگوں نے دین مسیحیت اختیار کیا تو انھوں نے اپنے سابقہ دین میں سے باقی ماندہ ایک چیز یعنی تثلیثِ شرک کو مسیحیت میں شامل کردیا ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ثابوث ہندی (تین خداؤں، بر ہما فیشنو، سیفا پر ایمان) تاریخی لحاظ سے تثلیث مسیحیت سے پہلے تھا اور در حقیقت یہ اسی کی عکاسی ہے ۔ سورئہ توبہ کی آیت ۳۰ میں بھی یہود و نصاریٰ کے عزیر و عیسیٰ  کے بارے میں غلو کے ذکر کے بعد ہے کہ:
”یضَاھِنُوْنَ قَوٴلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوٴا مِنْ قَبْلُ “
”ان کی باتیں گذشتہ کفار کی باتوں سے مشابہت رکھتی ہیں ۔
اس عبارت میں لفظ
”ضلوا“ اُن کفار کے بارے میں ہے کہ جن سے اہلِ کتال نے غلو کا قتباس کیا تھا اور یہ لفظ دو مرتبہ آیا ہے ۔
ممکن ہے کہ یہ تکرار تاکید کے لئے ہو یا اس بناپر ہو کہ وہ پہلے سے گمراہ تھے ہی لیکن بعد میں اپنی تبلیغات کے ذریعہ انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کردیا تو وہ ایک نئی گمراہی میں جاگرے ۔ کیونکہ جو شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچ لے جائے در حقیقت وہ سب سے زیادہ گمراہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ اُس نے اپنی قوتوں کو خود اپنی اور دوسرے لوگوں کی بدبختی میں تلف کردیا ہے اور دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے دوش پر اٹھالیا ہے ۔ آیا وہ شخص کہ جو سیدھے راستے پر قرار پاچکا ہو کبھی اس بات کے لئے تیار ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے بوچھ کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھائے ۔

۷۸# لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ.
۷۹# کَانُوا لاَیَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ۔
۸۰# تَرَی کَثِیرًا مِنْھُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اٴَنفُسُھُمْ اٴَنْ سَخِطَ اللهُ عَلَیْھِمْ وَفِی الْعَذَابِ ھُمْ خَالِدُونَ۔
ترجمہ
۷۸۔ جو لوگ بنی اسرائیل میں سے کافر ہوگئے ہیں انھیںحضرت داؤد و عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ۔ یہ اس بناپر ہوا کہ وہ گناہ اور تجاوز کرتے تھے ۔
۷۹۔ وہ ان برے اعمال سے جنہیں وہ خود انجام دیتے تھے ایک دوسرے کو منع نہیں کیا کرتے تھے ۔
۸۰۔ تم اُن میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں (اور بت پرستوں) کو دوست رکھتے ہیں (اور اُن سے راہ ورسم بڑھاتے ہیں) انھوں نے کتنے بُرے اعمال اپنے (انجام اور آخرت) کے لئے آگے بھیجے ہیں کہ جن کا نتیجہ خدا کی ناراضگی تھی اور وہ ہمیشہ عذاب (الٰہی) میں رہیں گے ۔

 


۱۔ ”یوفکون“ کا مادہ ”افک “ ہے اور یہ در اصل کسی چیز سے منحرف کرنے کے معنی دیتا ہے اور ”ما فوک “ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے کہ جسے حق سے روک دیا گیا ہو، اگر چہ خود اس کی کوتاہی کی بناپر ایسا ہوا ہو۔ اور چونکہ جھوٹ انسان کو حق سے روک دیتا ہے اس لئے اس کو ”افک “کہا جاتا ہے ۔
2۔ ”لا تغلوا“ کا مادہ ”غلو“ ہے جس کے معنی ہیں حق سے تجاوزکرنا ۔ فرق یہ ہے کہ جب یہ کسی کے مقام و منزلت سے متعلق تجاوز ہو تو غلو کہا جاتا ہے، اگر کسی چیز کے زخ اور قیمت کے بارے میں ہو تو غلاء کہا جاتا ہے اور اگر تیرکے بارہ میں ہو تو غلو بروزن دلو کہتے ہیں جوش مارنے کو غلیان کہتے ہیں اور جو جانور بہت ہی سرکش ہو اُسے غلواء کہتے ہیں، یہ سب اسی مادہ سے ہیں ۔ بعض کا نظریہ یہ ہے کہ غلو افراط کی طرف بھی بولا جاتا ہے اور تفریط کی طرف بھی جبکہ بعض اسے تفریط میں منحصر سمجھتے ہیں اور اس کے نقطہ مقابل کو تقصیر کہتے ہیں ۔


(لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داوٴد و عیسی ابن مریم)۔ مسیح اور تثلیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma