مسیح اور تثلیت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں نبی اسرائیل اور قتل پیامبران

ان مباحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیات میں یہودیوں کے انحرافات سے متعلق گزری ہیں، یہ آیات اور ان سے بعد والی آیات عیسائیوں کے انحرافات کے متعلق بحث کرتی ہیں ۔ سب سے پہلے تو خدا اس آیت میں مسیحیت کے اہم ترین انحراف یعنی مسئلہ الو ہیتِ مسیح اور تثلیت معبود سے بحث کرتے ہوئے کہتا ہے: یقینا جنہوں نے یہ کہا کہ خدا مسیح ابن مریم ہی ہے وہ کافر ہوگئے ہیں ۔
(لقد کفر الذین قالوا ان اللّٰہ ھو المسیح ابن مریم )
اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہوگا کہ ہر جہت سے لامحدود خدا کو ایسی مخلوق کے ساتھ کہ جوہر جہت سے محدود ہے ایک اور متحد سمجھ لیا جائے اور مخلوق کی صفات کو خالق میں قرار دے لیا جائے جبکہ خود مسیح نے صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل سے کہا کہ تم خدائے یگانہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی ۔
(و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدو اللّٰہ ربی و ربکم )
اور اس طرح سے اپنے متعلق ہر قسم کے غلو اور شرک سے نفی کرتے ہوئے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور خود کو خدائے تعالیٰ کی دوسری مخلوقات کی طرح ہی ایک مخلوق کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ ساتھ ہی اس مطلب کی تاکید مزید اور ہر قسم کا شک و شبہ دور کرنے کے لئے مسیح نے مزید کہا کہ ”جو خدا کے لئے کوئی شریک قرار دے اس پر خدانے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے“۔
(انہ من یشرک باللّٰہ فقد حرم اللّٰہ علیہ الجنة و ماٴوٰئہ النار )
پھر مزید تاکید اور اس حقیقت کے اثبات کے لئے کہ شرک و غلو ایک قسم کا کھلم کھلا ظلم ہے اُن سے کہتا ہے کہ ستمگروں اور ظالموں کے لئے کوئی بھی مددگار نہ ہوگا ۔
(وما للظٰلمین من انصار )
جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ تاریخ مسیحیت یہ کہتی ہے کہ تثلیث کا قرن اوّل میں اور خصوصاً حضرت مسیح کے زمانے میں کوئی وجود نہ تھا ۔ یہاں تک کہ موجودہ انجیلوں میں بھی اپنی تمام تر تحریفات کے باوجود تثلیث کے بارے میں ذراسی بات بھی دکھائی نہیں دیتی اور خود مسیحی محققین بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہیں ۔
بنابرین مذکورہ بالا آیت میں حضرت مسیح کی ثابت قدمی و پافشاری اور مسئلہ توحید کے بارے میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ مسیحیت کے موجودہ منابع اور کتب سے بھی ہم آہنگ ہے اور یہ بات قرآن کی عظمت کے دلائل میں سے شمار ہوتی ہے ۔ (۱)
ضمنی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ اس آیت میں جو موضوع زیر بحث ہے وہ مسئلہ غلو اور جناب مسیح کی خدا کے ساتھ وحدت ہے دوسرے لفظوں میں ”توحید در تثلیث“ کا معاملہ زیر نظر ہے لیکن بعد کی آیت میں مسیحیوں کے نقطہ نظر سے ”خداؤں کے تعدّد“ یعنی تثلیث در توحید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے”جنہوں نے یہ کہا کہ خدا تین اقانیم میں سے تیسرا اقنوم (۲) ہے وہ مسلماً کافر ہیں “ (لقد کفر الذین قالوا ان اللّٰہ ثالثة)۔
بہت سے مفسّرین نے مثلاً طبرسی نے” مجمع البیان“ میں شیخ طوسی نے ”تبیان“ میں اور رازی و قرطبی نے اپنی اپنی تفسیروں میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ پہلی آیت تو عیسائیوں کے یعقوبیہ نامی فرقے کے بارے میں ہے جو خدا کو حضرت مسیح کے ساتھ متحد جانتے ہیں لیکن یہ آیت ملکانیہ اور فسطوریہ نامی فرقوں کے بارے میں ہے ۔ یہ لوگ تین خداؤں کے قائل ہیں ۔
لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ اسے مسیحیوں کے بعض فرقوں سے غیر متعلق کہنا حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا چونکہ تثلیث کا کا عقیدہ تو تمام عیسائیوں میں عمومیت رکھتا ہے جیسا کہ خدا کی توحید اور یکتائی کا مسئلہ ہم مسلمانوں کے درمیان قطعی اور مسلم ہے ۔
زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ جہاں وہ خداؤں کو تین مانتے ہیں وہاں وہ اسے یگانہٴ حقیقی بھی مانتے ہیں اور ان کے اعتماد کے مطابق تین حقیقی واحد مل کر ایک حقیقی واحد کو تشکیل دیتے ہیں ۔
مذکورہ بالا دونوں آیات ظاہراً ان دونوں قضیوں کے دو مختلف پہلوؤں کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں ۔
پہلی آیت میں تین خداؤں کی وحدت کے عقیدے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری آیت میں اُن کے تعدد کے عقیدے کی طرف اشارہ ہے اور ان دونوں بیانات کا ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے آنا در حقیقت اُن کے عقیدے کے بطلان کے روشن و واضح دلائل میں سے ہے کہ کس طرح ان کے زخم میں خداوند تعالیٰ کبھی مسیح اور روح القدس کے ساتھ مل کر حقیقتاً ایک ہو جاتاہے اور کبھی حقیقتاً تین چیزیں بن جاتا ہے کیا تین کا ایک کے ساتھ مساوی ہوجانا کوئی معقول بات ہے ۔
جو بات اس حقیقت کی تائید کرتی ہے یہ ہے کہ عیسائیوں میں ایک گروہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا جو تین خداؤں کا قائل نہ ہو۔(3)
پھر قرآن قطعی طور پر ان کے جواب میں کہتا ہے: خدائے یکتا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے”و ما من الٰہ الا الٰہ “ خصوصاً لفظ ”من“کا لفظ ”الہ“ سے پہلے آنا دوسرے معبودوں کی نفی کرتا ہے ۔
دوسری مرتبہ پھر انتہائی سخت اور تاکیدی لب و لہجہ میں اُن کو اس خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے: اگر دواس عقیدے سے دستبردار نہ ہوں گے تو اُن لوگوں کو جو اس کفر پر باقی رہیں گے ضرور دردناک عذاب پہنچے گا (و ان لّم ینتھوا عما یقولون لیمسن الذین کفروا منھم عذاب الیم)۔
”منھم“میں کلمہ ”من“بعض کی نظر میں بیانیہ ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اسے ”بعض“ کے مفہوم میں ہونا چاہیے اورحقیقت میں یہ ایسے اشخاص کی طرف اشارہ ہے جو اپنے کفر و شرک پر اڑے رہے اور قرآن کی دعوت توحید کے بعد بھی صحیح عقیدے کی طرف نہیں پلٹے نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی اور صحیح عقیدہ کی طرف پلٹ آئے ۔
تفسیر” المنار“ میں کتاب ”اظہار الحق“ سے ایک داستان نقل ہوئی ہے کہ جس کا یہاں پر ذکر کرنا غیر مناسب نہیں ہے ۔ اس سے اس بات کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ عیسائیوں کی تثلیث و توحید کتنی نا قابلِ فہم ہے ۔
اس کتاب کا موٴلف کہتا ہے: تین آدمی عیسائی ہوگئے ۔ پادری نے عیسائیت کے ضروری عقائد کہ جن میں سے ایک عقیدہ تثلیث بھی تھاانھیں تعلیم کردیا ۔ ایک دن ایک کٹّر عیسائی عقیدہ رکھنے والا اُس پادری کے پاس آیا اور اُس نے اُن لوگوں کے بارے میں جو نئے نئے عیسائی ہوئے تھے سوال کیا ۔ پادری نے انتہائی خوشی کے عالم میں ان تین افراد کی طرف اشارہ کیا تو اس نے فوراً پوچھا کہ کیا انھوں نے ہمارے ضروری عقائد میں سے کچھ یاد کرلیا ہے ۔ پادری نے بڑی دلیری اور تاکید کے ساتھ کہا: ہاں!ہاں!۔ اس کے بعدنمونے کے طور پر اُن میں سے ایک کو آواز دی تاکہ مہمان کے سامنے اس کی آزمایش کرے ۔ پادری نے کہا تم تثلیث کے بارے میں کیا جانتے ہو؟۔
اس نے جواب میں کہا: آپ نے مجھے یہ بتلایا ہے کہ خداتین ہیں ۔ ایک آسمان میں ہے، دوسرا زمین میں ہے کہ جو مریم کے شکم سے پیدا ہوا ہے ۔ تیسرا خدا کبوتر کی شکل میں دوسرے خدا پر تیس سال کی عمر میں نازل ہوا ۔ پادری کو غصّہ آگیا اور اُس کو باہر نکال دیا ۔ کہنے لگا: اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔ پھر دوسرے شخص کو آوازدی تو اُس نے اس سوال کے جواب میں تثلیث کے بارے میں بتلا یا کہ آپ نے مجھے اس طرح تعلیم دی ہے کہ خدا تین تھے ۔ لیکن اُن میں سے ایک سولی پر چڑھا دیا گیا لہٰذا اب ہمارے پاس صرف دو خدا باقی رہ گئے ہیں ۔ پادری کو اس پر اس سے بھی زیادہ غصّہ آیا اور اسے بھی باہر نکال دیا ۔ اس کے بعد تیسرے آدمی کو جو سب سے زیادہ سمجھدار اور دینی عقائد کو یاد کرنے میں زیادہ کوشش کرنے والا تھا، آوازدی اور وہی مسئلہ اُس نے بڑے ادب اور احترام سے کہا: اے میرے پیشوا جو کچھ آپ نے مجھے تعلیم دی ہے میں نے اسے مکمل طور پر یاد کر لیا ہے اور حضرت مسیح کی برکت سے میں نے اُسے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے ۔ آپ نے کہا ہے کہ خدائے یگانہ سہ گانہ ہے (ایک خداتین ہیں) اور تین خدا ایک ہیں ۔ اُن میں سے ایک کو انھوں نے سولی پر لٹکا دیا اور وہ مرگیا اس بناپر وہ سب کے سب مرگئے کیونکہ وہ باقیوں کے ساتھ متحد اور ایک ہی تھا لہٰذا اس طرح سے اب کوئی خدا باقی نہیں رہا ۔
ان آیات میں سے تیسری آیت میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کفر آمیز عقیدے سے توبہ کرو، یہ دعوت اس لئے ہے تاکہ خدا اپنی عفو و بخشش ان کے شامل حال کردے ۔ لہٰذا کہا گیا ہے: کیا وہ ان تمام باتوں کے بعد خدائے یکتا کی طرف نہیں پلٹتے اور اس شرک اور کفر سے مغفرت نہیں چاہتے حالانکہ خدا غفور و رحیم ہے ۔

۷۵# مَا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَاٴُمُّہُ صِدِّیقَةٌ کَانَا یَاٴْکُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَھُمْ الْآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ اٴَنَّی یُؤْفَکُونَ۔

۷۶# قُلْ اٴَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا وَاللهُ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ۔
۷۷# قُلْ یَااٴَھْلَ الْکِتَابِ لاَتَغْلُوا فِی دِینِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعُوا اٴَھْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَاٴَضَلُّوا کَثِیرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ ۔
ترجمہ
۷۵۔ مسیح ابن مریم فقط فرستادئہ خدا تھے اُن سے پہلے اور دوسرے بھی فرستارگان الٰہی ہی تھے ان کی ماں بھی بہت سچی خاتون تھیں ۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے (لہٰذا تم کس طرح سے مسیح کی الوہیت کا دعویٰ اور اس کی ماں کی عبادت کرتے ہو)غور کرو کہ ہم کس کس طرح سے نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ دیکھو کہ وہ حق سے کس طرح باز رکھے جاتے ہیں ۔
۷۶۔ کہہ دو کیا تم خدا کے سوا ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں نقصان ہی پہنچاسکتی ہے اور نہ ہی تمہارے نفع کی مالک ہے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
۷۷۔ کہہ دواے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں غلو (اور تجاوز) نہ کرو اور حق کے سوا کچھ نہ کہو اور ایسے لوگوں کی ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیا اور سیدھے راستے سے منحرف ہوگئے ۔


۱۔ اس موضوع کی مزید و ضاحت اور مسئلہ تثلیث اور وحدت در تثلیث کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد چہارم ، ص ۱۷۶ کی طرف رجوع کریں (اُردو ترجمہ)۔
۲۔ ”اقنوم“ کا معنی ہے اصل اور ذات اور اس کی جمع ”اقانیم“ہے ۔
3۔ بعض روایات و تواریخ میں نقل ہوا ہے کہ عیسائیوں میں ایک ایسی اقلیت بھی وجود رکھتی ہے جو تین خداؤں کے قائل نہیں ہیں بلکہ صرف عیسیٰ کی خدا سے وحدت کے قائل ہیں لیکن آج ایسے لوگ بہت کم یاب ہیں ۔
حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں نبی اسرائیل اور قتل پیامبران
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma