ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
نبی اسرائیل اور قتل پیامبران۵۔ روایت کے آخری جملہ کا مفہوم کیا ہے؟

جیسا کہ ہم اس سورہ کی آیات کی تفسیر میں اب تک پڑھ چکے ہیں ہیں کہ اُن میں قابلِ لحاظ حصہ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ )کی وعدہ شکنیوں بحثوں، سوالات اور اعتراضات سے ہی متعلق تھا ۔ یہ آیت بھی اُن بحثوں کے ایک اور رُخ کی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ان کی اس کمزور منطق کا جواب دے رہی کہ جو یہ چاہتے تھے کہ تورات کو تو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک متفق علیہ کتاب ہونے کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے اور قرآن کو ایسی کتاب ہونے کی حیثیت سے کہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے چھوڑدیا جائے ۔ یہ آیت انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہی ہے: اہل کتاب تمہاری کوئی بھی وقعت نہیں ہوگی جب تک کہ تم تورات و انجیل اور تمام آسمانی کتابوں کو جو تم پر نازل ہوئی ہیں بلااستثنا اور بغیر کسی تفاوت کے تسلیم نہ کرو گے ۔
”قل یا اھل الکتب لستم علی شیءٍ حتی تقیموا التوراة و الانجیل و ما انزل الیکم من رتبکم“
کیونکہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ تمام کتابیں ایک ہی مبدا سے صادر ہوئی ہیں اور اِن سب کی اساس اور اصول بھی ایک سے ہیں اگر چہ اُن میں سے آخری کتاب کامل ترین اور جامع ترین ہے ۔ اسی بناپر لازم العمل ہے اُن کے علاوہ پہلی کتابوں میں آخری کتاب یعنی قرآن کے بارے میں متعدد بشارتیں بھی آئی ہیں ۔ وہ مدعی ہیں اس بات کے کہ وہ تورات و انجیل کو قبول کرتے ہیں پس اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ان بشارتوں کو بھی قبول کریں اور جب کہ انھوں نے ان نشانیوں کو قرآن میں پالیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ۔
مذکورہ بالا آیت یہ بھی کہتی ہے کہ صرف دعویٰ ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان آسمانی کتابوں پر عملاً قائم ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں ”ہماری“ اور ”تمہاری“کتاب کی بات نہیں ہے ۔ معاملہ تو آسمانی کتابوں کا ہے اور جو کچھ خدا کی طرف سے آیا ہے، اُس کا ہے ۔ پس تم کس طرح اس کمزور منطق کے ذریعے آخری کتاب کو نظر انداز کرسکتے ہو۔ قرآن پھر ایک مرتبہ ان کی اکثریت کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے اُن میں سے بہت سے لوگ نہ صرف ان آیات سے پند و نصیحت نہیں لیتے اور ہدایت حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کا کفر و طغیان بڑھتاہی جاتا ہے ۔
”ولیزیدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیاناً و کفرًا“
اور آیات حق اور صحیح باتوں کی بیمار افکار اور ہٹ دھرمی سے بھرے ہوئے دلوں پر ایسی ہی اُلٹی تاثیر پیدا ہوا کرتی ہے ۔
آیت کے آخر میں اپنے پیغمبر کو اس منحرف اکثریت کی انتہائی سختی کے مقابلہ میں تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: اس کافر جمیعت کی مخالفتوں سے غمگین نہ ہو کیونکہ اس کا نقصان خود اُن ہی کی طرف لوٹ جائے گا اور تجھے اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا (فلا تاٴس(۱)علی القوم الکافرین ).
یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ اس آیت کے مفاہیم قوم یہود کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ مسلمان بھی اگر صرف اسلام کے دعویٰ پر ہی قناعت کریں اور تعلیمات انبیاء کے اصول اور خاص طور پر اپنی آسمانی کتاب قرآن کو عملاً برپا نہ کریں تو ان کی کسی قسم کی کوئی حیثیت اور قدر و قیمت بارگاہ خدا میں ہوگی نہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں اور وہ ہمیشہ زبوں حال، زیر دست اور شکست خوردہ رہیں گے ۔
بعد والی آیت میں پھرنئے سرے سے اس حقیقت کو محلِ تاکید قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام اقوام و ملل اور تمام مذاہب کے پیروکار بلا استثنا خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی، صائبین  ہوں یا نصاریٰ صرف اسی صورت میں اہلِ نجات ہوں گے اور اپنے آئندہ سے خوف زدہ اور گذشتہ سے محزون و غمگین نہ ہوں گے جب کہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہوں گے اور نیک اعمال انجام دیں گے ۔
(ان الذین اٰمنوا و الذین ھادوا و الصابوٴن و النصریٰ من آمن باللّٰہ و الیوم الاٰخر و عمل صالحاً فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون).
یہ آیت حقیقت میں ان لوگوں کے لئے دندان شکن جواب ہے جو نجات کو کسی خاص ملت اور قوم میں منحصر سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انبیاء کے احکام میں تبعیض (بعض کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا) کے قائل ہوجائیں اور مذہبی دعوتوں کو قومی تعصبات سے ملادیں ۔ آیت کہتی ہے کہ راہِ نجات ایسی باتوں کو برکنار رکھنے میں منحصر ہے ۔
جیسا کہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۶۲ کے ذیل میں کہ جس کا مضمون مذکورہ بالا آیت کے ساتھ تقریباً یکساں ہے ہم واضح کرچکے ہیں کہ بعض لوگ ایک سفسطہ آمیز بیان کے ذریعہ چاہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت کو ”صلح کل “ کے مسلک پر دلیل قراردیں اور تمام مذاہب کے پیردکاروں کو اہلِ نجات فرض کرلیں اور اسے نظر انداز کردیں کہ در حقیقت آسمانی کتابوں کے یکے بعد دیگر سے نازل ہونا جہانِ انسانیت کے بتدریج درجہٴ کمال تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے ۔
لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ آیت ”عمل صالحا“ کی تعبیر کے ذریعے اس حقیقت کو مشخص و ممتاز کرتی ہے کہ مذاہب کے اختلاف کی صورت میں آخری قانون پر عمل کریں ۔ کیونکہ منسوخ شدہ قوانین پر عمل کرنا عمل صالح نہیں ہے ۔ بلکہ عمل صالح تو موجودہ قوانین اور آخری قانون پر عمل کرنا ہے (2)
علاوہ ازیں اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی قابلِ قبول ہے کہ (من آمن باللّٰہ و الیوم الاٴخرو عمل صالحاً) کا جملہ صرف یہود و نصاریٰ اور صائبین کی طرف لوٹتا ہو کیونکہ ”الذین آمنوا “ جو آیت کی ابتداء میں ذکر ہوا ہے وہ اس قید کا محتاج نہیں ہے ۔ تو اس طرح سے اس آیت کا معنی یوں ہوگا کہ صاحبان ایمان اور مسلمان افراد اور اسی طرح یہود و نصاریٰ اور صائبین بشرطیکہ وہ بھی ایمان لے آئیں اور اسلام قبول کرلیں اور عمل صالح بجالائیں تو سب کے سب اہلِ نجات اور رستگار ہوں گے اور کسی بھی قسم کے لوگوں کے سابقہ مذہبی اعتقادات کا اس صورت میں ان پر کوئی اثر نہ ہوگا اگر وہ ایمان لے آئیں اور راستہ سب کے سامنے کھلا ہوا ہے (غور کیجئے )

   ۷۰# لَقَدْ اٴَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَاٴَرْسَلْنَا إِلَیْھِمْ رُسُلًا کُلَّمَا جَائَھُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَتَھْوَی اٴَنفُسُھُمْ فَرِیقًا کَذَّبُوا وَفَرِیقًا یَقْتُلُونَ.

۷۱# وَحَسِبُوا اٴَلاَّ تَکُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللهُ عَلَیْھِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا کَثِیرٌ مِنْھُمْ وَاللهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ .
ترجمہ
۷۰۔ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے لیکن جب بھی کوئی پیغمبران کی خواہشات نفسانی اور میلانات کے خلاف آتا تو بعض کی تکذیب کرتے اور بعض کو قتل کردیتے ۔
۷۱۔ اور انھوں نے یہ گمان لیا تھا کہ اس کا کوئی بدلہ اور سزا نہ ہوگی لہٰذا (وہ حقائق کو دیکھنے اور سچی باتوں کو سننے سے) اندھے اور بہرے ہوگئے اس کے بعد پھر (وہ بیدار ہوئے اور) خدانے ان کی توبہ قبول کرلی اس کے بعد دوبارہ (خواب غفلت میں جا پڑے اور )ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور خدا ان کی کار گزاریوں پر خوب اچھی طرح مطلع ہے ۔

 


۱۔ ”تاس“ کا مادہ ”آس “ ہے جس کا معنی ہے ”غم و اندوہ“.
2۔ اس کی مزید توضیح کے لئے تفسیر نمونہ اُردو ترجمہ جلد اوّل، ص ۲۲۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
 
نبی اسرائیل اور قتل پیامبران۵۔ روایت کے آخری جملہ کا مفہوم کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma