کیا مباہلہ ایک عمومی حکم ہے ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مسیح (علیه السلام) کے بارے میں قرآن کے بیٹی کی اولاد

اس میں شک نہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں مسلمانوں کو مباہلے کی دعوت دی گئی بلکہ روئے سخن پیغمبر اسلام کی طرف تاہم یہ بات مخالفین کے مقابلہ میں مباہلے کے عمومی حکم سے مانع نہیں ۔ یعنی جب دلائل پیش کرنے کے باوجود دشمن مصر ہوں اور ہٹ دھرمی کا ثبوت دیں تو کامل تقویٰ اور خدا پرستی کے حامل اہل ایمان انہیں مباہلے کی دعوت دے سکتے ہیں ۔
اسلامی منابع میں اس ضمن میں مذکورہ روایات سے بھی اس حکم کی عمومیت ثابت ہو تی ہے ۔ تفسیر نور الثقلین، جلد ۱ صفحہ ۳۵۱ میں امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا: مخالفین تمہاری حق کی باتیں قبول نہ کریں تو انہیں دعوت مباہلہ دو ۔
راوی کہتا ہے :
میں نے سوال کیا کہ کیسے مباہلہ کریں ۔
فرمایا:۔ تین دن تک اپنی اخلاقی اصلاح کرو ۔ راوی مزید کہتاہے :۔
” میرا گمان ہے کے آپ نے فرمایا روزہ رکھو اور غسل کرو ، جس سے مباہلہ کرنا چاہتے ہو اسے صحرا میں لے جاوٴ۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس کے دائیں ہاتھ میں ڈالواور اپنی طرف سے ابتداء نہ کرو اور کہو: خدا وندا ! تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے ا
ٓگاہ ہے اور رحمن و رحیم ہے ، میرے مخالف نے اگر حق کا انکار کیا ہے اور باطل کا دعویٰ کیا ہے تو آسمان سے اس پر بلا و مصیبت نازل فرما اور اسے دردناک عذاب میں مبتلا کردے : اس دعا کو دہراوٴ اور کہو: یہ شخص اگر حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کا دعویدار ہے تو آسمان سے اس پر بلا نازل کردے اور اسے عذاب میں مبتلا کردے ۔
اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
زیادہ وقت نہیں گرے گا کہ اس دعا کا نتیجہ آشکار ہوگا خد اکی قسم میں نے ہر گز ایسا شخص نہیں پایا جو تیار ہو کہ ا س کے ساتھ اس طرح مباہلہ کیا جائے
ضمنی طور پر اس آیت سے ان لوگوں کو بھی جواب مل جاتا ہے جو بے سوچے سمجھے اسلام کو مردوں کا دین قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں عورتیں کسی شمار میں ہیں ۔ لیکن یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ خاص مواقع پر اسلامی مقاصد کی پیش رفت کے لیے عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ساتھ دشمن سے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑی ہوتیںتھیں ۔
بانوئے اسلام جناب فاطمہ زہرا(علیه السلام) ان کی دختر نیک اختر جناب زینب کبریٰ اور ایسی خواتین جو ان کے نقش قدم پر چلیں ان کی زندگی کے درخشان صفحات اس حقیقت پر گواہ ہیں ۔

۶۲۔ إِنَّ ھَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ اللهُ وَإِنَّ اللهَ لَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ۔
ترجمہ
۶۲۔ یہ ( حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کی ) حقیقی سر گزشت ہے ( اور ان کی الوہیت اور خدا بیٹا ہونے کی سب باتیں بے بنیاد ہیں ) اور خدائے یگانہ کے علاوہ معبود نہیں اور خدا توانا و حکیم ہے ۔

تفسیر ” قصص“ مفرد ہے اور ” قصة“ کے معنی میں ہے ۔ دراصل یہ لفظ ” قص“ کے مادہ سے ہے اور کسی چیز کی جستجو کرنے کے معنی میں لی اگیا ہے ۔ مثلاً حضرت موسیٰ بن عمران کے واقعہ میں ہے ۔
” و قالت لاختہ قصیہ“
حضرت موسیٰ (علیه السلام) کی والدہ نے ان کی بہن سے کہا : موسیٰ (علیه السلام) کی جستجو میں جاوٴ۔ ( القصص : ۱۱)
یہ جو خون کے بدلے کو ” قصاص“کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح مقتول کے حق کی جستجو کی جاتی ہے ۔
گذشتہ واقعات اور گزرہے ہوئے لوگوں کی تاریخ بھی ان کے حالاتِ زندگی کی جستجو ہے اسی لئے ان کے واقعہ کو ” قصّہ“ کہتے ہیں ۔
حضر مسیح (علیه السلام) کی زندگی کے حالات بیان کرنے کے بعد مندرجہ بالا آیت میں کہا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں ہم نے جو تفصیل بیان کی ہے وہ ایک واقعیت اور حقیقت ہے جو پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے اس لئے حضرت عیسیٰ کے بارے میں الوہیت ، خدا کا بیٹا یا اس کے بجائے ( معاذ اللہ !)غیر شرعی بچہ قرار دینے کے سب دعوے بے بنیاد اور بے ہودہ ہیں ۔
اس کے بعد تاکید کے طور پر مزید کہا گیا ہے : جو ذات پرستش کے لائق ہے وہ صرف خدا وند تونا و حکیم ہے اور خدا نے علاوہ کسی کے لئے اس منصب کا قائل ہونا غیر مناسب اور خلافِ حقیقت ہے ۔

۶۳۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِالْمُفْسِدِین ۔
ترجمہ ۔
۶۳۔ اگر ( واضح شواہد کے باوجود وہ قبول ِ حق سے ) روگردانی کرتے ہیں ( تو جان لو کہ وہ حقیقت کے متلاشی نہیں اور ) خدا فساد کرنے والوں سے آگاہ ہے ۔

 


۱. نور الثقلین “ جلد ۱ ۔ صفحہ ۳۴۹۔ ” برھان “ جلد ۱ ، صفحہ ۲۹۰، تفسیر ” عیاشی “ جلد ۱ ؛صفحہ ۱۷۷، ” بحار “ طبع ہندیہ جلد ۲۰۔ صفحہ ۵۱۔ اور جلد ۶؛ ص۶۵۲۔
 

 

مسیح (علیه السلام) کے بارے میں قرآن کے بیٹی کی اولاد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma