حضرت آدم (علیه السلام) کے جسم اور مادی پہلو سے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مباہلہ کیا ہے؟عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک آدم کی سی ہے ،

پہلی آیت میں ایک مختصر اور واضح استدلال ہے جس میں نجران کے عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے بارے میں دعویٰ الوہیت کا جواب ہے ۔فرماےاگےا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ(علیه السلام) باپ کے بغےر پیدا ہوئے تو یہ امر اس کی دلیل کبھی نہیںبن سکتا کہ وہ خدا بیٹے ےا خودخداتھے،کیونکہ یہ بات تو حضرت آدم (علیه السلام) کے بارے میں عجیب ترےن صورت میں محقق اور ثابت ہوچکی ہے ۔ وہ توماں باپ دونوں کے بغےر دنےا میں آئے تھے ۔ اس لئے جیسے حضرت آدم(علیه السلام) کی مٹی سے پیدائش کوئی تعجب کی بات نہیں اور خدا جو کام انجام دینا چاہے اس کا فعل اور ارادہ ہم آہنگ ہیں ۔
اس طرح حضرت عیسیٰ کا اپنی والدہ سے بغیر باپ کے پیدا ہونا کوئی محال مسئلہ نہیں ہے بلکہ آدم کی پیدا ئش کئی لحاظ سے زیادہ تعجب خیز ہے ۔ پس آگر بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کی پیدا ئش ان کی الوہیت کی دلیل ہے تو حضرت آدم اس امر کے زیادہ مستحق ہیں ۔
مندرجہ بالا آیت میں پہلے حضرت آدم (علیه السلام) کی خلقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” خلقہ من ترابٍ“ ( یعنی اسے مٹی سے پیدا ) دوسرے جملے کے قرینہ سے ، اس جملے سے مراد حضرت آدم (علیه السلام) کے جسم اور مادی پہلو سے ان کی خلقت ہے ۔ اس کے بعد دوسرے جملے میں ان کی اور روح کی خلقت کی طرف کرتے ہوئے فرمایا:” ثم قال لہ کن فیکون“ ( پھر اس سے کہا ہو جا تو وہ ہو گیا )
یعنی حکم خلقت کے ساتھ حیات اور روح آدم کے قالب میں پھونک دی ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حضرات عوالم کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، عالم خلق( عالم مادہ) اور عالمِ امر ( عالم ماورائے مادہ ) اور یہ دونوں ہی فرمانِ خدا کے تابع ہیں ارشاد الہٰی ہے :
” الا لہ الخلق و الامر “
” آگاہ رہو کہ عالم خلق و امر اسی کی طرف سے ہے ۔ ( اعراف۔۵۴)
پھر اس بات کی تاکید کے طور پر فرمایا: جو کچھ ہم نے مسیح کے بارے میں تم پر نازل کیا ہے ، یہ پروردگار کی طرف سے ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اس کے بارے میں اپنے اندرکسی قسم کے تردد کو جگہ نہ د ینا ۔
” الحق من رّبک“۔
اس جملے کے بارے میں مفسرین نے دو احتمالات پیش کئے ہیں :۔
پہلا :۔ یہ کہ یہ جملہ مبتداء اور خبر سے مرکب ہے ۔ یعنی الحق مبتداء ہے اور من ربّک خبر ہے ۔ اس بناء پر اس کا معنی یہ ہوگا : حق ہمیشہ تیرے پروردگا ر ہی کی طرف سے ہوگا کیونکہ حق کا معنی ہے واقعیت اور واقعیت عین ہستی وجود ہے اور تمام ہستیاں اور وجود اس کے وجود سے ہیں اور باطل عدم و نیستی ہے جو اس کی ذات سے بیگانہ ہے ۔
دوسرا:یہ کہ یہ جملہ مبتداء محذوف کی خبر ہے جو کہ” ذٰلک الاخبار“ ہے ۔ یعنی یہ خبریں جو آپ کو بتائی گئی ہیں ، سب پروردگار کی طرف سے حقائق ہیں ۔
یہ دونوں مفاہیم آیت کے لئے مناسب ہیں ۔
۶۱۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ ۔
ترجمہ
۶۱۔ اس علم و دانش کے بعد جو ( عیسیٰ کے بارے میں ) تمہارے پاس پہنچا ہے ۔ پھر بھی کوئی تم سے جھگڑے تو اسے کہہ دو: آوٴ اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو بلاوٴ، ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں ، تم اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوںکو بلاتے ہیں تم اپنے نفسوں کو بلاوٴ ، پھر ،مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریںگے ۔

مباہلہ کیا ہے؟عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک آدم کی سی ہے ،
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma