گیارہویں فصل: عشق اور خواب و خیالات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
بارہویں فصل : تجارتی شادیاں:دسویں فصل : باغی عشق :

بہت سے لوگوں کے فرار، ایک دوسرے سے جدائی اور خود کشی کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے گذشتہ عاشقانہ خیالات ، ان کی حقیقی زندگی سے مطابقت نہیں کرتے ۔
ہر جوان ہمیشہ اس خطرے کی زد پر رہتا ہے کہ کہیں غیر مقدس عشق میں گرفتار نہ ہو جائے،اوراس کے نہ چاہتے ہوئے تمام چیزیں حتی وہ خود اور شاید اس کے بعض قریب اور دور کے رشتہ دار بھی اس خطرے میں پڑ جاتے ہیں
اس بنیاد پر ہر جوان اور والدین کو اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنے کا انتظام کیا جاسکے ۔
تمام پودوں کے بر خلاف عشق بہت تیزی سے نشو و نما کرتا ہے منٹوں میں سالوں کا کام کرتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ کبھی کبھی ان کے اندر ایک نظر ایسا بیج بو دیتی ہے جو بہت طاقتور درخت کی صورت میں رونما ہوتا ہے خصوصا ان افراد کے لئے جو اس موضوع میں خاص استعدکے مالک ہیں ۔جی ہاں صرف ایک لمحہ اور ایک نظر میں یہ سب کام ہوجاتا ہے ۔
عشق کی یہ خاص کیفیت، نفسیاتی واقعہ کو وجود میں لانے کا سبب بنتی ہے کہ اس موضوع کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے اور اسکے خطروں کو مکمل طور پر اہمیت دی جائے ۔ اب ہم گزشتہ بحث کو جو عشق کے خطروں کے بارے میں تھی آگے بڑھاتے ہوئے عشق کے دیگر خطروں کو زیر بحث لائیں گے ۔
عشق اور تخیلات :
عشق خیالات کوبہت تیزی سے بھڑکاتاہے
تاریخ کے حوالہ سے عشق اور تخیلات کے درمیان رابطہ بہت قدیمی ہے، اس کے جال میں گرفتار لوگ ہمیشہ ایک خواب کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں جسکی ہر شئی اس دنیا سے مختلف ہے ۔
اس دنیا کے پیمانے ہماری دنیا سے الگ ہیںاس عالم کے شاہکار اس طرح کے ہیں جو خود ان کے بقول فقط دیکھے جاسکتے ہیں بیان نہیں کئے جا سکتے ۔ بہر حال جو الفاظ اس معمولی زندگی کے لئے بنائے گئے ہیں ان سے عاشقوں کی زندگی کی توصیف نہیں کی جا سکتی۔
غزلیہ شاعروں کے حیرت انگیز تخیلات اور ان کے دلچسپ اشعار کی لطافت غالبا اسی عشق حقیقی یا مجازی تخیلات کی مرہون منت ہیں ۔ اس لئے جب خستہ دل عاشق اس تخیلاتی دنیا میں اتر جاتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ وہ لمحہ کتنا حسین ہوگا جب وصال یار نصیب ہوگا ؟ اسکی آمد پر زمین و آسمان اور ستارے جھوم اٹھیں گے ، اس وقت انکے نزدیک ایک خوشی ، مسرت اور نشاط کا عالم اور ناقابل وصف لذت کا سما آشکار ہوجاتا ہے ۔
لیکن جب انکا وصال اپنے محبوب سے ہو جاتا ہے اور وہ اپنے خواب وخیالات کی بانسبت بہت کم اثرات کا مشاہدہ کرتے ہیں یعنی ہر چیز فطری یا حد واقعی سے کچھ بلند ہوتی ہے ۔
اس وقت وہ سراپا وحشت زدہ ہو جاتے ہیں اور رنج و غم کا عالم عشق کی دیوانگی کے بجائے ان کے دل میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے ۔ ایسے عالم میں وہ اپنے آپ کو فردی طور پر نا کام محسوس کرتے ہیں ۔کبھی وہ سمجھتے ہیں کہ انکو فریب دیا گیا ہے ، یا خیال کرتے ہیں کہ مخفیانہ طور پر انکے رقیبوں اور حاسدوں نے ان کے ساتھ دشمنی کی ہے ۔
بھلا جس چیز کا تصور اس قدر دل انگیز ہو اس کا حقیقی وجود اس قدر بے روح، کم قیمت اور کم رنگ کیسے ہو سکتاہے ؟
اس کی حالت ایسی ہی ہے جیسے لوگ کسی بورڈ پردور سے خوبصورت نقاشی دیکھیں اور وہ نہایت ہی خوبصورت اور دل کش معلوم ہو لیکن جب اس کے قریب پہنچیں تو ایک سادہ تحریر اور کچھ معمولی رنگوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں عشق کا رد عمل اپنی شدت کی نشان دہی کرتاہے، ان کے تخیلات اور واقعیت میں کتنا بڑا فاصلہ ہوتا ہے، جسکا نتیجہ فرار ، جدائی ، خود کشی ےا کوئی دوسرا شدید عمل ہوتا ہے ۔
عشق اور توقعات :
دل جلے عاشق عام طور پر اپنے محبوب کے معاملے میں بے حد عفو و بخشش سے کام لیتے ہیں یا اگر زیادہ معاف کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتاپھر اس کے لیے آمادہ رہتے ہیں ۔
جب عشق کی گرمی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے تو عاشق محبوب کی طرف سے عجیب و غریب توقعات کا منتظر ہو جاتا ہے، جب یہ انتظار کسی منزل تک پہنچنے والا نہیں ہوتا تو شکوے اور شکایتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔
عشق اور بدلہ :
عشق کے خطروں میں ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے ،جب عاشق وصال محبوب اور مقصد کی رسائی سے مایوس ہو جاتا ہے تو اسکے ما فی الضمیر میں انتقام کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے ۔
گزشتہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عاشقوں کے ہاتھوں بے پناہ درد ناک قتل سرزد ہوئے ہیںاور مقتول کوئی دوسرا نہیں ہوتا بلکہ انکا کل کا محبوب ہی ہوتا ہے ۔
نفسیاتی اعتبار سے اس کی وجہ روشن ہے :
یہ سرکش عشق اپنی عظیم طاقت و قوت کے باوجود جب تک اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کی ذرا بھی امید ہوتی ہے یہ عاشق کو اسکے محبوب کا غلام بنائے رکھتا ہے ۔لیکن جب مکمل مایوسی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو یہ عظیم طاقت خاموش نہیں بیٹھ پاتی اور شدید انتقام میں تبدیل ہوجاتی ہے (بعینہ جیسے ایک توپ اگر اسکے سامنے کوئی مانع آجائے تو پیچھے کی طرف پھٹ جاتی ہے ) اور جس طرح وصال کی امید میں اپنے اور محبوب کے درمیان آنے والی ہر چیز کو ہیچ شمار کرتا تھا ہر مشکل کا مقابلہ کرتا تھا ٹھیک اسی طرح ناامیدی کی صورت میں انتقام کی راہ میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا ۔وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک اپنے کام کا عکس العمل نہ دیکھ لے،اور اگر خود میں کسی قدرت کا احساس نہیں کرتاتو خود کشی کرنے کی سوچ میں پڑ جاتا ہے ،جسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اور اس طرح وہ یا اپنے محبوب سے یا پھر خود سے انتقام لینے کی سوچ میں پڑجاتا ہے ۔
یہ تمام باتیں عشق کی دیوانگی اور اس کی ہوس آلودہ خواہشات کے نمونے ہیں جنکا انجام صرف ناکامی ہوتاہے ۔

بارہویں فصل : تجارتی شادیاں:دسویں فصل : باغی عشق :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma