دسویں فصل : باغی عشق :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
گیارہویں فصل: عشق اور خواب و خیالات نویں فصل: عشق کے خطرے

عشق ابتداء ہی سے باغی اور خونی رہا ہے ۔
عشق کی بغاوت ہمیشہ مورخین اور شعراء کے درمیان مشہور رہی ہے ۔
عشق (خصوصا اگر دیوانگی کے ساتھ ہو (اگرچہ عشق میں شدت نہ ہو تو شاید اسکو عشق کانام نہ دیاجائے)کی کوئی حد اور قید نہیں ہے ۔
عشق ،معاشرے کی حدیں توڑ دیتا ہے ۔
اخلاقی مسائل کا کھلواڑ بنا دیتا ہے ۔
مصلحت کے تقاضوں اور وعظ و نصیحت کی کبھی موافقت نہیں کرتا ۔
شاید اسی وجہ سے کہا جاتاہے : ”جب عشق ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو عقل دوسرے دروازے سے نکل جاتی ہے“۔
”عشق “ اور ”عقل“ کی گفتگو اور ان دونوں کا ایک دوسرے کی ضد ہونا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر ادبی آثار میں بھی ملتاہے ۔
اگر ہم مشاہدہ کریں تو اسی رہگذر کا مسافر انگلینڈکا معروف فلسفی بھی عشق پر حملہ کرتا ہے اور اسکو ایک قسم کا جنون یا کئی قسم کے جنون کا مرکب شمار کرتا ہے ۔
اگر عشق کو صحیح اور جائز ہدف کے لئے ایک طاقتور عامل اور اخلاق کی صورت میں دیکھا جائے تواس کی عظمت اور کمال قابل انکار نہیں ہے ۔
اسی راستے پر چلتے ہوئے قدماء نے عشق کو رسوائی سے تعبیر کیا ہے، شکستہ دل عاشقوں کی لا تعداد کہانیاں انکی رسوائی کو بیان کرتی ہیں، جو آج بھی اور پرانے زمانے کے لوگوں کی زبانوں پر موجود رہی ہیں ۔
یہاں تک کہ شیریں زبان شاعر فروغی بسطامی نے اس کو اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
رسوای عالمی شدم از شور عاشقی !
ترسم خدا نہ کردہ کہ رسوا کنم تورا!
عشق کے شوق میں پوری دنیا میں رسوا ہو گیا خدا سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تجھے رسوا نہ کردوں
اس مقام پر ہم اس موضوع کے کچھ خاص نفسیاتی اسباب اور عوامل کی طرف اشارہ کریںگے اور عشق کی نفسیاتی حالت کے سرچشمہ کو تلاش کریں گے:
عشق آگ کی مانند سلگانے والا ہوتا ہے اور عاشق کے مکمل وجود کو ایک شعلہ بنا دیتا ہے اور اسکے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے گویا اس کے وجود کی تمام تر قوتوں کو ایک قوت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس قوت کا نام عشق ہے ۔
حقیقت میں عشق کی قدرت نمائی کا راز یہی ہے کہ ایک تو خود اسکی عمومی قوت ، دوسرے ان تمام قوتوں کا متمرکز ہوجانا ہے ۔انسان کی مختلف قوتیں جیسے قوت عقلائی ،قوت عاطفی، قوت غریزی جوانسان کے وجود میں ہوتی ہیں، ایک بڑی نہر سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح ہے اور ضرورت کے مطابق مختلف زمینوں سے انکو بہایا جاتا ہے ، یہ بات بدیہی ہے کہ اگر ہم ان تمام چھوٹی نہروں کو ایک ساتھ ایک نہر میں چلادیں تو بقیہ ساری زمینیں خشک ہو جائیں گی اور ایک نہر میں پانی کی زیادتی سے طغیانی پیدا ہو جائے گی ۔
اسی طرح ایک دل شکستہ عاشق کو سوائے اپنے محبوب کے کسی چیز کا احساس اور فکر نہیں ہوتی ہے ۔ اسکی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہر نشست ، ہر محفل میں اس کے محبوب کا تذکرہ رہے وہ اپنے وجود کے ہر ذرے میں اپنے محبوب کا متلاشی رہتا ہے اور ہر حادثے کی ہر ایک معمولی مناسبت بھی عشق کی قوت سے اس کو اس کے محبوب سے مرتبط کرتی ہے ۔ ہوا کا ہر جھونکا، باد نسیم کا چلنا، نہر کی لہریں، درختوں کے پتوں کی حرکت ، پرندوں کا پھڑ پھڑانا، لوگوں کی رفت و آمد وغیرہ ان سب میں وہ اپنے معشوق کو دیکھتا اور سنتا ہے ۔
ایک عاشق کے خطرناک مراحل یہاں سے شروع ہوتے ہیں اس لئے کہ عشق اس منزل پر کسی بھی کنٹرول یا قید و بند کو قبول نہیں کرتا ، اور عاشق کا وجود ایک ایسے شہر کی مانند ہوجاتا ہے جسکے سامنے شہر کو تباہ و برباد کرنے والے دشمن کے سپاہی ہوں اور اس کے اپنے پاس دفاع کا کوئی سامان نہ ہو ، اور وہ شہر خود کو انکے سامنے تسلیم کر دے ۔ اسی طرح عاشق اپنے پورے وجود کو عشق کے سامنے تسلیم کر دیتا ہے ۔
ایسے موقع پر اس کی گردن میں پھندا ڈالتا ہے اوراس کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے، چاہے وہ جگہ کعبہ ہویا دیر ہو ۔
اس موقع پر اگر اس کا کوئی ہم درد دوست نہ ہو اورکوئی اس کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی نہ کرے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے لئے وصال معشوق کے علاوہ دنیا کی ہرچیز ہیچ ہے ۔بدنامی ،خوش نامی ، گناہ، پاکیزگی سب اس کے لئے برابر ہے ۔ نہ وہ اپنے کل کے بارے میں سوچتا ہے اور نہ ہی اپنی اور اپنے دوست و احباب کی عزت و آبرو کی پروا کرتا ہے، اور نہ ہی کسی رسوم و قیود کا خیال کرتا ہے چاہے وہ معاشرتی ہوں یا اخلاقی۔
اگر چہ وہ اس عالم میں غلط ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آپ سے بے خبر ہوکرسر گرداں ادھر ادھر کشاں کشاں رہتا ہے ۔ اور اپنی زندگی کا تمام سرمایہ اس معاملہ میں گنوا دیتا ہے ۔
اور جب اس کو ہوش آتا ہے (اور ہوس سے لپٹے ہوئے عشق میں ہمبستری کے بعد یہ ہوش آتا ہے) تو سب کچھ کھو جانے اور غلطیاں انجام دینے کی وجہ سے رنج و غم کا ایک طوفان اس کے اندربپا ہو جاتا ہے ۔
ماضی کی وحشتناک ندامت اس کے دل و دماغ پر بوجھ بن جاتی ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔
ممکن ہے کوئی جرم انجام دینے کے بعدکسی قید خانہ میں یہ ندامت اور بیداری آئے ،یا معاشرے سے رابطہ منقطع ، یا گھر اور والدین کی زندگی سے فرار ہونے کے بعد دور کسی گوشہ تنہائی میں وقوع پذیر ہو ، ےا فساد ، گناہ کے مراکز سے نکلنے کے بعد کسی برائی اور نشے وغیرہ کا شکار ہونے کے بعد سمجھ میں آئے ۔
جوانوں کو چاہیے کہ ان خطروں سے ہمیشہ آگاہ رہیں جنکے مقدمات ظاہرا بہت سادہ ہوتے ہیں اور ممکن ہے ایک معمولی نظر سے یہ مقدمات شروع ہو جائیں اس لئے پہلے ہی مرحلے سے آگاہ ہونا چاہیے،کیونکہ ابتدا میں اس کو کنٹرول کرنا آسان ہے اور خود کو بچایا جا سکتا ہے ورنہ دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔
بہترین کاموں کا انتخاب کریں ، اپنے وقت کو تعلیم اور ورزش جیسے کاموں میں مصروف رکھیں، اور مورد نظر فرد کو بھول جائیں، غافل اور منحرف دوست و احباب سے جو اس طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں کنارہ کشی کرلیں، ان مسائل کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں ۔
جوانوں کو چاہیے جو خلا ایک پاک اور مقدس عشق کے لئے ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے اسے اپنے آنے والے شریک حیات کے لیے محفوظ رکھیں ۔اور ہوا و ہوس سے آلودہ عشق جو ظاہرا مقدس صورت میں رونمائی کرتا ہے اس سے شدت سے اجتناب کریں ۔
دوستوں کا فریضہ بھی ایسے حالات میں مزید سنگین ہو جاتا ہے، انہیں چاہیے کہ اپنے دوستوں کو بہترین طریقے سے دوستانہ انداز میں اس غفلت سے بیدار کریں قبل اس کے کہ نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت انہیں خیرباد کہہ کر چلی جائے ۔

گیارہویں فصل: عشق اور خواب و خیالات نویں فصل: عشق کے خطرے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma