حمل سقط کرنا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
حمل ٹھرنے سے روکنا (موانع حمل)پوسٹ مارٹم سے مربوط مسائل

سوال ۱۴۸۵۔ ڈاکٹر حضرات آزمایشگاہ میں مرد اور عورت کی منی کو مشین میں رکھ کر اسے رشد دیتے ہیں، اس مقدمہ کے ضمن میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت کریں:
الف: اس مشین میں رشد شدہ نطفہ کو پھینکنے کا کیا حکم ہے؟ یا وہ سقط جنین کے حکم میں آ جائے گا اور اس کے طفل کامل (ذی روح) ہونے تک اس کی محافظت ضروری ہے؟
ب: اگر اس کا پھینکنا جائز نہ ہو تو کیا اس کے بدلہ سقط جنین کی دیت دینا واجب ہے، واجب ہونے کی صورت میں دیت کس کے ذمہ ہوگی؟
ج: جنین (بچہ) کے سقط کرنے میں روح پڑنے یا نہ پڑنے کے سلسلے میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟
د: مذکورہ بالا سوال کی روشنی میں کیا اجبنی مرد اور عورت کی منی کو ایک دوسرے کے ساتھ جمع کرنا اور مشین میں رشد دینا جائز ہے؟
ھ: اگر منی اجنبی مرد اور عورت کی ہو تو اس صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: الف۔ اس کی حفاظت واجب نہیں ہے۔
ب۔ گزشتہ جواب سے واضح ہو گیا کہ دیت واجب نہیں ہے۔
ج: جب تک زندہ انسان کی صورت میں نہ ہو جائے، اس کی حفاظت پر دلیل موجود نہیں ہے۔
د: ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ھ: اشکال سے خالی نہیں ہے۔

سوال ۱۴۸۶۔ ڈاکٹر بچے کو اس عورت کے رحم سے نکال سکتے ہیں جس میں حمل مستقر (ٹھر) نہیں رہ پاتا اور اسے کسی دوسری عورت کے رحم میں ڈال سکتے ہیں جس میں وہ سالم طور پر پرورش پا کر پیدا ہو، اس تمہید کے ضمن میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت کریں:
الف: اگر ایک مرد کی دو بیویاں ہوں (نطفہ ایک ہی شوہر کا ہونے کی صورت میں) کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
ب: اگر عورت اجنبی ہو تو ایسا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: ایسا کرنے میں روح پڑنے یا نہ پڑنے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟

جواب: مذکورہ تینوں صورتوں میں (حمل ٹھرنے کے بعد) نطفہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ایسا کرنا عام طور پر حرام لمس و نظر کا باعث ہوتا ہے لہذا صرف ایسی صورت میں جائز ہے جہاں شدید ضرورت کا تقاضا ہو۔

سوال ۱۴۸۷۔ اگر احتمال یا یقین ہو کہ پیدا پونے والابچہ معیوب یا ناقص ہوگا اور سقط کے بعد واجب دیت بھی ادا کر دی جائے تو اس صورت میں عمدا (جان بوجھ کر) سقط کرنے کا حکم ہے؟

جواب: اگر بچہ ابتدائی منزلوں میں ہو اور انسانی شکل میں پوری طرح سے نہ ہوا ہو اور اس کا اس حالت میں باقی رہنا والدین کے لیے شدید عسر و حرج کا باعث ہو تو ان شرائط کے ساتھ اسے سقط کیا جا سکتا ہے، البتہ احتیاط کے طور پر دیت ادا کی جائے گی۔

سوال ۱۴۸۸۔ اگر ڈاکٹر قطعی طور پر کہے کہ بچہ کے پیٹ میں رہنے کی صورت میں ماں کی جان جا سکتی ہے تو درج ذیل مسائل کا حکم کیا ہوگا:
الف: کیا بچہ کا رحم مادر میں ختم کر دینا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچ سکے؟
ب: کیا ماں کو اسی حالت پر چھوڑ دینا جائز ہے تا کہ اس بچہ کی ولادت ہو جائے اور ماں مر جائے؟
ج: اگر ماں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور ماں اور بچے دونوں کے مرنے کا احتمال ہو تو حکم کیا ہوگا؟ (موت و حیات کا احتمال دونوں کے لیے مساوی ہو)
د: اگر بچہ میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق پڑے گا؟

جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے۔
ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے۔
د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے۔

سوال ۱۴۸۹۔ سونوگرافی کی رپورٹ سے پتہ چلے کہ بچہ ناقص الخلقت (معیوب) ہے اور ولادت کے بعد اس کی حیثیت ایک گوشت پوست کے لوتھڑے جیسے ہوگی، نہ اس میں کوئی جنبش ہوگی اور نہ ہی درک و شعور ہوگا، اس صورت میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف۔ کیا اس کو اسی حالت میں ختم کر دینا جائز ہے چاہے اس میں روح پڑ چکی ہو یا نہ پڑی ہو؟
ب: اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد مریض ہو جائے تو کیا جائز ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور دوا علاج نہ کرایا جائے تا کہ وہ جلد سے جلد مر جائے اور درد و رنج سے نجات پا جائے؟

جواب: الف۔ اس کا جواب بھی وہی ہے جو مسئلہ نمبر ۱۴۸۴ میں گذر چکا ہے۔
ب: ایسا کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے۔

سوال ۱۴۹۰۔ ڈاکٹروں کے نظریے کے مطابق اگر بچہ ماں کے شکم میں رہے تو اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے لیکن اگر اسے باہر نکال کر مشین میں رکھا جائے تو وہ زندہ رہ سکتا ہے تو:
الف: اس بارے میں حکم کیا ہے؟ کیا اس کو ماں کے شکم سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟
ب: کیا اس مسئلہ میں روح پڑنے یا نہ پڑنے کی حالت سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟

جواب: الف۔ اگر ایسا ہونا قطعی اور یقینی ہو تو نہ صرف یہ کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ہی مطابق احتیاط ہے۔
ب: دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔

سوال ۱۴۹۱۔ ایسی صورت جس میں داکٹر کے لیے سقط کرنا ضروری ہو، دیت کس کے ذمہ واجب ہوگی؟ کیا ڈاکٹر کے لیے پہلے سے شرط کر دینا ضروری ہے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور کیا یہ شرط اس کے بری الذمہ ہونے کے لیے کافی ہے یا وہ اس کی گردن پر باقی رہے گی؟

جواب: احتیاط یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض یا اس کے اولیاء سے یہ شرط کر دے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور اگر اس نے یہ شرط نہیں کی تو دیت اسے ہی ادا کرنا پڑے گی۔ (احتیاط کی بناء پر)

سوال ۱۴۹۲۔ اگر ڈاکٹر سمجھ جائے کہ شکم میں جو بچہ ہے اس کے کسی عضو میں نقص پایا جاتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ بات بچے کے والدین کو بتانا ضروری ہے؟ اور اگر اسے یہ احتمال ہو کہ اگر بتا دے گا تو وہ اسے سقط کرا دیں گے یا شاید اس کے نقص کو دور کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ صحیح ہونے ہونے کا احتمال بہت کم ہو، اور اگر ڈاکٹر اطلاع نہ دے تو وہ اس کی شکایت کر سکتے ہیں تو ان حالات میں اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: ڈاکٹر کے انہیں بتا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۹۳۔ ایسے مریض جو درد سے شدید بے چین اور پریشان رہتے ہیں لیکن اگر انہیں قوی سکون آور دوا دی جائے تو آرام ملتا ہے مگر ساتھ ہی اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ وہ آئندہ حاملہ کو پیش آنے والے عوارض یا دوسرے عوارض کا شکار ہو سکتے ہیں تو اس طرح کے موارد میں ڈاکٹر کا کیا فریضہ بنتا ہے؟

جواب: اگر ایسا ضرر ہے، جو درد سے نجات دلانے کے لیے دی جانے والی دوا کے مقابلہ میں عقلاء کے نزدیک قابل قبول ہوتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ضرر ایسا ہو جو اس کی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہو تو جائز نہیں ہے اور اگر مریضہ کو ضرر نہ پہچا کر شکم میں موجود بچے کو نقصان پہچا رہی ہو تو بھی جائز نہیں ہے۔

سوال ۱۴۹۴۔ اگر ڈاکٹر قطعی طور پر یہ کہ دے کہ آپ کے آئندہ بچے ناقص الخلقت ہوں گے تو مندرجہ ذیل سوالوں کا حکم کیا ہوگا:
الف: کیا ڈاکٹر پر واجب ہے کہ وہ والدین کے سوال کرنے پر انہیں پوری اطلاع فراہم کرے؟
ب: اگر وہ سوال نہ کریں تو کیا تب بھی ڈاکٹر کے لیے انہیں بتانا واجب ہے تاکہ وہ پرہیز کر سکیں اور اگر اس پر واجب نہیں ہے تو کیا اس کے لیے بتانا حرام ہے؟
ج: اگر ڈاکٹر کو یقین ہو کہ وہ بتانے کی صورت میں ہر بار بچہ سقط کرا دیں گے تو یہاں پر اس کا کیا شرعی فریضہ ہے؟

جواب: الف۔ ڈاکٹر کے لیے بتانا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ نہ بتانے سے مریض کو کوئی بہت بڑا نقصان پہچ سکتا ہو۔
ب: اس طرح کے موارد میں اگر مسئلہ نہایت اہم ہو تو ڈاکٹر کو چھپانا نہیں چاہیے۔
ج: ڈاکٹر کو اپنے شرعی فریضے پر عمل کرنا چاہیے اور اگر مریض خلاف ورزی کر رہا ہے تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے۔ البتہ ڈاکٹر اپنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل کرے گا۔

سوال ۱۴۹۵۔ ایک خاتون جو آنکھ کی بیماری میں مبتلا ہے، ماہر ڈاکٹروں کے مطابق اسے جلد سے جلد آپریشن کرانا چاہیے، مگر اس کے پیٹ میں تین ماہ کا حمل ہے جس کا سقط کرانا آپریشن کے لیے ضروری ہے ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے اندھی ہو جائے گی اور اسی طرح سے سقط نہ ہونے کی صورت میں حمل کو بھی نہایت ضرر ہو سکتا ہے تو کیا ایسی حالت میں سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: مسئلہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ظاہرا سقط کرانے میں کو ئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۴۹۶۔ کیا حمل ٹھرنے کے بعد اسے سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اگر کسی خطرہ کا یقین یا احتمال نہ ہو اور ماں کو شدید نقصان نہ پہچ رہا ہو تو جائز نہیں ہے اور دیت واجب ہے۔

سوال ۱۴۹۷۔ کیا کسی صورت میں سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اگر ماں کو کسی خطرہ کا یقین یا احتمال ہو یا کوئی شدید ضرر پہچ رہا ہو تو ابتدائی مراحل میں سقط کرانا جائز ہے۔

سوال ۱۴۹۸۔ مسلمان یا کافر کے لیے بچہ سقط کرانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: مسلمان بچے کا سقط کرانا تو واضح ہے کہ جائز نہیں ہے، حتی کہ وہ بچہ نا جائز ہی کیوں نہ ہو، جبکہ کافر کے لیے بھی بچہ سقط کرانا جائز نہیں ہے حتی کہ اگر وہ بچہ ان کے مذہب کے مطابق نا جائز ہی کیوں نہ ہو۔

سوال ۱۴۹۹۔ کیا بچہ سقط کرانا جائز ہے، اگر جائز ہے تو کیا اس پر دیت واجب ہے؟

جواب: ڈاکٹروں کے مطابق اگر ماں کی جان کو خطرہ کا یقین یا احتمال ہو یا شدید ضرر پہچ رہا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (البتہ جب تک وہ مکمل انسانی شکل میں نہ آ چکا ہو) اور چونکہ دیت واجب ہو جانے کا احتمال ہو سکتا ہے لہذا احتیاط یہ ہے کہ اس بچے کے ورثاء (ماں باپ کے علاوہ) اپنی مرضی سے اسے (دیت) ترک کر دیں۔

سوال ۱۵۰۰۔ مندرجہ ذیل موارد میں کیا روح پڑنے سے پہلے شقط کیا جا سکتا ہے:
الف۔ ایسی بیماری کی صورت میں جس میں یقین ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کی بعد مر جائے گا؟
ب: نسلی و خاندانی و ژنیٹیک امراض کی صورت میں؟
ج: بچوں میں ہونے والی دوسری بیماریوں کی صورت میں؟

جواب: ان موارد میں سقط کرانا اشکال سے خالی نہیں ہے، خاص طور پر اس وقت جب مذکورہ بالا پیش بینیاں قطعی نہ ہوں۔

سوال ۱۵۰۱۔ مندرجہ بالا حالات بچے کے لیے روح پڑنے کے بعد کیا حکم رکھتے ہیں؟

جواب: روح پڑنے کے بعد بھی ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال ۱۵۰۲۔ بچہ میں روح کب پرتی ہے؟

جواب: جس وقت بچہ ماں کے شکم میں حرکت کرنے لگ جاتا ہے اور یہ عام طور پر چار ماہ میں ہوتا ہے۔

سوال ۱۵۰۳۔ ایک حاملہ عورت جو رحم کے کینسر کی مریضہ ہے، جس کا معالجہ شعاعوں کے ذریعہ ہوتا ہے جو بچے کے ناقص الخلقت (عیب دار) ہونے کا باعث بن سکتا ہے تو کیا ایسی حالت میں اس کے لیے بچہ کو سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۵۰۴۔ حاملہ عورتیں، جو کینسر کے مرض میں مبتلاء ہیں (مثلا پستان کے کینسر میں) عام طور پر اگر کینسر مہلک اور آخری مرحلہ میں ہو تو حمل جس بھی مرحلہ میں ہوتا ہے اسے علاج کے لیے سقط کرانا پڑتا ہے تا کہ ماں کا علاج کیا جا سکے، ایسا دو وجہ سے کیا جاتا ہے ایک تو یہ کہ ماں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے دوسرے یہ کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ماں کی جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور بچہ کو بن ماں کے ہو جانے کا، جسے ماں کی محبت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر کینسر ابتدائی منازل میں ہو اور حمل آخری مراحل میں تو ڈاکٹر انتظار کرتے ہیں کہ بچہ زندگی کے قابل ہو جائے، پھر اسے وقت سے پہلے آپریشن کر کے نکال لیتے ہیں اور خاص توجہ اور محافظت سے رکھتے ہیں تا کہ وہ رشد کرتا رہے لیکن اگر حمل بھی ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تو اسے سقط کر دیتے ہیں اور اس کے بعد کینسر کا علاج شروع کرتے ہیں۔ البتہ ان موارد میں اس وقت سقط کرتے ہیں جب معلوم ہو کہ کینسر کے بنیادی علاج سے بچہ کو ضرر پہچ رہا ہے، کیا مندرجہ بالا باتیں اسلامی احکام سے مطابقت رکھتی ہیں؟

جواب: اگر ماں کی جان کو خطرہ ہو اور بچہ ابتدائی مراحل میں ہو تو سقط کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح سے بچے کو وقت سے پہلے پیدا کرنے اور اس کی خاص شرائط کے ساتھ پرورش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال ۱۵۰۵۔ غیر شیعہ بچے کو سقط کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: بچے کو سقط کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، مگر ضرورت کے وقت۔

سوال ۱۵۰۶۔ روح پڑنے کے بعد اگر ماں اور بچہ دونوں کی جان کے خطرہ کا علم ہو تو کیا بچے کا سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اس مسئلہ کی روشنی میں اگر ماں اسی حالت پر باقی رہتی ہے تو دونوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے تو ماں کی جان بچانے کے لیے بچہ سقط کرایا جا سکتا ہے۔

سوال ۱۵۰۷۔ اگر ماں بچے کو سقط کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے لیکن وہ ضروری باتوں کی رعایت نہ کرے اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرے اور بچہ سقط ہو جائے تو کیا وہ حرام کی مرتکب ہوئی ہے؟

جواب: اگر اس نے بچہ کی حفاظت میں مطابق معمول عمل نہیں کیا ہے اور کوتاہی کی ہے تو وہ ذمہ دار ہے۔

سوال ۱۵۰۸۔ ایک خاتون جو حاملہ ہے اور جس کے شکم میں سات ماہ کا بچہ ہے، ایکسیڈینٹ کی وجہ سے اس کا آپریشن ہونا ضروری ہے جبکہ آپریشن سے پہلے بیہوش کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے مگر بیہوشی کے سبب بچہ کی جان جا سکتی ہے (اس بات کا یقین ہو) تو کیا جائز ہے کہ اس کے با وجود ماں کا آپریشن کیا جائے؟

جواب: اگر ماں کی جان خطرہ میں ہے اور اس کا علاج آپریشن اور بیہوشی پر منحصر ہے تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔

سوال ۱۵۰۹۔ مذکورہ مسئلہ کی روشنی میں اگر یقین کی جگہ احتمال ہو تو کیا پھر بھی ماں کا آپریشن جائز ہوگا؟

جواب: مذکورہ بالا شرائط کی روشنی میں، احتمال کی صورت میں بہ طریق اولی جائز ہے۔

سوال ۱۵۱۰۔ ڈاکٹروں نے ایسی دوائیں تجویز کی ہیں جس سے بچہ صحیح و سالم رہے اور سقط نہ ہو سکے، ایسی صورت میں اس کا دوا نہ کھانا تا کہ بچہ سقط ہو جائے کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب: اس کا دوا نہ کھانا جائز نہیں ہے۔

حمل ٹھرنے سے روکنا (موانع حمل)پوسٹ مارٹم سے مربوط مسائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma