قتل عمدی اور شبہ عمدی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
قتل خطاءتعزیرات (غیر معیّن سزائیں)

سوال۱۲۴۹ ۔ اگر پولیس کا کوئی سپاہی کسی مجرم کا تعاقب کرتے وقت مجرم کی طرف گولی چلادے اور مجرم قتل ہوجائے کیا یہ قتل عمدی ہے یا مشابہ عمد میںشمار ہوگا؟ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟

جواب: اس مسئلہ کی چند صورتیں ہیں:
پہلی صورت: یہ ہے کہ بھاگنے والے شخص پر چھوٹے جرم کا الزام ہے جس کی سزا تعزیر ہوتی ہے، اس صورت میں ہوائی فائر یا پیروں کی طرف گولی چلانے کے سوا کچھ اور کام نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ مذکورہ فرض میں وہ مجرم، جرم کے ثابت ہونے کے بعد بھی، اسی قسم (قتل) کی سزا کا مستحق نہیں ہے ۔
دوسری صورت: یہ ہے کہ اس پر اس قسم کے جرم کا الزام ہے کہ جس کے مقابلہ میں شدید ردّ عمل نہ کرنے کی صورت میں، معاشرے کا پورا نظام درہم وبرہم ہوجائے گا اور پورے معاشرے کو خطرہ ہے، اس صورت میں آسان سے آسان تر (الاسہل فالاسہل) طریقہ اپنانا چاہیے اور درجہ بدرجہ اقدامات کئے جائیں اور اگر مثال کے طور پر ملزم کے پیروں کی طرف فائر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور سپاہی بھی ماہر تھا اس کے باوجود نشانہ خطا ہوگیا اور گولی ایسی جگہ لگ گئی جو اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی، اس صورت میں اس کا خون (قتل) ہدر ہے یعنی نہ اس کا قصاص ہے اور نہ دیت، اس لئے کہ جو کام حاکم شرع کی اجازت سے انجم دیا گیا ہو اور مد مقابل بھی اس کا مستحق ہو، اس کی کوئی دیت نہیں ہوتی ہے ۔
تیسری صورت: یہ ہے کہ وہ جرم (جس کا اس پر الزام ہے) پورے نظام کے درہم وبرہم ہونے کا باعث نہ ہو لیکن بہرحال جرم سنگین ہو اور اگر ایسے جرم کی روک تھام نہ کی جائے (جیسے جنگ کی حالت میں دشمنوں کو اسلحہ سپلائی کرنا) اور حسّاس علاقوں میں اس کے خلاف اقدام نہ کئے جائیں تو جنگ کی سرنوشت اور نتیجہ تبدیل کئے بغیر ہی بہت زیادہ لوگ قتل ہوجائیں گے، اس صورت میں بھی سلسلہ وار گولی چلانا جائز ہے اور اگر اس کے نتیجہ میں وہ قتل ہوجائے تو اس کا خون ہدر ہے یعنی اس کی دیت یا قصاص نہیں (البتہ ان شرائط کے ساتھ جو اوپر بیان کئے گئے ہیں)۔

سوال ۱۲۵۰۔ ایک فوجی جوان، الکحل (اسپریٹ) کی دو بوتلیں اپنے ساتھ چھاؤنی میں لے آیا، وہاں لا کر پہلے تو اس نے الکحل اور اسپریٹ کے نقصان سے بچنے کی غرض سے، اپنے ساتھی دوسرے فوجیوں کی مدد نیز آلات اور اوزاروں کے ذریعہ جو ان کے پاس موجود تھے، اس اسپریٹ کو فلٹر کیا اور اس کے بعد مست ہونے کے ارادے سے ، اس نے اور اس کے چند فوجی ساتھیوں نے اس کو پی لیا، یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ الکحل اور اسپریٹ کا استعمال بہت ہی خطرناک اور مہلک ہوتا ہے، ایک فوجی زیادہ پینے کی وجہ سے مرجاتا ہے اور باقی سب کو ابکائیاں اور قے آجاتی ہیں، کیا اس صورت میں جو شخص چھاؤنی میں وہ الکحل اور اسپریٹ لایا تھا وہ مرنے والے کے سلسلہ میں جو اپنے اختیار سے الکحل اور اسپریٹ پی کر مرگیا تھا، ذمہ دار ہوگا؟

جواب: اگر اسپریٹ پینے والے اس کے نقصان سے آگاہ تھے تو اس صورت میں کوئی ان کے سلسلہ میں ذمہ دار نہیں ہے لیکن اگر اسپریٹ لانے والے نے انھیں بہکایا ہے اور انھیں غفلت میں رکھا ہے کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہے تو اس صورت میں وہ ذمہ دار ہے اور آخری فرض میں، قتل شبہ عمدی ہے ۔

سوال ۱۲۵۱۔ تین فوجی جوان، جنگی علاقہ میں ٹوٹے پھوٹے محاذ پر کسی گاڑی وغیرہ کی تلاش میں مصروف تھے، ایک دوسرے فوجی نے تقریباً تین سو میٹر کے فاصلہ سے ان کی طرف چند بار فائر کئے جس کے نتیجہ میں ان میں سے ایک جوان قتل ہوگیا، قاتل مدّعی ہے کہ میں نے سوچا تھا کہ وہ عام آدمی ہیں ان کو ڈرانے کے لئے میں نے فائر کردیا تھا تاکہ وہ اس علاقہ سے دور ہوجائیں، ورنہ میرا ان پر گولی چلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، البتہ اس کا یہ دعویٰ کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ غیر فوجی اور عام لوگ ہیں، قابل قبول نہیںہے چونکہ متعدد لوگوں نے اُسے بتایا کہ فوجی ہیں، اب اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ قاتل ان کو دیکھ رہا تھا اور متعدد بار اُن کی طرف فائر کئے بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ اس کا ان لوگوں کی طرف یا کسی مخصوص آدمی کی طرف گولی چلانے کا ارادہ نہیں تھا، سوال یہ ہے کہ یہ قتل عمد ہے یا نہیں؟

جواب: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ ان لوگوں کی جانب اور انھیں نشانہ بناکر گولی چلائی گئی تھی، اس وقت تک قتل عمد شمار نہیں ہوگا ۔

سوال ۱۲۵۲۔ اگر کوئی شخص عمداً اپنی زوجہ کو قتل کردے اور مقتولہ کے وارثوں میں فقط ایک اس کی ماں اور ایک بیٹی ہو اور یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ بیٹی کے ذریعہ باپ کا قصاص کرنا ممکن نہیں ہے لیکن مقتولہ کی ماں نے قصاص کرنے کا تقاضا کیا ہے:
الف) چونکہ قصاص کی تقاضا مند (مقتولہ کی ماں) کی طرف سے آدھی دیّت قاتل کو دینا لازم ہے، سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کے حصّہ کی دیت بھی ادا کرے یا نہیں، نیز توجہ رکھتے ہوئے کہ قاتل کا باپ موجود ہے جو اس کا نابالغ بیٹی کا دادا ہوتا، کیا نابالغ بچی کی مراعات کرتے ہوئے، دیت کا تقاضا کرنا یا معاف کردینے کا کام اس کے داد کے ذمّہ ہے؟

جواب: الف) بچی کے حصّہ کی دیت ادا کرے اور بظاہر اس کام میں داد اس کے ولی ہیں ۔
ب) اگر قصاص کا تقاضا کرنے والی (مقتولہ کی ماں) میں، بچی کے حصّہ کی دیت کی رقم کو ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو یا ادا کرنے سے انکار کرنے کی صورت میں کیا قصاص کا حق ساقط ہوکر دیت کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا یا اس کے اجرا کرنے میں تاخیر کی جائے گی، نیز تاخیر کی صورت میں کیا مجرم کو قید سے رہا کردیا جائے گا یا نہیں؟
جواب: ب) اگر ولی قصاص میں مختصر سے عرصہ کے بعد، مالی استطاعت کی امید ہو تو اس کے مستطیع ہونے کا انتظار کرنا چاہیے نیز مجرم سے کافی حد تک ضمانت لے کر اُسے رہا کردیا جائے گا، لیکن اگر اس کے مستطیع ہونے کی امید نہیں ہے تب قاتل پر دیت لازم ہوجائے گی ۔

سوال ۱۲۵۳۔ لڑائی جھگڑے کے دوران ایک جوان نے دوسرے بائیس سالہ جوان کے پیٹ میں چاقو ماردیا ( جو تقریباً پانچ یا چھ سینٹی میٹر تک اندر لگ گیا) زخمی جوان کو اسپتال لے جایا گیا، وہاں پر ڈاکٹروں نے یہ سوچ کر کہ زخم معمولی ہے اور زیادہ مہم نہیں ہے، اس کے زخم کو کھول کر نہیں دیکھا (اور اس کا آپریشن نہیں کیا) جس کے نتیجہ میں اس جوان کا انتقال ہوگیا، بعد میں پتہ چلا کہ چاقو اس کی آنتوں میں لگ گیا تھا اور ڈاکٹر قصوروار ہیں اس لئے کہ اگر وہ زخم کو کھول کر دیکھ لیتے تو زخمی جوان اس مصیبت سے نجات پاسکتا تھا اور بچ سکتا تھا ، بعض قاضی حضرات اس کو قتل عمد سمجھتے ہیں لیکن بعض دوسرے قاضیوں کو قتل عمد ہونے میں شک ہے، برائے مہربانی آپ اس کا حکم بیان فرمادیں، نیز ان ڈاکٹروں کا حکم بھی جو قانونی اور سرکاری ڈاکٹر کی گواہی کے مطابق قصوروار ہیں، بیان فرمائیں؟

جواب: بظاہر یہ مسئلہ، قتل عمد کی طرح کا ہے اگرچہ قاتل کا اُسے قتل کرنے کا ارادہ بھی نہ ہو؛ اس لئے کہ اس نے ایسی جگہ چاقو مارا ہے جہاں پر چاقو مارنے سے انسان اکثر اوقات قتل ہوجاتا ہے، اور ڈاکٹروں کی غلطی (اگرچہ انھوں نے جان بوجھ کر ہی غلطی کیوں نہ کی ہو) قتل عمد کے صادق آنے سے مانع نہیں ہوسکتی، ہاں اگر مشخص ہوجائے کہ ڈاکٹر قصوروار ہیں تو انھیں تعزیری سزا دی جائے گی لیکن دیت وغیرہ ان کے اوپر ثابت نہیں ہوگی ۔

سوال ۱۲۵۴۔ ایک شخص کے بدن میں گولی لگی اور دوسری طرف سے باہر نکل گئی، جس کے نتیجہ میں وہ شخص مکمل طور پر مفلوج ہوگیا، کچھ عرصہ کے بعد اس کا انتقال ہوجاتا ہے، قانونی ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ سبب موت، وہی پہلے زخم اور ان سے پیدا ہونے والے نقصانات تھے، اب یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ مارنے والا پہلے ہی ایک مکمل دیت، مفلوج کرنے کی وجہ سے، نیز کامل دیت کی دوتہائی رقم، جائفہ(۱) کی بناپر، مقروض ہے، آپ سے التماس ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں نیز مارنے والا کس قدر دیت ادا کرے گا، آپ اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟

۱۔ بدن پر گہرا زخم لگانا جس پر قصاص نہیں ہوتا دیت وصول کرسکتا ہے اور اس کی دیت، کامل دیت کا ایک تہائی حصّہ ہوتا ہے ۔

جواب: اگر عمداً گولی چلائی تھی، تو مارنے والا، دیت کی دی گئی رقم کو واپس وصول کرے گا اور قصاص کے لئے تیار ہوجائے گا اور اگر غلطی سے یا شبہ عمد کی صورت ہے تو مزید دیت اس پر لازم نہیں ہے، وہی ایک دیت کافی ہے اور اگر ایک ضرب (ایک بار گولی چلانے) سے موت ہوئی ہے تب تو جائفہ--- کی دیت بھی نہیں ہے ۔

سوال ۱۲۵۵۔ جو شخص افغانستان کی جنگ اور داخلی جنگ وجدال میں موٴثر کردار رکھتا ہو اور دوسرا فریق اس کو اس کے گھر میں قتلکردے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: جو شخص بھی کسی موٴمن کو عمداً قتل کردے، اس کا حکم قصاص ہے اور اگر وہ کسی خطا کا مرتکب ہوگیا ہو تو اس کے بارے میں حاکم شرع کے ذریعہ، حکم الٰہی جاری ہونا چاہیے ۔

سوال ۱۲۵۶۔ کوئی شخص، کسی بے گناہ شخص کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن غلطی سے دوسرے بے گناہ شخص کو قتل کردیتا ہے یہ کس نوعیت کا قتل ہے؟

جواب: یہ قتل عمد ہے اور وہ قصاص کا مستحق ہے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ مقتول کے سرپرست، قاتل کے ساتھ ، دیت یا اسی قسم کی دوسری چیز پر صلح کرلیں ۔

سوال ۱۲۵۷۔ کوئی آدمی کسی ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے جس کا قتل کرنا جائز ہے، لیکن اس کی پہچان میں غلطی کرنے کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو قتل کردیتا ہے جس کی جان محترم ہے، واقع ہونے والا یہ قتل کس نوعیّت کا ہے؟

جواب: قتل شبہ عمد ہے ۔

سوال ۱۲۵۸۔ اگر قاتل، زید کو مارنے کے ارادے سے گولی چلائے اور مرنے کے بعد، معلوم ہو کہ قتل ہونے والا زید نہیں بلکہ بکر ہے (یعنی پہجان میں غلطی کی) اس صورت میں یہ قتل، عمد ہے یا شبہ عمد ہے؟

جواب: اگر دونوں کی جان، محترم اور محفوظ تھی تو قتل عمد شمار ہوگا ۔

سوال ۱۲۵۹۔ کوئی آدمی کسی کے بارے میں کوئی ایسا کام انجام دیتا ہے جو یا تو عام طور پر موت کاسبب ہوتا ہے جیسے سمّ قاتل یعنی زہر دینا یا عام طور پر موت کا باعث نہیں ہوتا، جیسے کسی کے بازو پر معمولی زخم لگادینا، بہرحال دوسرے فریق کو اسپتال لے جایا جاتا ہے اور پہلے فرض میں، ڈاکٹر اپنی ذمّہ داری کے مطابق عمل نہیں کرتا اور زہر کے اثر کو ختم نہیں کرتا اور دوسرے فرض میں ڈاکٹر کی بے توجّہی اور غیر طبّی آلودہ اوزار کے استعمال کی وجہ سے، سیپٹک ہوجائے جس کے نتیجہ میں، زخمی شخص کے بدن کا کوئی حصّہ کاٹ دیا جائے یا وہ بھی مرجائے، ان دونوں صورتوں میں، قاتل کون ہے؟ قتل کس نوعیت کا ہے؟ اور اگر ڈاکٹر اور مارنے والا دونوں لوگ اس کی موت کے ذمّہ دار ہیں تو اس صورت میں دونوں کی ذمّہ داری کی کیا کیفیت ہوگی؟

جواب: پہلے فرض میں، جس شخص نے زہر قاتل دیا ہے وہی قاتل شمار ہوگا اور قتل عمد ہے اور دوسرے فرض میں کہ ڈاکٹر کی غلطی اس کی موت کا باعث ہوئی ہے وہی ڈاکٹر قاتل سمجھا جائے گا لیکن اس صورت میں قتل، قتل شبہ عمد ہے اور اگر دونوں اس کی موت کے ذمّہ دار ہیں تو اس صورت میں قتل میں دخالت کی مقدار کے مطابق، ان کے اوپر دیت لازم ہوجائے گی ۔

سوال ۱۲۶۰۔ ایک قصور وار ڈرائیور سڑک پر پیدل چلنے والے شخص کو ٹکّر مار دیتا ہے اور اسپتال لے جانے کے بہانے سے زخمی کو گاڑی میں سوار کرلیتا ہے لیکن سزا کے خوف سے اُسے جنگل بیان میںلوکوںکی رسائی سے دور چھوڑکرفرار ہوجاتاہے ،زخمی شخص کا خونریزی اور طبّی امداد نہ ملنے کی و جہ سے اسی بیابان میں انتقال ہوجاتا ہے، کیا اس قتل کو، قتل عمد شمار کیا جائے گا؟

جواب: اگر اس کا اس حال میں بیابان میں چھوڑ دینا باقاعدہ، اس کی موت کا باعث تھا تب یہ قتل عمد ہی شمار ہوگا ۔

قتل خطاءتعزیرات (غیر معیّن سزائیں)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma