حدود کے متفرق مسائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
تعزیرات (غیر معیّن سزائیں)7.ارتداد کی حد (مرتد کی سزا)

سوال ۱۲۲۵۔ استمناء کے ذریعہ منی خارج کرنے کا کیا حکم ہے البتہ اس صورت میں جبکہ اس کا بدن میں رہنا نقصان دہ ہو؟

جواب: عام طور پر ایسی حالت میں، سوتے وقت بدن سے خارج ہوجاتی ہے لہٰذا دوسرے کسی کام کی ضرورت نہیں ہے ۔

سوال ۱۲۲۶۔ کیا تخیّل اور خیالات کے ذریعہ استمناء ممکن ہے اور اگر بدن سے کوئی رطوبت خارج ہوجائے تو اس صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: تخیّل کے ذریعہ استمنا بالکل ممکن ہے، لیکن اگر خارج ہونے والی رطوبت مشکوک ہو جس میں منی کی علامتین نہ پائی جاتی ہوں یا اس کی بعض علامتیں پائی جاتی ہوں تو منی نہیں سمجھی جائے گی ۔

سوال ۱۲۲۷۔ یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ فطری طور پر عورت، زیادہ حساس ہوتی ہے اور جلد ہی شیطانی وسوسوں کا اثر قبول کرلیتی ہے، کیا اس کی غلطیوں کی سزا مردوں سے مختلف ہوتی ہے؟

جواب: تعزیرات (اور سزا) کے مسائل میں اپنے اعمال کے بارے میں ہر شخص کی ذمہ داری کا تعلق، اس کے مختلف عوامل سے متاٴثر ہونے کی مقدار اور جرم کی نوعیت سے ہوتا ہے ۔

سوال ۱۲۲۸۔ اگر کوئی شخص مکمل قرآن یا بعض پاروں کا حافظ ہو اور کسی ایسے جرم اور گناہ کا مرتکب ہوجائے جس کی حد (سزا) معین ہے، کیا اس کا حافظ قرآن ہونا، اس کی سزا میں تخفیف (چھوٹ) یا سزا کے ختم ہونے کا سبب ہوجائے گا؟

جواب: اگر اقرار کے ذریعہ، اس کا جرم ثابت ہوا ہو، تب تو حاکم شرع اس کی سزا میں چھوٹ (تخفیف) دے سکتا ہے یا اس سے صرف نظر کرسکتا ہے لیکن اگر بیّنہاور دلائل کے ذریعہ ثابت ہوا ہو تو سزا کا حکم، اپنی قوت پر باقی ہے ۔

سوال ۱۲۲۹۔ کیا زناءِ محصنہ اور لواط کرنے والا خود کو قتل کرسکتا ہے؟

جواب: حاکم شرع کے حکم کے ذریعہ ہی سزا دی جانی چاہیے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ گناہ گار، حاکم شرع کے پاس جاکر اپنے گناہ کا اعتراف کرے بلکہ فوراً توبہ کرسکتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنے ماضی کی کسر پوری کرسکتا ہے اور اس طرح سے خود کو سزا سے بچا سکتا ہے ۔

سوال ۱۲۳۰۔ اگر کوئی انسان زنا سے بچنے کے لئے استمناء کرنے پر مجبور ہوجائے تو کیا وہ استمناء کرسکتا ہے نیز کیا یہ کام اس کے لئے جائز ہے؟

جواب: ایک گناہ سے نجات حاصل کرنے کا راستہ دوسرا گناہ نہیں ہے، اُسے شادی کے متعلق فکر کرنا چاہیے، یا روزہ اور ورزش، جیسے طریقوں سے گناہ سے بچنا چاہیے اور دوسرے گناہ کا سہارا نہیں لینا چاہیے ۔

سوال ۱۲۳۱۔ کیا زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والا بچہ ، شرعی اولاد کے حکم میں ہوتا ہے؟

جواب: زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچہ کا حکم، پرورش اور اس کے اخراجات وغیرہ کے لحاظ سے (ان صورتوں کے علاوہ جہاں دلیل مستثنیٰ قرار دیتی ہے جیسے میراث کا مسئلہ) وہی ہے جو شرعی بچہ کا ہوتا ہے لہٰذا اس بناپر، محرم ہونے، اس کی پرورش، نگہداشت اور تربیت کے تمام احکام ولد الزنا کے بارے میں جاری ہوں گے فقط اس کو میراث نہیں ملے گی ۔

سوال ۱۲۳۲۔ حدود (سزاؤں) کے باب میں، اصل قاعدہ و قانون کیا ہے؟ اور اگر سزا کے ساقط ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تب کیا کرنا چاہیے؟

جواب: حدود کے باب میں، کسی بھی سزا کے ثابت ہونے کے بعد، اصل قانون وقاعدہ یہ ہے کہ وہ سزا ساقط نہیں ہوگی بلکہ باقی رہے گی، اور یہاں پر اصل قانون وقاعدہ سے مراد، دلیلوں کے اطلاق ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں سزا دی جانی چاہیے، خواہ وہ شخص انکار کرے یا نہ کرے، فرار ہوجائے یا فرار نہ ہو، البتہ قاعدہ استصحاب کا تقاضا بھی سزا کا باقی رہنا ہی ہے، (اگر ہم قاعدہ استصحاب کو شبہہ حکمیہ میں جاری کرنا ، صحیح سمجھتے ہوں) اس بناپر جب تک کوئی دلیل سزا کے ساقط ہونے پر قائم نہ ہوجائے، اس وقت تک سزا کا حکم باقی رہے گااور اس کو سزا ملنا چاہیے، نتیجہ میں ان تمام موقعوں پر جہاں قاضی کا علم حجّت ہوتا ہے، سزا کا حکم جاری ہوناچاہیے، اس لئے کہ امام کے معاف کرنے، یا اقرار کے بعد انکار کرنے یا اقرار کے بعد فرار کرنے کے ذریعہ سزا کے ختم ہونے کی دلیلیں، مقام گفتگو کو شامل نہیں ہیں، مگر یہ کہ حاکم کے علم کا سرچشمہ اور بنیاد، غیر صریح اقرار یا اقرار کے ملزومات جیسی چیزیں رہی ہوں، کہ اس صورت میں انکار یا اقرار یا حاکم کے معاف کرنے کے بعد، سزا کا اجرا کرنا مشکل ہے اور کم سے کم ”تدراٴ الحدود بالشبہات“ میں شامل ہے ۔

سوال ۱۲۳۳۔ کیا غیر مسلم مجروموں کو اسلامی احکام کے مطابق سزا دی جائے گی یا ان کے مذہب کے مطابق؟ دوسری صورت میں (یعنی اگر ان کو ان کے مذہب کے مطابق سزا دی جائے گی) سزا دینے والا قاضی مسلمان ہوگا یا ان کا اپنا (ہم مذہب) قاضی؟

جواب: جو چیز سورہٴ مائدہ کی بیالیسویں آیہٴ شریفہ سے استفادہ ہوتی ہے اور باب حدود اور جہاد میں ہمارے مجتہدین کے فتوے بھی اس کی تائید کرتے ہیں نیز متعدد روایتیں بھی اس پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ: مسلمان قاضی کے سامنے فقط دو راستے ہیں، پہلا راستہ یہ ہے کہ اگر وہ درخواست کریں تو اسلامی احکام کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ انہیں ان کے قاضیوں کے پاس بھیج دیا جائے تا کہ ان کے مذہب کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے ، اب رہی یہ بات کہ مسلمان قاضی ان کے مذہب کے مطابق، جو ہمارے عقیدہ کے مطابق تحریف شدہ اور منسوخ شدہ مذہب ہے، فیصلہ کرے اور اسی کو صحیح سمجھے تو اس طرح کی کوئی چیز نہ تو دلیلوں ہی سے استفادہ ہوتی ہے اور نہ ہی بزرگوں کے فتووٴں سے ثابت ہے، مذکورہ مشکل سے بچنے کے لئے جو آپ نے بیان کی ہے، فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ہی میں سے کوئی نیک قاضی ان کے مذہب کے احکام کے مطابق لیکن اسلامی حکومت کے زیر نظر، فیصلہ کرے، اور مزید دقّت کی مراعات اور عدالت وانصاف قائم کرنے کے لئے، پہلے ان کے مذہب کے احکام، ماہرین سے استفادہ کرکے، قانون کی شکل میں پاس کئے جائیںاور بعض موارد (شخصی حالات) کے ذیل میں، ترتیب دیئے جائیں تاکہ کسی طرح سے بھی ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔

سوال ۱۲۳۴۔ اگر بعض چیزیں جیسے ڈاکٹری مسئلہ میں طبیب کا نظریہ، آڈیو کیسٹ، ویڈیو کیسٹ، تصوریں، تحریریں، سرکاری کاغذات، غیر سرکاری کاغذات وغیرہ، کسی قاضی کے لئے علم آور ہوں تو کیا وہ قاضی انہیں اپنے حکم اور فیصلہ کی دلیل قرار دے سکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا قاضی کے حکم اور فیصلہ کی دلیلیں فقط بینّہ (گواہی)، قسم اور اقرار، جن کا شریعت میں تذکر ہوا ہے، جیسے امور ہی میں منحصر ہیں یا یہ کہ ہر وہ چیز جو قاضی کے لئے علم کا باعث ہو، قاضی کے فیصلہ کی دلیل بن سکتی ہے؟

جواب: عقلاء کی نظر میں معتبر تحریریں اور کاغذات، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، شریعت کی رو سے حجت ہیں، لیکن آڈیو کیسٹ فیلم وغیرہ جیسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور قاضی کا علم فقط اس صورت میں حجت اور معتبر ہے کہ جب اسے محسوسات سے جیسے مشاہدہ کرنے یا اسی سے قریب چیز کے ذریعہ، علم حاصل ہوا ہو جیسے غلام اور آقا کے جھگڑے اور (ایک بچہ کے بارے میں) دوخواتین کے اختلاف کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کےفیصلہ ، روایات میں بیان ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں مزید وضاحت اور تفصیلی گفتگو ہم نے ”علم قاضی“ کے ذیل میں کی ہے ۔

سوال ۱۲۳۵۔ اگر کسی بیمار کے اوپر حد (سزا) ثابت اور واجب ہوجائےکیا اس صورت میں اسّی (۸۰) باریک لکڑیوں کو ایک ساتھ ملاکر ایک مرتبہ میں اس بیمار کے بدن پر ماری جاسکتی ہیں؟ جواب کے مثبت ہونے کی صورت میں کیا تعزیر (غیر معیّن سزا) کا بھی یہی حکم ہے؟ اس تمہید کو پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوال کا جواب مرحمت فرمائیں: کسی خاتون نے شادی سے پہلے کے زمانے میں کوئی ایسا کام کیا تھا جس کا حکم تعزیر تھا اور اب شادی کے بعد جبکہ وہ حاملہ ہوگئی ہے اور اس کا شوہر بھی اُس کے اس کام (جرم) سے آگاہ نہیں تھا، اس کا جرم ثابت ہوگیا ہے، لہٰذا یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اس وقت وہ بیمار ہے اور حاملہ ہے نیز یہ کہ اگر اسے تعزیر اور سزا دی جائے تو اس کے شوہر کو پتہ چل جائے گا اور ممکن ہے اُسے طلاق دیدے یا دیگر مشکلات پیش آئیں، کیا اس صورتحال میں تیس (۳۰) باریک لکڑیاں ایک ساتھ ملاکر تعزیر کے عنوان سے ایک مرتبہ میں اس کے بدن پر ماری جاسکتی ہیں؟

جواب:بیمار کے سلسلہ میں تو، حد (سزا) کی تعداد کے مطابق لکڑیوں کو ایک ساتھ ملاکر ایک بار ہی اس کے بدن پر ماری جاسکتی ہیں لیکن حاملہ عورت کو وضع حمل کے بعد سزا دی جائے گی، البتہ تعزیر (غیر معین سزا) کی صورت میں چند کوڑوں پر اکتفا کی جاسکتی ہے اور تعزیر کوڑوں کی سزا ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس طرح کے موقعوں پر سرزنش کرنے یا نصیحت کرنے پر بھی اکتفا کی جاسکتی ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کے اس میں نصیحت وغیرہ کے اثر کرنے کی امید ہو ۔

سوال ۱۲۳۶۔ بعض لوگ ایسے جرائم کرتے ہیں جن کی حد (معیّن سزا) یا تعزیر (غیر معیّن سزا) ہوتی ہے اور جب وہ اپنے جرم کے ثابت ہونے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو گریہ وزاری کرتے ہیں اور ندامت وپشیمانی کا اظہار کرتے ہیں، کیا فقط پشیمانی کا اظہار کرنا کافی ہے یا یہ کہ نیک عمل کرنے اور برے کام کو ترک کرنے پر متوقف ہے؟ یعنی یہ کہ نیک عمل انجام اور اس برے کام کو بھی ترک کرے جو اس نے گناہ کیا تھا؟

جواب: اگر پشیمانی اور ندامت کا اظہار عدالت میں جاکر، قاضی کے سامنے کیا ہے تو اس صورت میں قاضی معاف کرسکتا ہے لیکن اگر عدالت سے پہلے ہی نادم ہوگیا ہے تو اس کا نادم ہونا ”حقوق الله“ میں سزا کے ساقط ہونے کا باعث ہے ۔

سوال ۱۲۳۷۔ افغانستان کے موجودہ حالات میں الله کے احکام اور حدود کے جاری کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں کے اوپر ہے؟

جواب: ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے ۔

سوال ۱۲۳۸۔ اگر زنا یا لواط کا ملزم بالفرض قاضی کے معلوم ہونے اور حاکم کے حکم اور فیصلہ دینے سے پہلے، ندامت اور پشیمانی کا اظہار کرے کیا اس کی سزا مطلق طور پر یعنی خواہ اس کی سزا سنگسار ہو یا قتل یا کوئی اور سزا ہو، اس لحاظ سے کہ جرم، اقرار یا علم قاضی سے ثابت ہوا ہے ، بیّنہ اور گواہی سے نہیں، ساقط ہوجائے گی یا یہ کہ حاکم کو اختیار ہے خواہ معاف کردے اور چاہے تو سزا دے دے، یا یہ کہ سنسگار، قتل اور دیگر سزاؤں میں فرق؟

جواب: ہر مورد میں اسی مورد کی دلیل کی پیروی کرنا چاہیے، مثال کے طور پر سنگسار کرنے کے لئے بنائے گئے گڑھے سے فرار کرنے کے مسئلہ کی دلیلیں قاضی کے علم کے مورد کوشامل نہیں ہوں گی، البتّہ بعض موارد میں قاضی کا علم، اقرار کے حکم میں ہوتا ہے ۔

سوال ۱۲۳۹۔ ان موقعوں پر کہ جہاں، اقرار جرم کے بعد انکار کرنا، سنگسار اور قتل کی سزا کے ساقط ہونے کا باعث ہوتا ہے، کیا سزا مطلق طور پر یعنی خواہ سنگسار کرنا ہو یا قتل یا سو (۱۰۰) کوڑے ہوں، بالکل ساقط ہوجائے گی یا یہ کہ سنگسار اور قتل کی سزا کے ختم ہونے کے پیش نظر، حاکم شرع ملزم کو کوڑوں کی سزا دے سکتا ہے؟ جیسا کہ حلبی کی دوصحیح روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے ۔

جواب: مکمل طور پر حد ساقط ہے لیکن تعزیر بعید نہیں ہے اور حلبی کی روایتوں کے اس حصّہ پر پر علماء نے عمل نہیں کیا ہے، فقط بہت کم علماء نے ان کے مطابق فتویٰ دیا ہے لہٰذا اس بناپر ان کے مطابق عمل کرنا مشکل ہے ۔

سوال ۱۲۴۰۔ ایک شاد ی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کی سزا ہوگئی ہے اگر اس کے اوپر سزا کا حکم جاری کرنے سے پہلے اس کا شوہر اُسے طلاق دیدے کیا اس کا طلاق دینا اس کی بہ نسبت اس کی مرضی سمجھا جائے گا اور سزا کو روکنے کا باعث ہوگا؟

جواب: طلاق اور شوہر کی رضایت، مذکورہ سزا کو جاری کرنے سے سے روک نہیں سکتی

 

تعزیرات (غیر معیّن سزائیں)7.ارتداد کی حد (مرتد کی سزا)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma