میراث کی متفرقہ مسائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
چالیسویں فصل امر المعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کی دعوت اور برائیوں سے روکنا) شوہر اور زوجہ کی میراث

سوال ١١٢١۔ جب بہن بھائی دونوں، اپنے والد کے وارث ہوں اور میراث کا مال بھائی کے اختیار میں رہے یہاں تک کہ بہن بھائی دونوں کا انتقال ہوجائے، اس کے بعد بہن کے وارث کہیں کہ ہمارا حصہ دو لیکن بھائی کے وارث جواب دیں کہ بہن نے اپنا حصہ بھائی کو ہبہ یا فروخت کردیا تھا، اس سلسلہ میں وظیفہ کیا ہے؟

جواب: اگر رشتہ دار، جان پہچان والوں اور جانکاروں سے پوچھ تاچھ اور دریافت کرنے کے بعد بھی مسئلہ واضح نہیں ہوا تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ دونوں کے وارث آپس میں مصالحت کریں البتہ اگر وارثوں میں، نابالغ بچہ نہ ہو ورنہ احتیاط یہ ہے کہ نابالغ بچہ کے حق کی رعایت کی جائے ۔

سوال ١١٢٢۔ میراث میں، دیت کی رقم کس کو ملے گی؟

جواب: نَسَبی ا ور سَبَبی تمام وارثوں کو ملے گی مگر یہ کہ ماں کی اولاد ہو (جیسے ماں کی جانب سے بھائی بہن)۔

سوال ١١٢٣۔ احتیاطاً مرحوم کے قضا روزے نماز ادا کرانے کے لئے کیا وارثوں کو میت کے ترکہ میں سے کسی شخص کو اجیر بنانے کا حق ہے؟

جواب: فقط بالغ وارثوں کو اپنے حصہ میں سے، کسی کو اجیر بنانے کا حق ہے ۔

سوال ١١٢٤۔ کیا حقیقی وارثوں کو، اپنے حق سے زیادہ میراث میں تصرف کرنے کا حق ہے؟

جواب: کسی وارث کو حق نہیں ہے کہ اپنے حصہ سے زیادہ وصول کرے، مگر یہ کہ باقی سب راضی ہوں ۔

سوال ١١٢٥۔ کیا حالت حیات میں، ہبہ کردینا، میراث سے محروم ہونے کا باعث ہوگا؟

جواب: جو مال انسان اپنی زندگی میں اپنے وارثوں کو بخشدیتا ہے، وہ مال ترکہ میں سے ان کے محروم ہونے کا باعث نہیں ہوگا ۔

سوال ١١٢٦۔ کیا میراث کے دوسرے طبقہ کے وارثوں کو، قصاص کا حق ہے؟

جواب: تما م وارثوں کو جنھیں میراث ملتی ہے، قصاص کا حق ہے، مگر شوہر اور زوجہ کہ انھیں قصاص کا حق نہیں ہے البتہ دیت کی رقم میں حصّہ دار ہیں ۔

سوال ١١٢٧۔ اگر نکاح خوان نے کسی کا نکاح پڑھتے وقت، صیغہ نکاح میں غلطی کی ہو تو کیا ان کے بچے ماں باپ کی میراث حاصل کریں گے؟ اور کیا یہ دونوں شوہر وزوجہ ایک دوسرے کی میراث لیں گے یا بچوں کے انتقال کی صورت میں، بچوں کی میراث میں حصہ دار ہوں گے یا نہیں؟

جواب: بچوں کو ماں باپ کی اور والدین کے بچوں کی میراث ملے گی لیکن میاں بیوی کو ایک دوسرے کی میراث نہیں ملے گی ۔

سوال ١١٢٨۔ اگر تمام وارث متفق ہوں تو کیا اس صورت میں، میراث کے حصوں کے برخلاف عمل کرسکتے ہیں؟

جواب: سب کی مرضی سے (جبکہ ان میں سے کوئی نابالغ نہ ہو) کوئی ممانعت نہیں ہے ۔

سوال ١١٢٩۔ کیا، بہائی مذہب شخص کو، مسلمان شخص کی میراث ملے گی؟

جواب: اس کو میراث نہیں ملے گی لیکن اگر اس بہائی شخص کے فرزند ۔، اس کے انتقال کے وقت مسلمان تھے اور دوسرے وارث ان پر مقدم نہ ہوں تب ان کو میراث ملے گی ۔

سوال ١١٣٠۔ اگر وہ شخص جس کو حج کرنے لئے نائب بنایا گیا ہے، شرط پر عمل نہ کرے اور کسی دوسرے شخص کو نائب بناکر حج کرنے کے لئے بھیج دے اور وہ دوسرا شخص میت کی نیابت میں حج کے فرائض انجام دے، کیا اس صورت میں وارثوں کو حج کے لئے دی گئی رقم کو واپس لینے اور آپس میں تقسیم کرنے کا حق ہے؟

جواب: جی ہاں، جائز ہے ۔

سوال ١١٣١۔ کیا وہ مختلف لباس، زیوارت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، جو اپنی زندگی میں شوہر نے اپنی زوجہ کے لئے خریدی ہیں، زوجہ کی ملکیت ہیں یا شوہر کا مال ہے جو وارثوں کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے؟

جواب: جب کسی مقام پر، رواج یہ ہو کہ لباس اور زیوارت، زوجہ کو ہبہ کرتے ہیں توزوجہ کی ملکیت ہیں اور اگر کسی جگہ پر یہ دستور ہو کہ یہ چیزیں امانت کے طور پر زوجہ کے پاس ہوتی ہیں اور وہ فقط شوہر کی زندگی میں انھیں استعمال کرسکتی ہے تب تما م وارثوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، لیکن عام طور پر زوجہ کی ملکیت میں دیتے ہیں ۔

سوال ١١٣٢۔ اگر بعض لوگ عمارت گرنے یا ڈوبنے کی وجہ سے مرجائیں اور مرنے والوں کا آپس میں تعلق اس طرح (جیسے باپ بیٹے) کا ہو کہ پہلے مرنے والا بعد میں مرنے والے کا وارث اور مقدس شریعت میں ان کے لئے ایک دوسرے سے میراث لینے کا حکم جاری ہے، اب اگر کچھ لوگ تیل یا دودو کی حوض یا دوسری بہنے والی چیزوں میں غرق ہوکر مرجائیں کیا ان کا بھی یہی حکم ہے؟ اسی طرح کیا دیوار یا عمارت کا منہدم ہونا، جہاز گرنے یا اس جیسے حادثوں کو بھی شامل ہوگا؟، کار ایکسیڈنٹ کی کیا صورت ہے؟

جواب: بہنے والی چیزوں میں غرق ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، ہوائی جہاز کا پھٹنا یا گرنا، اسی طرح گاڑی ایکسیڈنٹ وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے یعنی بیٹے کو باپ کے تمام مال سے اس کے حصہ کی میراث ملے گی جو اس کے ذریعہ اس کے وارثوں کو ملے گی، اسی طرح باپ کو بیٹے کی میراث ملے گی ۔

سوال ١١٣٣۔ جب کسی لاپتہ شخص کے بارے میں، اس کے انتقال ہونے کا حکم جاری اور اس کی میراث تقسیم ہوجائے اس کے بعد، وہ شخص مِل جائے، اس صورت میں اس کے اصل مال اور اس کے منافعہ کے سلسلہ میں وارثوں کا کیا وظیفہ ہے؟ نیز جو مال استعمال کی مدت میں تلف ہوگیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے، اس کے ترکہ کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا، البتہ طلاق کا حکم اس سے جدا ہے اور اگر میراث کے تقسیم کرنے کے بعد وہ لاپتہ شخص واپس آجائے تو اس کا اصل مال اور اس کا نفع سب اسی کو واپس کیا جائے گا اور جن لوگوں کے درمیان، اس کا مال تقسیم ہوا تھا، ان میں سے جس نے اس کا مال تلف کیا ہوگا وہی ضامن ہوگا ۔

سوال ١١٣٤۔ کسی لاپتہ شخص کے مرنے کا حکم جاری ہونے کے بعد، جن وارثوں کے درمیان اس کا ترکہ تقسیم کیا گیا ہے، کیا ان وارثوں کا ہاتھ امانی ہے یا ضمانی ہے؟ (یعنی کیا ان کے پاس وہ مال امانت کے طور پر ہے کہ اگر تلف ہوجائے تو ضامن نہیں ہیں، یا امانت کے طور پر نہیں بلکہ اس طرح ہے جیسے کوئی بغیر اجازت کے کسی کا مال وصول کرلے تب اس صور ت میں اگر تلف ہوجائے تو جس کے پاس تلف ہوا ہے وہی ضامن ہے لہٰذا اس تلف شدہ مال کے مثل یا اس کی قیمت ادا کرے)؟

جواب: ان کا ہاتھ ضمانی ہے (یعنی وہ لوگ ضامن ہیں لہٰذا اگر اصل مال موجود ہے تو وہی واپس کریں اور اگر تلف ہوگیا ہے تو اس کے مثل یا اس کی قیمت ادا کریں)۔

سوال ١١٣٥۔ جب کوئی مسلمان شخص جس کے چند مسلمان بچے ہیں، بہائی مذہب اختیار کرکے بہائی عورت سے شادی کرلے، اس کے انتقال کی صورت میں اس کے مسلمان بچوں ، بہائی بچوں اور اس کی بہائی مذہب بیوی کے درمیان، میراث کو کیسے تقسیم کیا جائے گا؟

جواب: جو مال پہلے سے موجود تھا اور جو کچھ اس نے بعد میں حاصل کیا ہے، وہ سب مال مسلمان وارثوں کو ملے گا ۔

سوال ۱۱۳۶۔ میں نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ مال ودولت کو، ایک ہزار تومان کے عوض، اپنے بیٹے کو فروخت اور اس کے حوالہ کردیا تھا، لیکن اس شرط پر کہ جب تک میں زندہ ہوں میرے اختیار میں رہے، افسوس کہ میرے بیٹے کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا، کیا وہ مال ودولت واپس مجھے مل جائے گا یا میرے بیٹے کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ؟

جواب: اگر آپ کا مقصد یہ تھا کہ ملکیت آپ کے بیٹے کی جانب منتقل ہوجائے (یعنی وہ مالک ہوجائے) اور اس کا منافعہ، تا حیات آپ کے اختیار میں رہے، تو اب اس کے مرنے کے بعد، وہ مال اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور آپ تاحیات اس کے منافعہ کے مالک رہیں گے ۔

سوال ۱۱۳۷۔ کیا تلوار کی طرح بندوق بھی، بڑے بیٹے کو ملے گی؟

جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس کے متعلق تمام وارثوں سے مصالحت کرے اور اگر وارثوں میں کوئی نابالغ بچہ ہو تو اس کا حق دیدیں ۔

سوال ۱۱۳۸۔ اگر بندوق کے چمبر کی مقدار سے زیادہ، تعداد میںگولیاں موجود ہوں کیا وہ بھی بڑے بیٹے کو ملیں گی ؟

جواب: گذشتہ مسئلہ کے مطابق ہے، مگر یہ کہ گولیوں کی تعداد عام طور پر جس قدر ہوتی ہیں اس سے زیادہ ہو اس صورت میں وہ تمام وارثوں کا حق ہے ۔

سوال ۱۱۳۹۔ اگر کسی شخص کی چند بیویاں ہوں اور ان سب بیویوں کی بڑی اولاد بیٹا ہو اس صورت میں یہ اسلحہ (تلوار، بندوق وغیرہ) ان میں سے کس کو ملے گا ؟

جواب: بڑا ہونے کا معیار، عمر میں بڑا ہونا ہے اور عمر کے لحاظ سے برابر (یعنی ہم عمر) ہونے کی صورت میں، ان سب کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا ۔

سوال ۱۱۴۰۔ اگر مرنے والے نے ایک تہائی مال کی وصیت نہ کی ہو، کیا مرحوم کی نماز وروزہ ادا کرانے کے لئے، وارثوں کو مرحوم کے اصل ترکہ میں سے اجرت دینے کا حق ہے ؟
جواب: اگر سب راضی ہوں اور سب بالغ ہوں تب ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال ۱۱۴۱۔ لاپتہ شخص کے مال کا کیا حکم ہے ؟

جواب: جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے مال کو محفوظ رکھنا ضروری ہے اور اگر ایسا مال ہے جس کا ضائع ہونا ممکن ہے تو حاکم شرع کی اجازت سے اس کو فروخت کرکے اس کی رقم کو اس کے بارے میں اطلاع ملنے تک ، گواہوں کے سامنے اس کے کسی قابل اعتماد وارث کے پاس رکھ دی جائے ۔

سوال ۱۱۴۲۔ اگر میراث کے کسی طبقہ کے بھی وارث موجود نہ ہوں تب کس کو میراث ملے گی ؟

جواب: اس کی میراث ، امام علیہ السلام یا ان کے جانشین کو ملے گی ۔

سوال ۱۱۴۳۔ میرے شوہر اور میرے بچّوں کے والد، مرحوم بہرام جو زرتشتی (مجوسی)مذہب پر تھے، انھوں نے انتقال سے ۵ سال پہلے ایک مسلمان عورت سے عقد متعہ کیا تھا اور نکاح نامہ میں خود کو مسلمان ظاہر کیا تھا ، اس عقد متعہ کے نتیجہ میں ان کے یہاں دو بچہ ہوئے، لیکن چونکہ ہمیں ا ن کے مسلمان ہونے کے بارے میں جس کا امکان ہے ، کوئی اطلاع نہیں تھی، نیز ہم نے کبھی انھیں دینِ مقدس اسلام کے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا بھی نہیں تھا اور خود انھوں نے بھی اس سلسلہ میں کوئی بات ہم سے یا دوسرے لوگوں سے نہیں کی تھی، لہٰذا جب ان کا انتقال ہوا تو ہم نے ایک مجوسیہونے کی حیثیت سے اور مجوسی رسم ورواج کے مطابق انھیں زرتشتی کے قبرستان میں دفن کردیا جبکہ ان کی متعی بیوی اور دونوں بچوں نے بھی ہم سے ان کے سلسلہ میں مسلمان ہونے یا اسلام لانے یا عقد متعہ کے متعلق کوئی تذکرہ نہیں کیا حالانکہ وہ لوگ ان کے دفن، کفن اور دیگر تمام رسومات میں شریک تھے یہاں تک کہ بعد میں ہمیں ان کے عقد متعہ اور نکاح نامہ کے بارے میں اطلاع ملی کہ جس میں ان کا دین، اسلام تحریر کیا گیا تھا تب ہم نے اس موضوع کو اپنے ایک مسلمان پڑوسی کے سامنے رکھا جو اسلامی فقہ اور حقوق کے موضوع پر کافی مطالعہ اور تحقیق کرچکے ہیں، انھوں نے دین مقدس اسلام کے امتیازات اور بہت سی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اور یہ کہ دین مبین اسلام، حق اور تمام ادیان الٰہی سے برتر، کاملترین، بہترین اور آخری دین الٰہی ہے، ہمیں اسلام کی جانب تشویق دلائی اور اسلام کی دعوت دی اور آخر کار ان کی ہدایت، راہنمائی اور بے لوث کوششوں سے ہم لوگ، دین مقدس اسلام کے احکام کی تعلیم سے شرفیاب ہوئے اور مسلمان ہوکر شیعہ اثناعشری ہوگئے، مذکورہ مطالب نیز یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ان کے مسلمان ہونے پر کوئی مستند دلائل موجود نہیں ہیں جو ان مرحوم کے مسلمان ہونے کو ثابت کرسکیں، ہماری خواہش ہے کہ آپ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف)کیا وہ مرحوم مسلمان تھے؟
ب) کیا ان کا مسلمان خاتون سے عقد کرنا صحیح تھا ؟
ج) کیا وہ بچّے جو عقد متعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں، ان کی جائز اولاد ہیں اور ان کے ترکہ میں سے ان دونوں بچوں کو بھی میراث ملے گی یا نہیں ؟
د) یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ مرنے والے کا ابھی تک قرض ادا نہیں کیا گیا اور ابھی تک ان کی میراث بھی تقسیم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کے ترکہ کا حساب کا ابھی تک یقینی حکم بھی جاری نہیں ہوا ہے کیا ہم لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں ان کے وارثوں میں شمار ہوں گے اور ان کے ترکہ میں سے ہمیں بھی میراث ملے گی یا نہیں؟

جواب:
الف) اگر اس نے اسلام کا اظہار کیا ہے تو اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں گے اگرچہ عبادت اور دینی وظیفوں کے انجام دینے میں کوتاہی کی ہے ۔
ب) بظاہر صحیح تھا ۔
ج) مذکورہ بچے جائز ہیں ان کو میراث ملے گی ۔
د) مفروضہ مسئلہ میں کہ ابھی تک ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا اور آپ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تو میراث کے بارے میں اسلامی قانون کے مطابق آپ لوگوں کو بھی میراث ملے گی ۔

سوال ۱۱۴۴۔ ایک مجوسی گھرانہ کا لڑکا ۱۳۶۲ئھ شمسی میں، فدائی چھاپہ مار گروہ کے ایک مہرہ کے عنوان سے، گرفتار اور قید ہوجاتا ہے، مذکورہ شخص کی سزا کا حکم بھی، جیل ہی میں، صادر ہوجاتا ہے، لیکن وہ قید میں رہتے ہوئے توبہ کرلیتا ہے اور دین اسلام کی جانب مائل ہوجاتاہے نیز قید کی سزا ختم ہونے کے بعد، جب جیل سے رہا ہواتو اس کے بعد ۱۳۶۶ء شمسی میں اس کا باپ مرجاتا ہے اور ۱۳۶۸ء شمسی میں، وہ شخص، میراث میں سے اپنا حصہ وصول کرلیتا ہے اور غیر منقولہ چیزوں کو قانونی اعتبار سے اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے ۔ اب فی الحال عدالت کے ایک وکیل کی رہنمائی سے، ملکی قانون کے بند، ۸۸۱ کی بناپر جس میں آیا ہے: ”کافر کو مسلمان کی میراث نہیں ملے گی اور اگر مرنے والے کافر کے وارثوں میں سے کوئی وارث مسلمان ہوجائے تو کافر وارثوں کو میراث نہیں ملے گی اگر چہ وہ لوگ میراث کے طبقہ اور درجہ کے لحاظ سے مقدم ہی کیو ں نہ ہوں“ وہ شخص اپنی (کافر)ماں، بہن اور بھائی کے خلاف، مقدمہ دائر کردیتا ہے، آپ فرمائیں کہ کیا مسلمان وارث کے علاوہ کافر وارثوں بھی کو میراث ملے گی ؟

جواب: مذکورہ مسئلہ کے فرض میں، فقط مسلمان وارث کو میراث ملے گی، لیکن اس طرح کے موقعہ پر اگر اخلاقی مسائل کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے ۔

سوال ۱۱۴۵۔ ایک شخص نے انتقال سے دو سال پہلے، بیماری کی حالت میں جواس کی موت کا باعث ہوئی، اپنی تمام جائداد اپنی زوجہ کو بیچ دی جس کے نتیجہ میں اس کے تمام شرعی وارث، اس کی میراث سے محروم ہوگئے ہیں، کیا اس طرح کا معاملہ شرعاً صحیح ہے؟ مذکورہ فرض میں اگر معاملہ فقط ظاہری ہو یعنی حقیقت میں معاملہ نہ ہو تو کیا تب بھی صحیح ہے، اسی طرح اگر جبر اور زبردستی کا امکان ہو تب اس کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر مذکورہ فرض میں وارثوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب: جب بھی کوئی معاملہ بظاہر، واقعی اور اختیاری حالت میں کیا جائے تو نافذ یعنی صحیح ہوگا، مگر جبکہ اس کے برخلاف ثابت ہوجائے لہٰذا اگر اس کے برخلاف ثابت ہوجائے تو معاملہ نافذ نہیں ہوگا اور چونکہ مذکورہ معاملہ اسی مرض میں کیا گیا ہے جس میں اس شخص کا انتقال ہوا ہے، لہٰذا احتیاط یہ ہے کہ فقط ایک تہائی حصہ میں اس معاملہ پر عمل کیا جائے اور باقی میراث کے متعلق، تمام وارثوں سے مصالحت کی جائے ۔

سوال ۱۱۴۶۔ ہم دو بھائی ہیں اور اپنے والد کی میراث میں ہمیں ایک باغ ملا ہے، جس میں سے آدھا باغ میرا حق ہے اور آدھا حصہ میرے بھائی کا حق ہوتا ہے، اب میں اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، اس سلسلہ میں پہلے میں نے اپنے بھائی اور اپنے پڑوسی سے گفتگو کی لیکن انہوں نے میرے حصہ کے باغ کو خرید نے سے انکار کردیا اب میں دوسرے شخص کو فروخت کرنا چاہتا ہوں لیکن میرا بھائی بیچنے نہیں دیتا اور کہتا ہے آوٴ دوبارہ تقسیم کریں حالانکہ پہلی بار جو دونوں کی مرضی سے تقسیم کیا گیا تھا اس وقت کو گذرے ہوئے ۲۵ سال ہوگئے ہیں، جبکہ اس کے منع کرنے کی وجہ، ایک درخت ہے جس کی جڑیں اس کی زمین میں اور اکثر شاخیں میری زمین میں ہیں، اسی درخت کی وجہ سے میری زمین پر دھوپ نہیں آتی، اس سلسلہ میں ہمارا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: مفروضہ سوال میں آپ اپنی زمین کو بیچ سکتے ہیں، چنانچہ پہلے تقسیم ہوگئی ہے تو دوبارہ تقسیم کرنا لازم نہیں ہے اور اگر قریب کے درخت کے پتے اور شاخیں تمہاری زمین کیلئے مشکل کا باعث ہیں تو آپ اس کی روک تھام کر سکتے ہیں ۔

سوال ۱۱۴۷۔ ایک شخص اور ان کے ایک بیٹے کا ایکسیڈنٹ کے نتیجہ میں ایک ہی وقت ایک ہی ساتھ انتقال ہوگیا، ان کے تین بچے اور بھی ہیں، نیز جس بیٹے کا ان کے ساتھ انتقال ہوا ہے اس کے بھی چار بچے ہیں، کیا اس کے بچوں کو دادا کے ترکہ میں سے کچھ میراث ملے گی؟

جواب: فرض کریں کہ پہلے والد کا انتقال ہوا ہے اور ان کے ترکہ میں سے ایک حصہ ان کے اس مرحوم بیٹے کو مل گیا ہے جو اس کے بچوں کو مل جائے گا، پھر فرض کریں کہ بیٹے کا پہلے انتقال ہوا ہے اور اس کے اُس مال سے جو پہلے سے موجود تھا، اس کے والد کو میراث ملے گی اور باقی میراث اس کے بچوں کو پہونچے گی، مختصر یہ کہ میراث کے قانون کے مطابق، دونوں کو ایک دوسرے سے میراث ملے گی اور ان کا حصہ ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ۔

سوال ۱۱۴۸۔ ایک شخص کا اپنے تین بچوں کے ساتھ، رات کے وقت، کوئلہ کی بھٹی کی زہریلی گیس سے دم گھٹ کر انتقال ہو گیا، اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کون پہلے مرا اور کس کا بعد میں انتقال ہوا ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ بچوں کے پاس تو کوئی مال و دولت نہیں تھی اور والد کے وارثوں میں، ان کی بیوہ اور والدین ہیں، ان کے درمیان کیسے میراث تقسیم کی جائے برای مہربانی بیان فرمادیں؟

جواب: والد کی میراث میں سے (ان کے ساتھ میں مرنے والے) بچوں کا حصہ لیکر ان کے وارثوں کو دیا جائے گا اور باقی حصہ دوسرے وارثوں کو دیا جائے گا ۔

سوال ۱۱۴۹۔ مہربانی فرما کر درج ذیل روایت: ”قال الشعبی:” ماراٴیت افرض من علیّ ولا احسب منہ و قدسئل عنہ علیہ السلام وہو علی المنبر یخطب، عن رجل مات وترک إمراتہ وابوین وابنتین، کم نصیب اٴمرئة؟ فقال(علیہ السلام) صار ثمنہا تسعاً، فلقبت بالمسئلة المنبریہ شرح ذلٰک: لابوین السدسان وللبنتین الثلثان، وللمراٴة الثمن عالت الفریضة فکان لہا ۳ من ۲۴ ثمنہا فلما صارت الی۲۷ صار ثمنہا تسعاً فان ثلاثة مِن۲۷ تسعہا ویبقی۲۴ لابنتین ۱۶ و۸ لابوین سَوَاء“ میں جملہٴ ”عالت الفریضہ“ کی وضاحت فرمائیں؟

جواب: مراد یہ ہے کہ شوہر کی میراث میں سے اس زوجہ کا حصہ جس کا شوہر صاحب اولاد ہو، حکم اوّلی کی بناپر ترکہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے لیکن جب والدین اور بیٹیوں کے حصے کے ساتھ جوڑا جائے اور سب کے حصوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو کل ۲۷ حصہ ہوتے ہیں (جب مال کے ۲۴ حصہ کئے جائیں تو ان میں سے دوتہائی ۱۶ حصہ ہوں گے اور چھ میں سے دو، ۸ حصّہ ہوں گے اور آٹھواں حصہ ایک تہائی حصہ قرار پائے گا اور ۱۶ و۸ و۳ سب کو ملاکر ۲۷ ہوجائیں گے) جب بھی ۲۷ حصّوں میں سے تین حصوں کو علیحدہ کیا جائے گاتو وہ کل مال کے نویں حصہ کے برار ہوگا، ا س حدیث کی تفسیر ووضاحت یہی تھی، لیکن تمام احادیث کو پیش نظر رکھ کر فقہی نظریات کے اعتبار سے، اس مسئلہ میں گفتگو کی گنجائش باقی ہے ۔

 

چالیسویں فصل امر المعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کی دعوت اور برائیوں سے روکنا) شوہر اور زوجہ کی میراث
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma